اندھیروں میں ڈوباہوا روشنیوں کا شہر


اگر عوامی ضرورت کی سب سے اہم ایجاد موجودہ دور میں دیکھا جائے تو بلب اور بجلی کی ایجاد ہے۔ جن کے باہمی تعلق کی وجہ سے گھروں کو رونق ملی اور شہروں میں چمک آگئی ہے۔ اگر چہ بجلی ایجاد ہونے سے اب تک عشرے نہیں بلکہ صدیاں گزری ہیں لیکن اس کے باوجود سب سے اہم ضرورت بجلی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی کی فراہمی کو عوامی بنیادی حقوق کی فہرست میں بھی شامل کردیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کی یہ ایک آسان مثال بن گئی جس کے اعداد و شمار سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور فراہمی کو تولا جاسکتا ہے۔

گلگت بلتستان اپنے قدرتی وسائل کی وجہ سے محققین کے لئے ہمیشہ سے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ بعض اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ یہاں پر ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیداکرنے کی صلاحیت ہے جبکہ باقی اعداد و شمار اس بات پر متفق ہیں کہ گلگت بلتستان میں کم از کم 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اور 50 ہزار میگاواٹ کا یہ ہندسہ صرف پن بجلی کا ہے، جدید جنریٹرز، ہوا سے بجلی پیدا کرنا اور سورج کے ذریعے بجلی کی پیدا کرنے کی صلاحیتیں اس کے علاوہ ہیں۔ جن کو ساتھ شامل کرنے سے کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔

مسلم لیگ ن کی تعمیر و ترقی کے نام پر وجود میں آنے والی حکومت کو چار سال مکمل ہونے کو چند ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ مسلم لیگ ن جب اقتدار میں آئی اس وقت ممکن ہے کہ تھوڑی بہت بہتری بھی ہوگی لیکن چار سال کے بعد بجلی کی صورتحال کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ حافظ حفیظ الرحمن جب وزیراعلیٰ بنے اسی مہینے صحافیوں سے ایک نشست میں بجلی کے حوالے سے لائحہ عمل کا پوچھا تو ان کا حساب کتاب کچھ ایسا تھا کہ جیسے مہدی شاہ حکومت میں بجلی کے پیسے سیدھے وزراءکے جیب میں چلے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق چند کروڑ روپے میں بجلی کی صورتحال بڑی حد تک بہتر ہوسکی تھی لیکن اربوں روپے وفاق سے آتے گئے چار سالوں میں بجلی کے نظام میں کسی قسم کی بہتری نہیں آسکی ہے۔ محکمہ برقیات کا رواج اب بھی برقرار ہے کہ شیڈول لوڈشیڈنگ کے دوران بھی آدھے گھنٹے تاخیر سے بجلی فراہم کی جاتی ہے اور مقررہ وقت سے تقریباً آدھے گھنٹے قبل ہی بند کی جاتی ہے، یوں بجلی کی فراہمی کا دورانیہ اس وقت زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم از کم 20 گھنٹوں تک پہنچا ہوا ہے۔ یادداشت بخیر جناب وزیراعلیٰ صاحب کہا کرتے تھے کہ آئندہ گلگت بلتستان کے عوام بجلی کو ہیٹنگ، کوکنگ کے علاوہ واشنگ کے لئے بھی استعمال کریں گے اور یہ خوشخبری سنانے کے پیچھے وجہ یہی تھی کہ جنگلات کو بچایا جائے لیکن نہ جنگل بچ سکا نہ ہی بجلی ان مقاصد کے لئے استعمال ہوسکی۔

سرکاری موقف یہی ہے کہ گلگت شہر میں بجلی کی طلب 64 میگاواٹ ہے جبکہ بجلی کی پیداوار کل 34 میگاواٹ ہے، مطلب یہ کہ گلگت شہر میں بجلی کے طلب اور رسد میں نمایاں فرق ہے اور یہ فرق آدھے سے کم ہے۔ اس منطق کے مطابق بھی شہریوں کو کم از کم 12 گھنٹے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے لیکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاروبار زندگی سخت متاثر ہے۔ گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں کے لوگ اس سخت سردی میں جیتے ہیں کمال کرتے ہیں۔

سوست اور آس پاس کے علاقے ان سردیوں سے نبردآزما ہونے کے لئے چائینہ سے منگوائے گئے کوئلے کا استعمال کرتے ہیں لیکن دیگر بالائی علاقوں کے پاس ٹھٹھر ٹھٹھر کر جینے کے علاوہ گنجائش موجود نہیں ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار کا بڑا حصہ آج بھی سپیشل لائنوں اور سپیشل ٹرانسفارمروں کو چلاجاتا ہے۔ محکمہ برقیات کے سیکریٹری سید عبدالوحید شاہ کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کی سپیشل لائنوں اور ٹرانسفارمروں کے خلاف ایک نمائشی شو رکھا گیا جس نے گوکہ مقامی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی مگر شہریوں کو لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے میں زرہ برابر بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا۔

صوبائی حکومت گلگت بلتستان کا بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ پر یہ بھی موقف ہے کہ گزشتہ ستر سالوں میں گلگت بلتستان میں صرف 92 میگاواٹ بجلی پیداکی جاسکی ہے جبکہ ہمارے مختصر دور میں یہ مجموعی پیداوار 162 میگاواٹ تک پہنچ چکا ہے۔ صورتحال اس نمایاں کامیابی کے باوجود وہی ہے جوبالائی سطور میں درج کی جاچکی ہے۔ گلگت شہر میں موجود لوگ بجلی کی فراہمی کے دورانیہ میں ایک لمحے کا بھی اضافہ نہیں دیکھ پائے ہیں۔ گلگت شہر گلگت بلتستان کا کاروباری، تجارتی اور ہر قسم کے دفاتر کا مرکز ہے جن کا کم از کم 70 فیصد انحصار بجلی پر ہوتا ہے، سیاحوں کی اپنی موٹرسائیکل اور اپنی گاڑی میں آمد پر مقامی پٹرول فلنگ سٹیشن سے پٹرول اور مقامی مارکیٹ سے اشیاءخوردنوش کو میڈیا میں باربار علاقائی زرمبادلہ میں اضافہ قرار دیتے ہوئے صوبائی حکومت کو اس بات پر بھی غور کرنی چاہیے کہ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگوں کاکاروبار مکمل طور پر تباہ ہے، گزشتہ پانچ مہینوں سے لوگ صرف مخصوص گھنٹوں کا انتظار کرتے ہیں تاکہ بجلی کا دیدار ہوسکے اور وہ اپنے گھر والوں کے لئے کچھ کماکر لے جاسکے۔

دیدار سے یاد آیا کہ پیپلزپارٹی کے دور میں دیدار علی وزیربرقیات ہوا کرتے تھے جو اپنی علیک سلیک کی عادت کی وجہ سے وزیرسلام دعا کے طور پر بھی مشہور ہوئے تھے۔ گلگت بلتستان کے عام انتخابات 2015 سے قبل نادرا اور الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا تھا تاکہ آئندہ انتخابات کے لئے رائے لی جاسکے اور انہیں ووٹرلسٹوں کی تیاری اور دیگر معاملات سے آگاہ کرسکے۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ ن کے صدر اور موجودہ وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے وزیر برقیات دیدار علی صاحب کو سامنے رکھ کر خوب کلاس لی تھی کہ ان کے دور میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اور صوبائی حکومت اس لوڈشیڈنگ کے سازش میں ملوث ہے جس کا مطلب یہ بنا کہ لوڈشیڈنگ مصنوعی تھی۔

آج وزیر برقیات دیدار علی نہیں ہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے صوبائی جنرل سیکریٹری اور سینئر صوبائی وزیر اکبر تابان ہیں۔ کیا مجال ہے کہ کسی عوامی اجتماع میں انہیں دیکھا گیا ہو۔ کیا مجال ہے کہ انہوں نے کبھی محکمہ برقیات کے کسی سٹیشن یا دفتر کا دورہ کیا ہو۔ کیا مجال ہے کہ انہوں نے سردیاں گلگت میں گزاری ہوں۔ اور جب عوام سے ہم کلام ہونے یا خطاب کرنے کا موقع ملتا ہے تو ایک ہی رٹی رٹائی تقریر دہراتا ہے کہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو مزدوری کرنی چاہیے لیکن یہ لوگ سرکاری نوکری کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔

محکمہ برقیات میں ظفر وقار تاج کے دور میں متعدد بڑے منصوبوں کی منظوری مل چکی تھی لیکن وہ منصوبے چار سال کے عرصے میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے۔ گلگت شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ بجلی کے منصوبوں پر تاخیر کی نوٹس لی جائے۔ گلگت شہر کی بے ہنگم اور بے قابو آبادی میں حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ نئے تعمیر ہونے والے عمارتوں اور پلازوں کے لئے طریقہ کار پہلے ہی وضع کیا جائے۔ ورنہ پوری دنیا کے لئے سیاحتی علاقہ اپنے مکینوں کے لئے رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).