گویا کہ چنانچہ۔ ۔ ۔ ۔


چونکہ سورج مشرق سے نکلتا ہے چنانچہ مغرب میں کفر و الحاد کا اندھیرا ہے، اس لئے ہمیں گندم کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ جرائم کی روک تھام کے لئے اقدامات کیے جا سکیں، مگر پاکستان کی ترقی کے لئے ڈیم انتہائی ضروری ہیں لہٰذا ملکی بقا کے لئے ناقابلِ تسخیر دفاعی نظام وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اوپر درج عبارت میں ربط تلاش کیے بغیر چونکہ، چنانچہ، اس لئے، تاکہ، مگر، لہٰذا، ہٹا کر الگ الگ پڑھیں تو ہر جملہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، مگر کیا استدلال منطقی کہلا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ ایسے استدلال سے ہمارا واسطہ روزانہ کی بنیاد پر پڑتا ہے۔

صحافی ہوں یا سیاست دان، تجزیہ نگار ہوں یا اپنی اپنی فیلڈ کے پروفیشنلز، ہمارا طرزِ استدلال ایسا ہی بن گیا ہے کہ ہم سچی بات کے لئے بھی درست دلیل ڈھونڈنے سے قاصر ہیں۔

افسوس تو یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف عوامی پذیرائی تک محدود نہیں۔ مجھے وقتاَ فوقتاَ ملک کی صفِ اول کی یونیورسٹی میں انجینیرنگ کے شعبے میں ایم ایس کے طالبِ علموں کے تھیسیس کا ایکسٹرنل ایگزامینر بننے کا اتفاق رہتا ہے، یقین کریں اچھے خاصے ضخیم ریسرچ ورک میں یہی استدلال کی کمی ایسے کھلتی ہے کہ خدا پناہ!

یہ منطق کچھ اس طرح بنائی جاتی ہے جیسے اگر ایک ریسرچ کی جائے کہ نومولود بچے جب روتے ہیں تو اگر انہیں ایک سے ڈیڑھ فٹ بلند کر دیا جائے تو وہ چپ ہو جاتے ہیں۔ یہ بات سٹیٹسٹکس کے تمام اصولوں کے ذریعے ثابت کی جا سکتی ہے۔ مگر کیا در حقیقت بچے کے چپ ہونے کا تعلق بلند کیے جانے سے ہے؟ نہیں شاید ریسرچ کرنے والے کو یہ پروفیشنل علم ہونا بھی ضروری ہے کہ بچے کے چپ ہونے کی اصل وجہ اس کا ماں کی گود میں چلے جانا ہے (جو عموماَ بستر سے ایک ڈیڑھ فٹ اونچی ہی ہوتی ہے ) محض بلند ہونا وجہ نہیں۔

مزید تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ایسی مضحکہ خیز منطق کم علمی اور نا فہمی کا نتیجہ ہی ہو۔ بسا اوقات ایسی لایعنی منطق شعوری طور پر بھی گھڑی جاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال جو بذاتِ خود کلاسیقی ادب کا درجہ رکھتی ہے وہ 1984 کے ریفرینڈم کی عبارت تھی ”اگر آپ پاکستان میں نظامِ مصطفیٰ کا نفاذ چاہتے ہیں تو میں جنرل محمد ضیاءالحق پانچ سال کے لئے آپ کا صدر ہوں“ (یادداشت کے سہارے لکھ رہا ہوں، مگر لبِ لباب ایسا ہی کچھ تھا)

اسی بودے استدلال کا نتیجہ ہے کہ ہمیں کبھی ڈیم فنڈ کے اشتہار میں پینے کے صاف پانی کی کمی کا ذکر ملتا ہے اور کبھی عدالتی فیصلوں میں ناولوں کے ریفرینس۔ اسی منطق کی کمی کی وجہ سے ہم دہشتگردی کا شکار ہونے والے بچے اور دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے والے شہید سپاہی کی بہادری کو ایک ہی ترازو میں تول دیتے ہیں، یہ سمجھے بغیر کہ دہشتگردی کا شکار ہونے والے کا بہادر ہونا ضروری نہیں اور اس کے بہادر نہ ہونے سے اس کی قربانی میں کوئی کمی نہیں آ جاتی۔

یہ الزام بھی اسی منطق کی ایک اور مثال ہے کہ انفراسٹرکچر کے منصوبے اس لئے شروع کیے جاتے ہیں کہ کرپشن کی جاسکے۔ گویا آپ کو ”مبینہ طور پر“ کرپشن کرنے والوں کی صلاحیت پر شک ہے کہ وہ سروس سیکٹر کے منصوبوں میں کرپشن نہیں کر سکتے۔

در حقیقت ایسی سقم زدہ استدلال کا فروغ اپنی مرضی کا چورن بیچنے کے لئے ضروری تھا۔ اپنے مقصد کی آبیاری کے لئے اس طرح کی دورازکار منطق اسی صورت کارآمد ثابت ہوسکتی تھی اگر ایسی منطق کو قبولِ عام بھی حاصل ہو۔ بالارادہ یا بلا ارادہ، عوام کی ذہنی استعداد ایسی ہی کردی گئی ہے (یا ہو گئی ہے ) کہ ایسی منطق اب بِک جاتی ہے، نہ صرف بِک جاتی ہے، بلکہ ہم خود بھی ایسی ہی منطق استعمال کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔

قومی منظر نامے میں اس مضحکہ خیز استدلال کا ایک اور لنگوٹیا بھی ہے۔ اور وہ ہے سالہا سال کی محنت شاقہ سے انجام دی گئی برین واشنگ کے نتیجے میں حاصل شدہ ایک مائنڈ سیٹ۔ وہ مائنڈ سیٹ، جس کے مطابق عوام بیوقوف ہیں، بریانی اور نان پر بک جاتے ہیں، ان کا اجتماعی شعور اتنا ناپختہ ہے کہ وہ قومی مسائل اور قومی سلامتی کی نزاکتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لہٰذا فیصلہ سازی اِن بونے عوام اور ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے ہاتھ نہیں دی جا سکتی۔ کبھی عدلیہ تو کبھی انتظامیہ اور کبھی مذہبی اشرافیہ کا سہارا لے کر، یا سازگار حالات میں بنفسِ نفیس فیصلہ سازی کا جبہ اوڑھ لیا جاتا ہے۔ اور اس کو قبولیت کی سند اسی ”گویا کہ چنانچہ“ کی افیون سے مل جاتی ہے جس کے عادی ہم عشروں کی محنتِ شاقہ سے بن چکے ہیں۔

کسی سازش کا نتیجہ ہو یا ہماری ذہنی اور علمی استعداد کے انحطاط کا، جب تک ہم اس افیون کے عادی رہیں گے ہمارے ساتھ وہی ہوتا رہے گا جو ہو رہا ہے۔ اور ہم لہک لہک کر گاتے رہیں گے ”کتنا پیارا گیت ہے، یہ گویا کہ چنانچہ“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).