بھٹو مر گیا، ضیا الحق زندہ ہے


مبارک ہو اسلام کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو اور ان تمام لوگوں کو جو اپنے اپنے راجواڑے میں اپنے برانڈ کا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ کان پک گئے یہ سنتے سنتے کہ بھٹو زندہ ہے۔ مگر اہلِ وطن کو مبارک ہو کہ ضیا الحق نہ صرف زندہ ہے، بلکہ پوری روحانی قوت کے ساتھ ملک کے چنیدہ لوگوں کے دہن اور ذہن پر حاوی ہے۔ بھٹو کی پارٹی کا تو جو حال ہوا، اب موصوف زندہ بھی ہوتے تو شرمندہ ہی ہوتے۔ لیکن ضیا الحق جس کے سیاسی وارث بھی اسے اب عاق کر چکے ہیں، اس کی بادشاہی پوری آب و تاب سے جاری ہے۔

تمہید طویل ہونے اور سابق صدر ضیا الحق کے نام سے ایک مخصوص ذہنیت کو منسوب کرنے سے کسی کی دل آزاری ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ لیکن کیا کیجئے صاحب کہ ضیا الحق نہ صرف آمریت کا نشان ہے بلکہ استعارہ ہے ڈنڈے کے زور پر اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنے کا۔ قوم کو وہ وقت نہیں بھولا ہو گا کہ جب افسر شاہی اور سیاسی نوٹنکی باز صدر ضیا کی گڈ بکس میں رہنے کے لئے شیروانی زیب تن کرنا شروع ہو گئے تھے، وضو بے وضو صدر کے پیچھے نماز میں مل جاتے تھے، مخالفین کو سرِ عام کوڑے مارے جاتے تھے، حدود کے نام پر لوگوں کی ذاتی زندگیوں کے حق کو پامال کیا جاتا تھا اور توہینِ مذہب کے نام پر ذاتی دشمنوں کو تدارک کیا جاتا تھا۔

خبر ہے کہ یونیورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے بزنس ایڈمنسٹریشن سکول نے طلبا و طالبات کے لئے نیا ڈریس کوڈ یا لباس کا قاعدہ متعارف کروا دیا ہے، جس پر گیارہ مارچ سے عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ خلاف ورزی پر پانچ ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ نئے ڈریس کوڈ کے مطابق طالبات کے لئے سر پر سکارف لینا ضروری ہے۔ طلبا و طالبات کے جینز پہننے پر پابندی ہے۔ طلبا جمعے کے روز شلوار قمیض لازماً پہنیں گے۔ جبکہ طالبات کے جینز، کیپری اور کوئی بھی مغربی لباس پہننے پر پابندی ہے۔ مطلب کیسے کر لیتے ہیں بھائی؟ یہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں یا لوگوں کے دلوں میں مشرقی لباس اور قوانین سے نفرت پیدا کر رہے ہیں؟

سورة بقرہ کی آیت ہے، لا اکراہ فی الدین ترجمہ: دین میں جبر نہیں۔ آیة الکرسی کے بالکل اگلی آیت ہے۔ یعنی آپ کسی کو زبردستی کلمہ نہیں پڑھا سکتے، ڈنڈے کے زور پر نماز نہیں پڑھا سکتے، دین کے کسی بھی اور حصے کو زبردستی کسی کی زندگی پر نافذ نہیں کر سکتے۔ ماسوائے ان ریاستی قوانین کے جو قرآن و حدیث کی روشنی میں بنائے گئے ہوں۔ زبردستی کر کے آپ صرف لوگوں کو دینِ اسلام سے بیزار کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ؐ کی حیاتِ طیبہ، خلفائے راشدین، تابعین، تبع تابعین اور جتنے بھی غوث، قطب، ابدال ہوئے کسی نے بھی احکامِ شریعت زبردستی نافذ نہیں کیے۔ ہندوستان میں تو اسلام پھیلا ہی اولیا کے حسنِ عمل سے۔ پھر یہ کون لوگ ہیں اور کیسے اپنے آپ کو اسلام کا ٹھیکیدار فرض کر لیتے ہیں؟

جہاں تک لباس کا تعلق ہے۔ لباس کا تعلق کسی مذہب سے نہیں۔ مختلف جغرافیائی حدود میں مختلف لباس پہنے جاتے ہیں۔ مثلاً عرب جو لباس پہنتے ہیں، ہم پاک و ہند کے لوگ وہ نہیں پہنتے۔ ایران، بنگلہ دیش، ملائیشیا، انڈونیشیا، سوڈان، نائیجیریا، یورپ اور امریکہ کے مسلمان نہ عربوں جیسا لباس پہنتے ہیں، اور نہ ہی ہمارے جیسا۔ پھر ہم یہ کیسے فرض کر لیتے ہیں کہ شلوار قمیض اسلامی لباس ہے اور جمعے کے روز شلوار قمیض پہنے بغیر جمعہ کی نماز نہیں پڑھی جا سکتی؟

اور فرض کیجئے کہ ایسا ہی ہو، اب ایک شخص کسی بھی وجہ سے نماز نہیں پڑھ سکتا، یا بالفرض نہیں پڑھنا چاہتا، تو آپ کیسے اسے مجبور کر سکتے ہیں؟ ہاں سب لوگ نماز پڑھنے جائیں، اور جو ایک دو نہیں جائیں گے وہ بھی چند ہفتے بعد خود کو نماز کے لئے مائل پائیں گے۔ لیکن زبردستی نماز پڑھا کر کیا لوگوں کو نماز سے بیزار نہیں کریں گے؟ موضوع سے ہٹنے کے لے معذرت، اور اس بات کا اعتراف بھی کہ زبردستی نماز پڑھنے کے حوالے سے مختلف لوگوں کی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ ناچیز نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، جس کا حوالہ سورة بقرہ کی آیت ہے۔ باقی جہاں تک اصل موضوع یعنی ایک نام نہاد ڈریس کوڈ کا نفاذ ہے، اس کی کھل کر مخالفت کر رہا ہوں۔

جہاں تک لباس کا تعلق ہے تو لباس کا تعلق ثقافت سے ہے، جغرافیائی حدود سے ہے نہ کہ کسی مذہب سے۔ ہم یہ کیسے فرض کر لیتے ہیں کہ شلوار قمیض مسلمان لباس ہے اور پینٹ شرٹ غیر مسلم لباس ہے؟ اگر پینٹ شرٹ غیر اسلامی لباس ہے تو جمعے کے علاوہ باقی دنوں میں کیوں اس کی اجازت ہے؟ ہم کیسے یہ مان لیتے ہیں کہ جینز پہننے سے اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے؟ بھول گئے ہم کہ صدر ضیا کے دور میں بھی ٹی وی پر مرد و خواتین دونوں کے لئے جینز پہننے پر پابندی تھی۔ پھر کیا ہوا؟ صدر ضیا کی عاقبت تو خدا جانے کیا ہوگی، لیکن اس کی مذکورہ پابندی تو تاریخ کے کوڑے دان کا رزق ہو گئی۔ اسی طرح اس دور میں نافذ ہونے والی دیگر پابندیاں جن کا بالعموم تعلق دکھاوے کے اسلام سے تھا، وقت کی گرد میں دفن ہو گئیں اور سماج نے اپنا راستہ خود بنا لیا۔

ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ثقافت بہتے پانی کی طرح ہوتی ہے۔ ثقافت کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ لباس، زبان، رسوم و رواج، تہوار، روزمرہ وغیرہ۔ جب آپ کسی ایک پہلو کو زبردستی بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ پانی کی طرح مزاحمت کرتا ہے۔ اور بالآخر اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے۔ جیسے چھوٹی چھوٹی ندیاں بڑے دریا میں گم ہو جاتی ہیں یا بڑا دریا ندیوں کو کھا جاتا ہے، اسی طرح بڑی ثقافت چھوٹی ثقافت پر حاوی ہو جاتی ہے۔ مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے ان سلے کپڑے پہننے کا رواج تھا۔ خواتین ساڑھی باندھتی تھیں، اور مرد حضرات ان سلی چادر کو بدن پر لپیٹ لیتے تھے، قریب قریب ویسے جیسے مہاتما گاندھی لپیٹتے تھے۔ مسلمان آئے تو اپنے ساتھ سلے کپڑے پہننے کا رواج اور فن بھی لائے جو زیادہ مہذب بھی تھا اور جمالیات تقاضوں سے ہم آہنگ بھی۔ تو آہستہ آہستہ اس نے کمزور ثقافت کے لباس پر غلبہ حاصل کر لیا۔ آج ہندوستانی جو کرتا پاجامہ پہنتے ہیں، وہ برِصغیر کے مسلمانوں کی دین ہے۔

جب انگریز آئے تو ان کے ساتھ مغربی لباس بھی آیا جو زیادہ معقول، مہذب اور آسان تھا، تو کچھ اپنی افادیت اور کچھ گوروں کی مرعوبیت کی وجہ سے مغربی لباس بھی عام ہوا۔ یہی حال زبان کا ہے۔ بڑی زبان چھوٹی زبانوں پو غالب آ جاتی ہے۔ تو صاحبو ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ لباس کا تعلق مذہب سے نہیں معاشرت سے ہے۔ ہاں اسلام میں ستر دھانپنے کا حکم ہے، اس کی پابندی کسی بھی مہذب معاشرے میں لازم ہے۔

جہاں تک خواتین کے پردے کی بات ہے تو اس کے لئے مختلف مسالک میں مختلف بیان آتے ہیں۔ اب کوئی خاتون اپنے مسلک کی وجہ سے یا اپنے خاندانی رسوم کی وجہ سے یا محض اپنی خواہش کے لئے پردہ نہیں کرنا چاہتی یا سر نہیں ڈھانپنا چاہتی تو آپ کیسے اسے مجبور کر سکتے ہیں؟ جب یورپ میں سکارف لینے پر پابندی لگائی جاتی ہے تو ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ بات یہ ہے کہ نہ تو کسی کو زبردستی سکارف پہنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی زبردستی اتروایا جا سکتا ہے۔ جس کی مرضی پہنے جس کی مرضی نہ پہنے۔

مذکورہ ڈریس کوڈ میں یہ وضاحت نہیں کہ غیر مسلم اس سے مبرا ہیں۔ عام تاثر یہی ہے کہ یہ تمام طلبا و طالبات کے لئے ہے۔ اب کیا ایک عیسائی طالبِ علم کے لئے آپ کا اسلامی لباس (جسے آپ اسلامی لباس سمجھتے ہیں ) جمعے کے روز پہننا لازم ہے؟ کیا غیر مسلم طالبات غیر اسلامی لباس یعنی جینز اور کیپری وغیرہ پہن سکتی ہیں؟ اگر ہاں تو کیا آپ کا اسلام کا برانڈ خطرے میں نہیں پڑے گا؟ خدا کا خوف کریں۔ اسلام کا مذاق بنانا بند کریں۔

المیہ تو یہ ہے کہ ایسا کسی دور افتادہ علاقے کے سکول میں نہیں ہو رہا۔ لاہور شہر کی ایک بڑی یونیورسٹی میں ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ دورِ حکومت میں صوبائی وزیر تعلیم علی رضا گیلانی نے تعلیمی اداروں میں طالبات کے لئے سکارف پہننے کو لازمی قرار دینے کی تجویز دی تھی۔ پتہ نہیں ایسے نابغے کہاں سے ڈھونڈ کر لائے جاتے ہیں جنہیں نہ تو معاشرتی اقدار کا علم ہے اور نہ ہی تعلیم، معاشرت اور ثقافت کی الف بے کا بھی پتہ ہے۔

محترمہ بینظیر بھٹو ایک لفظ کثرت سے استعمال کیا کرتی تھیں، ضیاکی باقیات۔ لگتا ہے کہ ضیا کی باقیات نہ صرف کچھ لوگوں میں حلول کر چکی ہیں بلکہ ان کے دہن اور ذہن پر مکمل براجمان ہیں۔ اور ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ بھٹو تو مر چکا لیکن ضیا زندہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).