نواز شریف کے بیانیے کی فتح اور دہشت گردوں کی شکست!


جب سے وزیر خارجہ کا پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنے والا بیان پڑھا، حکومت کا پاکستان میں بروئے کار دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کے عزم اور انتہا پسندانہ رویوں کے سد باب کے لیے کاوشوں کے نئے سرے سے آغاز کے بارے میں جان کاری ہوئی ہے ہماری توجہ گاہے منیر نیازی کی مشہور زمانہ نظم کی طرف چلی جاتی ہے جس کا عنوان ہی یہ ہے کہ ”ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں“ اور گاہے مرزا غالب کے اس معرکتہ آلارا مصرع میں اٹک جاتا ہے کہ ”ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا“۔

یہی نہیں بلکہ دنیا کے مکافات عمل کے اصول پر روایتی انداز سے ایمان نہ لانے کے باوجود ذہن کبھی کبھار اس نظریے کی طرف بھی منتقل ہو جاتا ہے کہ واقعی یہ قانون مکافات عمل ہی کا شاخسانہ نہ ہو یا ہمارے ہاں ایک اور تاریخی جملہ تواتر سے ایسے مواقعوں پر دھرایا جاتا ہے کہ ”تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے“۔ اسی پر بس نہیں مختلف النوع خیالات کی وادیوں میں بھٹکنے والا ہمارا ذہن جناب وزیر خارجہ اور چیف جسٹس صاحب کے سنہری بیانات کی ٹائمنگ کے حسن اتفاق کی طرف بھی آوارہ گردی کرنے لگتا ہے کیونکہ جناب چیف جسٹس نے بھی کل ہی سے سچ کے نئے سفر کی بازیافت کا اعلان فرمایا ہے۔

یاددش بخیر جو بات آج وزیر خارجہ اور چیف صاحب نے ارشاد فرمائی ہے وہی بات ہمارے ایک ”غدار“ ”داغدار“ اور ”مودی کے یار“ نے بھی تین سال قبل کہی تھی کہ ہمیں سب سے پہلے اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کی ضروت ہے۔ منجی تلے ڈانگ تو کیا پھیرنی تھی البتہ اس جرم کی پاداش میں منصوبہ سازوں نے ڈان لیکس کا ہوّا کھڑ کر کے مودی کے یار کو کاروبار حکومت و سیاست سے بارہ پتھر کر کے نشان عبرت بنا دیا۔ اب یہ ”غدار“ اور ”ملک دشمن“ کال کوٹھری میں پڑا کبھی ہمارے فیصلہ سازوں پر مسکرا تا ہے اور کبھی ان کی ذہنی حالت پر اسے رونا آتا ہے۔

ایک اور حسن اتفاق یا سوئے اتفاق دیکھیے کہ نام نہاد ڈان لیکس کا مسئلہ دس مئی کو ختم ہوتا ہے اور چھبیس جولائی کو نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر کے ان کے خلاف کرپشن، ٹیکس چوری اور ناجائز اثاثہ جات کے مقدمات کا آغاز کر کے تمام عدالتی نظیروں کے بر خلاف چھ ماہ کے اندر فیصلہ سنانے کے احکامات صادر کر دیے جاتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ ڈان لیکس کی حقیقت بھی سن لیں جس نے اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید، خارجہ امور سے متعلق معاون خصوصی طارق فاطمی، وزیر اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن افسر راؤ تحسین کے عہدوں کا تاوان لینے کے باوجود حکومت وقت کا دھڑن تختہ بھی کر لیا تھا۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ واشنگٹن میں اوباما نواز ملاقات کے دوران امریکی صدر نے ہمارے نان سٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے اور حکومت و اسٹیبلشمنٹ کے دوہرے کردار کے حوالے سے شکوہ کیا تھا اور اپنا گھر درست کرنے کا حکم نما مشورہ دیا تھا۔ وزیراعظم نے واپس آکر اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو اوباما کے تحفظات سے آگاہ کرکے ضروری اقدامات کرنے کی بات کی تھی۔ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اہم اجلاس میں سول اور فوجی قیادت کا اس حوالے سے اختلاف سامنے آیا۔

ڈان لیکس کے رپورٹر سیرل المائڈہ نے اختلاف کی اس کہانی کو مرچ مصالحہ لگا کر ڈان اخبار میں شائع کر دیا۔ اس پر اسٹیبلشمنٹ نے سبکی محسوس کی۔ وزیراعظم نے نوٹس لیا۔ کمیٹیاں بنیں۔ چھان پھٹک اور تحقیق و تفتیش ہوتی رہی۔ تا آنکہ انتیس اپریل دو ہزار سترہ کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے حکومتی کمیٹی کی رپورٹ اور اٹھائے جانے والے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اسے شد و مد سے مسترد کردیا۔ پھر اچانک دس مئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے انتیس اپریل کا بیان واپس لے کر حکومتی مؤقف کو من و عن تسلیم کرنے کرنے کا واشگاف اعلان کردیا۔ پاکستانی سیاسی حالات کے اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھنے والوں کا یہ خیال ہے کہ نواز حکومت کے خاتمے اور نواز فیملی کے خلاف پے در پے ہونے والے عدالتی اور انتظامی فیصلوں کا تعلق اسی وقفے سے ہے جس کا دورانیہ بارہ دن پر مشتمل ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں بابا۔

آج ہمارے وزیر خارجہ، وزیر اعظم، منصوبہ ساز اور تمام فیصلہ ساز یہی بات بتکرار کر رہے ہیں کہ ہم نے دنیا کی آنکھوں میں بہت دھول جھونک لی، ڈبل گیم کی انتہا کردی، اپنے ستر ہزار سیکیورٹی اہلکار شہید کروانے اور اربوں ڈالرز دہشت گردی کی جنگ پر جھونک دینے کے باوجود اگر ہمارے قریبی دوست بالاکوٹ دراندازی پر مذمت نہیں کررہے اور او آئی سی اجلاس میں ہمارے بھرپور احتجاج کے باوجود بھی شسما سوراج کو معزز مہمان کے طور پر بلا کر ہمارے سینوں پر مونگ دلی جارہی ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ دنیا نے ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے۔

اب ہمارے پاس رنگ بازی کا مزید موقع نہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نے کہ نواز شریف کے اس بیانیے کو پوری تندئی سے عملی جامہ پہنائیں جو انہوں نے کچھ سال پہلے دیا تھا۔ ہم نے پرائیویٹ لشکروں، جیشوں اور جتھوں کے خاتمے کے بجائے نواز حکومت کا خاتمہ کردیا۔ ہمیں خوشی ہے ریاست دیر ہی سے سہی نواز شریف کے بیانیے پر پوری شد و مد سے عمل درآمد کرنے کے عزم کا اظہار کر رہی ہے۔

نہ لب سے آہ نہ دل سے صدانکلتی ہے

مگر یہ بات بڑی دور جا نکلتی ہے

ستم تو یہ ہے کہ عہدِ ستم کے جاتے ہی

تمام خلق مری ہم نوا نکلتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).