کالج میگزین: میری زندگی کے کچھ صفحے


گلابی گالوں بھوری آنکھوں والی تبسم کالج میں ایک کاپی لے آئی تھی۔ اس کاپی میں اس نے مختلف پروڈکٹس کے ریپر کاٹ کر نفاست سے چپکائے ہوئے تھے مجھے یہ کاپی بہت ہی پسند آئی پھر میں نے وہی کاپی بنانا شروع کی پر اس میں یہ اضافہ کیا کہ ریپر کے حساب سے شعر بھی لکھ دیتی تھی۔

یہاں تو ہر ایک لڑکی شعروں والی کاپی کے معاملے میں خود کفیل تھی۔ ایک کاپی تو ہر ایک کے پاس ہوتی تھی پر میں نے ایسی تین چار بنا رکھی تھیں۔ لڑکیوں کے پسندیدہ شاعر غالب فیض، فراز، پروین شاکر ہوتے تھے کبھی کبھار کوئی اور بھی مجھے اکبر الہ آبادی بہت پسند تھے اس لئے ان کے شعر بھی بہت لکھے ہوتے۔

باقی سب لڑکیاں تو بڑے مشہور شاعروں کی شاعری لکھا کرتی تھیں پر ایک جونیئر لڑکی اپنی شاعری ہی لکھتی جو مجھے تو وہ تقریباً روز ہی سناتی تھی جو مجھے پسند آتی تھی۔

کالج میں ایک مخصوص کلچر تھا کہ سب لوگ ایک دوسرے کو اپنی کاپیاں ادھار دیتے اور ایک دوسرے کے چنے ہوئے شعر لکھتے تھے۔ یہ شعر بہت دکھی ٹائپ کے ہوتے تھے جس میں انتظار، جدائی، بیوفائی وغیرہ کا ذکر ہوتا۔ ہر ایک لڑکی کے ذہن میں ایک سپر مین بستا تھا۔ یہ خیالی شہزادہ عقل میں افلاطون، شکل میں پری زاد، اخلاق کی بلندی پر ہونے کے ساتھ قارون کا خزانہ پاس رکھتا تھا۔

خزانے کی چابی متعلقہ لڑکی کے پاس ہی ہوتی ہم میں سے کوئی لڑکی یہ سوچنا بھی گوارا نہ کرتی کہ کچھ ایسی کوئی ایک خوبی ہم میں بھی ہے کہ نہیں۔ یہ زمانہ ٹیپ ریکارڈر کا تھا۔ ٹیپ ریکارڈر ہر گھر کی ضرورت تھا۔ ساتھ ہی ڈھیروں کیسٹ بھی خریدے جاتے تھے۔

ایک دفعہ جب ہم لوگ باتوں میں لگی تھیں تو ہماری ایک سہیلی نے کہا وہ فلم نکاح کے گانے سننا چاہتی ہے پر ان کے پاس یہ کیسٹ نہیں ہے۔ ان دنوں سلما آغا کا بول بالا تھا۔ سلمیٰ آغا کی پہلی ہی فلم بلاک بسٹر ثابت ہوئی تھی جس ہی ہیروئنیں بھی تھیں تو سب نغمے بھی گائے تھے ایک دم ہی مشہور ہوگئیں تھیں۔

سلمیٰ آغا یہ کیسٹ بھائی کے پاس تھی اس لئے میں نے سہیلی کو کہا کہ میں بھائی سے چھپ چھپا کے کیسٹ لادوں گی پر ایک ہی دن سن کر دوسرے دن واپس کردیں کہ بھائی کو پتہ نہ چل سکے کہ یہ کیسٹ ان کے پاس نہیں۔ سہیلی نے وعدہ کیا کہ وہ دوسرے دن لاکر دے گی پر کافی روز گزر گئے وہ نظر ہی نہیں آتی تھیں۔ بعد میں پتا چلا وہ آتی تو روز ہی ہیں پر ہمیں دکھائی نہیں پڑتیں۔

بالآخر سینئر لڑکیوں کو بیچ میں ڈال کر تو ان کو کیسٹ لانے پر مجبور کیا ایک دن وہ کیسٹ لے کر آئیں جو میں نے خاموشی سے جاکے بھائی کی کار میں رکھ دی۔ یقینا اتنے دنوں میں تو ان کو پتہ لگ گیا ہوگا پر وہ مجرم کو شک کا فائدہ دے رہے تھے۔

انہی دنوں کالج کی طرف سے اعلان ہوا کہ کالج میگزین چھاپا جارہا ہے۔ جس کے تین سیکشن ہوں گے یعنی انگریزی، اردو اور سندھی انگریزی تو خیر ہمیں آتی جاتی نہیں تھی پر ہم نے اردو اور سندھی سیکشن کے لئے تیاری شروع کردی۔ مجھ سے جو بڑی بہن تھی وہ بھی میری کلاس فیلو تھی ہم دونوں نے لائبریری سے کتنے ہی شاعری کے مجموعے ایشو کراکے پڑھے تھے۔ اس لئے ہم کو غزل بنانے کا فارمولا پتہ لگ گیا تھا۔

ہم نے ایک ہی جیسی آواز والے الفاظ ڈھونڈ کر اپنی کاپی میں لکھے اور اردو سیکشن کے لئے غزلیں لکھنے کا فیصلہ کیا اب شاعری کی فیکٹری سے دھڑا دھڑ غزلیں نکل رہی تھیں۔ وہ شاعر ہی کیا جس کا تخلص نہ ہو اس لئے میر ی بڑی بہن نے اپنا تخلص جبین رکھا اور میں نے نہ جانے کہاں سے اتنا وقوف حاصل کرکے تو بہت ہی معتبر تخلص یعنی پھول تخلص اختیار کیا اب میں فاطمہ پھول تھی۔ ہا ہا۔

اب سندھی سیکشن کے لئے کہانیاں لکھنی تھیں میری بہن کوشش کے باوجود نہیں لکھ سکیں۔ میں نے ایک ہفتے کی کوشش کے بعد ایک دکھی کہانی لکھ ڈالی تھی۔ کہانی کو بہت ہی صاف ستھری رائٹنگ میں بیٹھ کے فیئر کیا دوسرے دن ہمارے سندھی کے سیکشن کے انچارج پروفیسر کے پاس لے گئی۔

خدا انہیں جنت نصیب کرے کہ انہوں نے کلاس میں ہی بیٹھ کر میری کہانی کو غور سے پڑھا مجھے لے کے کاریڈور میں آئے اپنی جیب سے پین نکالا کر اس پر بڑا کراس ڈالا اور کہا کہ تم اتنی چھوٹی عمر میں ایسی کہانی نہیں لکھ سکیں اور ہم چوری کی کہانی چھاپیں گے نہیں۔ سچ پوچھیں تو دو چار دن تک صدمے میں رہی تھی وہ کراس میرے دماغ پر ابھی تک نقش ہے۔

میں نے پھر سندھی کہانی کو اردو میں ترجمہ کیا اور اخبار جنگ کے ہفتہ وار میگزین میں بھیجا۔

ایک مہینے کے بعد میگزین میں میری کہانی من و عن چھاپ دی گئی تھی جب تک کالج میں رہے وہ میگزین نہیں چھپ سکا تھا جب کالج پاس کرکے گھر میں بیٹھ گئے تو کالج میگزین چھپا جس میں ہماری کوئی غزل۔ نام و نشان تک نہیں تھا کہ کبھی گزرے تھے ہم یہاں سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).