چور، تھانیدار اور سیاستدان


میں ان دنوں ڈسٹرکٹ ہسپتال کا ایم ایس تھا۔ یہ ہسپتال گوناں گوں مسائل کا شکار تھا۔ جیسا کہ پاکستان کے دیگر ہسپتال ہیں۔ حکومت نے ہسپتالوں کو سڑکوں اور نالیوں کے مقابلے میں شودر سمجھا ہوا ہے۔ تعلیم اور صحت کے لئے مختص بجٹ اس بات کا گواہ ہے۔ اس ہسپتال میں ڈاکٹر کم تھے۔ مریض بہت زیادہ۔ سرکاری اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے مریض اس سے بھی زیادہ۔ موخّر الذکر ہسپتال میں علاج سے زیادہ پروٹوکال کے چکر میں ہوتے۔ یہ مریض زیادہ تر جسمانی کمزوری کے علاج کے لئے ہسپتال آتے تھے حالانکہ۔ زیادہ تر سرکاری ملازم ذہنی کمزوری کا شکار ہوتے ہیں۔ کوئی ڈاکٹر ان کی کمزوری کا علاج آج تک دریافت نہیں کرسکا البتہ ہسپتال میں آئی طاقت کی ساری ادویات انہی ذہنی معذوروں پر خرچ ہو جاتی تھیں۔ غریب مریض بے چارے دیکھتے رہ جاتے۔

اس ہسپتال میں چوریاں بہت ہوتی تھیں یا ان دنوں کچھ زیادہ ہو رہی تھیں۔ کئی مریضوں کے موٹر سائیکل چوری ہوئے۔ مریضوں کے پرس اٹھنے لگے۔ شکایات بڑھنے لگیں تو میں نے ڈی پی او سے بات کی۔ اس نے عذر کیا، نفری کم ہے۔ مستقل بنیادوں پر تو نہیں دی جاسکتی۔ ایک دو دن کے لئے البتہ آپ کی مدد کردوں گا۔ اس کی بات بھی درست تھی۔ آدھی نفری تو اس کی اپنی حفاظت پر مامور تھی۔ دو گاڑیاں اس کے گھر کے باہر الرٹ ہوتئں۔ ڈی سی او، سیشن جج اور منسٹرز کے ساتھ ساتھ مسجدوں مندروں اور گرجا گھروں کی رکھوالی انہی کے ذمے تھی۔ پولیس کی سردمہری کو دیکھتے ہوئے میں نے ہسپتال کے عملے سے کچھ رضاکار چوکیداری پر لگا دیے جو بغیر وردی کے خفیہ نگرانی کرنے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن چور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ میں نے پولیس کو بلایا اور وہ چور کو گرفتار کرکے لے گئی۔

چور کی گرفتاری میرا امتحان ثابت ہوئی۔ شام کو بھائی جان کا فون آیا۔ صبح ایک بہت ہی پیارے دوست کی کال موصول ہوئی۔ دونوں احباب چور کے لئے فکر مند پائے گئے۔ میں نے وڈّے تھانیدار کو فون کرکے چور کی خیریت دریافت کی۔ معلوم ہوا سب خیریت ہے۔ ابھی تک ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی۔ تفتیش کی جا رہی ہے۔ میں نے کہا تفتیش کی کیا ضرورت ہے۔ بندہ چوری کرتے موقع پر پکڑا گیا ہے۔ دو گواہ موجود ہیں۔ مریض کا پرس اور موبائیل لے کر بھاگ رہا تھا جب میرے عملے نے اسے قابو کیا۔

آپ نے اس میں کیا تفتیش کرنی ہے۔ قانون کے مطابق اس کے خلاف پرچہ کاٹیں۔ وہ لیت و لعل کرتا رہا۔ مجھے شک ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ میں نے ڈی پی او سے بات کی۔ وہ میرا دوست تھا۔ بھلا مانس انسان تھا۔ اس نے یقین دلایا کہ مجرم بچ کر نہیں جا سکتا۔ میں نے کہا وہ چور ہے کہیں بھاگ نہ جائے۔ ڈی پی او نے مجھے تسلّی دی اور فرمایا میں نے ایس ایچ او کو ڈانٹا ہے۔ آپ جیسے چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ میں مطمئن ہو گیا۔

دو دن کے بعد میرے دونوں ملازم جن کی جرات مندی سے چور پکڑا گیا تھا اور وہ دونوں موقع کے گواہ بھی تھے، میرے پاس آئے۔ دہائی دینے لگے۔ کہنے لگے ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا۔ کہنے لگے ہمیں تھانے بلایا گیا تھا۔ پہلے ہمیں لالچ دیا کہ ایک ایک موبائل فون لے لو اور گواہی سے ہٹ جاؤ۔ جب ہم نہیں مانے تو دھمکی دی اور سخت الفاظ میں کہا ”اچھا پھر دیکھ لینا“۔ اس دوران چور کے رشتہ داروں نے مجھے سفارشیں کرانی شروع کردیں۔

میں حیران تھا کہ میرے رشتہ داروں سمیت سارا شہر ہی چور کا سفارشی تھا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے ڈی پی او سے دوبارہ گذارش کی تاکہ چور کے خلاف جلدی پرچہ کٹ سکے۔ پرچہ تو نہ کٹا البتہ مجھے ایس ایچ او کا فون آیا۔ کہنے لگا سر! میں نے آپ کی تابعداری میں چور کی خوب لیتر پریڈ کی ہے۔ اب اس نے چوری سے توبہ کرلی ہے۔ اب میرے لئے کیا حکم ہے۔ میں نے اسے کہا! بھائی میں نے تو آپ کو لیتر پریڈ کے لئے نہیں کہا۔ آپ اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں اور اس کا چالان کریں پھر چور جانے اور عدالت۔

چھٹے دن تک چور کا چالان نہ ہو سکا۔ ساتویں دن مجھے ایم پی اے کا سفارشی فون آیا۔ اس ضلع کے دس بارہ سیاستدانوں نے کبھی کسی مریض کے لئے مجھے فون نہیں کیا۔ ان کی سفارشیں ناجائیز میڈیکل بل بنوانے میڈیکولیگل کیسز میں فیور لینے اور ملازموں کو ان کی مرضی کے مطابق ڈیوٹی لگوانے تک محدود ہوتی تھیں۔ ایم پی اے صاحب فرمانے لگے، ڈاکٹر صاحب یہ چور سات آٹھ سو ووٹوں کا مالک ہے۔ چور کی ساری برادری میری ووٹر ہے۔ اس وقت کوئی پچاس آدمی چور کی سفارش کے لئے میرے پاس بیٹھے ہیں۔

ایس ایچ او نے بھی ان سے کافی مال کمایا ہے۔ وہ پرچہ تو نہیں کاٹے گا۔ آپ مہربانی کرو۔ میری عزت رکھ لو۔ میرے کہنے پر اسے معاف کردو۔ میں نے کہا آپ حلف دے دیں کہ یہ چور اب ہسپتال کا رخ نہیں کرے گا تو میں معاف کر دیتا ہوں۔ ایم پی اے صاحب نے حلف دیا کہ چور اب ہسپتال کا رخ نہیں کرے گا۔ میں نے بھی حالات و واقعات کی روشنی میں اپنی عزت بچانے کی خاطر اسے معاف کردیا۔ ایس ایچ او نے فوراً اسے رہا کردیا۔ ایم پی اے خوش ہو گیا۔ پولیس بھی خوش اور سب سے زیادہ چور خوش۔ ناراض تھے تو میرے دونوں ملازم جو گواہ بھی تھے اور میرے پریشر میں پولیس اور چور کی طرف سے دی گئی موبائل فون کی رشوت کو ٹھکرا بیٹھے تھے۔

ابھی دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ چور صاحب ہاتھ میں خنجر پکڑے میرے ملازموں کو مارنے آ پہنچے۔ مجھے اس بات کا پہلے سے ہی ڈر تھا کہ چور بدلہ لے گا۔ اس لئے میں نے ملازموں کو الرٹ کیا ہو تھا۔ اس بار میں نے پولیس کو نہیں بلایا۔ نہ ہی ڈی پی او کو فون کیا۔ نہ ہی ایم پی اے سے کوئی گلہ کیا، نہ ہی اسے حلف یاد دلایا۔ چور کو پکڑا۔ ہسپتال کے ملازموں نے اس کی خوب پھینٹی لگائی۔ میں نے انہیں ہدایت کی تھی کہ ہڈی نہ ٹوٹے اور خون نہ بہے۔

چور کی چیخیں پورے ہسپتال میں گونجتی رہیں۔ کسی نے اس کی سفارش نہیں کی۔ پھر میں نے چور کو خود پیار سے سمجھایا کہ چور صاحب یہ ہسپتال آپ کا اپنا ہے۔ جب چاہیں قدم رنجہ فرمائیں۔ آپ کے ساتھ ہر بار اسی طرح محبت کا برتاؤ کیا جائے گا۔ چور نے شربت کا گلاس میرے ہاتھوں سے پیا اور پھر کبھی ہسپتال کا رخ نہیں کیا۔

گپّی چوک میں یہ واقعہ سننے والوں نے بہت انجوائے کیا۔ ایس ایچ او کی بہت تعریف کی۔ متفقہ طور پر اس کے فعل کو قابل ستائیش قرار دیا جس نے سات دن چور کو حوالات میں بند رکھا اور مدعی سے پوچھے بنا اسے رہا نہیں کیا۔ سب نے ایم پی اے صاحب کی معاملہ فہمی کو سراہا جس نے پوری برادری کی بے چینی کو اپنی فہم سے ختم کیا اور انہیں مطمئن کیا۔ وہاں موجود سب لوگوں نے البتہ مجھے خوب لعن طعن کی۔ سب نے فیصلہ کیا کہ میرے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں کو بیدار کیا جائے اور ان کے ساتھ مل کر ایسی تحریک پیدا کر دی جائے کہ انسانوں پر بھلے وہ چور ہی کیوں نہ ہوں تشدد کا غیر انسانی رویّہ ختم کرایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).