اس ہندو کے نام جس نے ہمیں چھ کلمے سکھائے


سات سال کا ہوتے ہی مجھے بھائی کے ساتھ گورنمنٹ سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ تب پہلی جماعت میں آج کی طرح کئی کتب نہیں ہواکرتیں تھیں، صرف ایک اردو کا قاعدہ اور تختی ہوتی جیسے ایک بار گھر سے لکھ کر لے جانا ہوتا اور دوسری بار وہی سکول کے ساتھ موجود نہر پر دھو کر ہاتھ سے تیز تیز گما کر سکھایا جاتا اور آدھی چھٹی کے بعد سکول میں ہی لکھی جاتی۔ سیاہی دوات کا کام اور چھوٹے چھوٹے بچے۔ ہر بچے کے چہرے پر ایک الگ ڈیزائن بنا ہوتا۔

کچھ بچوں کے رونے اور بار بار آنکھیں پونچھنے سے گالوں پر آنسوں سے دو کالی لکیریں بن جاتیں۔ جو شاید نیکی اور بدی کی لکیریں ہوتیں۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم پر بھی کافی زور دیا جاتا تمام طلباءکو سختی سے چھ کلمے رٹائے جاتے۔ ایک طالبعلم با آوازِ بلند کلمے پڑھتا اور دیگر طلباء بھی حلق پھاڑ پھاڑ کر کلمے دوہراتے۔ اس دوران ہندو طلباء کو کلاس سے باہر بھیج دیا جاتا جن کی اکثریت برآمدے میں کھیلتی رہتی مگر چند ایک ہماری آواز کے ساتھ آواز ملا کر بغیر کسی جذبہِ ایمانی کے تمام کلمے دوہراتے رہتے، یوں اکثر ہندو بچوں کو پورے چھ کلمے ازبر ہو چکے تھے۔

ان ہندو بچوں کا سر خیل ”طبلا“ نامی دراز قد سانولا لڑکا تھا، جسے حصولِ تعلیم سے کوئی خاص دلچسبی نہ تھی صرف وقت گزاری کو سکول آ یا کرتا اورنا معلوم کتنے برسوں سے ایک ہی کلاس میں تھا۔ نام اُسکا تو مجھے یا کسی کو یاد نہ تھا، مگر سب اُسے طبلا کہہ کر ہی پکارا کرتے کیونکہ ماسٹر صاحب کے جاتے ہی وہ اُنکے ٹیبل پر دونوں ہاتھوں سے کمال کا طبلا بجایا کرتا۔ طبلے کو تعلیمی نصاب سے کوئی دلچسبی نہ تھی مگر کلموں کی کلاس کے دوران وہ برآمدے میں ہی موجود رہتا۔ اس دوران کسی بچے سے کلمہ سنانے میں غلطی ہوتی تو مولوی صاحب فورا طبلے کو آواز دیتے۔

”طبلے بیٹے ذرا اندر آنا“ مولوی صاحب کی آواز کی بازگشت ابھی برامدئے میں بھٹک رہی ہوتی کہ وہ کلاس میں موجود ہوتا۔
”بیٹا سنا چوتھا کلمہ۔ اِس نالائق کو۔ “ مولوی صاحب فرماتے۔

وہ فورا دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر سنانے لگتا۔
”شاباش بیٹا شاباش“۔ مولوی صاحب اُس کی سریلی آواز میں کلمہ سن کر شاد ہو جاتے۔

پکڑ اِسکا ناک اور لگا اِسکے گال پر دو تھپڑ۔ مولوی صاحب نالائق بچے کو سزا سناتے اور وہ فوراً ناک کو انگوٹھے اور انگلی سے پکڑ کر تھپڑ رسید کرتا۔ طبلا کسی جذبہ اسلامی سے برآمدے میں کلمے نہیں دہراتا بلکہ مسلمانوں پر تشدد کرنے کو دروازے سے لگا رہتا۔ اکثر لڑکے مار کھانے کے بعد طبلے کو ہندو ہونے کا طعنہ دیتے مگر وہ تو شاید اسکول آتا ہی اسی کام کو تھا۔ ہنستا رہتا اور دھمکی لگاتا کہ اگر بارِدیگر موقع ملا تو اِس سے بھی زیادہ زور سے ماروں گا۔

یہ دھمکی کافی کار گر ثابت ہوتی اور تمام لڑکے اُس سے تعلق بنا کر رکھنا ہی مناسب سمجھتے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں کلمے یاد کروانے کا کر یڈٹ مولوی صاحب کوکم اور طبلے کو زیادہ جاتاہے۔ چند سال قبل مجھے سریاب روڑ برما ہوٹل پر پکھوڑوں کی ریڑھی لگائے نظر آیا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا اور اُسکے ہاتھ کے گرم گرم پکوڑے نوشِ جان کیے۔ اب ایک دو بار چکر لگا تو دکھائی نہ دیا۔ قرب و جوارکے دکانداروں سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ بلوچستان کے مخدوش حالات کی وجہ سے انڈیا شفٹ ہو گیا ہے مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا کہ بچپن کی ایک اور نشانی کھو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).