قضائے عمری


کچھ عرصے سے نماز کے موضوع پہ لکھنا چاہ رہی تھی مگر قلم نہیں اٹھا سکی۔ ہمارے یہاں دین کے معاملے میں لکھنا ذرا ہمت طلب کام ہے۔ لیکن بحیثیت مسلمان ہم سب پہ فرض ہے کہ ہم وقتاً فوقتاً معاشرے کی دینی و معاشرتی اصلاح میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں۔

میں نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ نماز قضا ہو گئی، ان شا اللّٰہ کسی دن فرصت سے ایک ساتھ ساری ادا کریں گے۔ یا جو نماز چھوٹ جائے اسے پھر کبھی فرصت میں ادا کر لیں گے۔ لوگ شبِ معراج اور رمضان کے لئے بھی اپنی قضا نمازوں کو بچا کے رکھتے ہیں کہ ان دنوں میں ادائیگی کا ثواب زیادہ ملے گا۔ یہ دیکھ کہ افسوس ہوتا ہے کہ ہم ثواب کی دوڑ میں نماز کا اصل مقصد بھول گئے ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی کے ہمیں دن میں پانچ بار اپنے سامنے حاضر کرنے میں نہایت خوبصورت حکمت پوشیدہ ہے۔ ہمیں وہ جاننی ہے۔ آئیں اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سادہ اور آسان الفاظ میں بات کی جائے تو نماز کا بنیادی مقصد اللّٰہ سے مسلسل رابطے میں رہنا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کو بار بار باس کے سامنے جواب دینے جانا ہو تو آپ اپنا کام ٹھیک سے کریں گے۔ یہی مقصد نماز کا ہے۔ اللّٰہ تعالٰی نے ہمیں اپنے سامنے حاضر ہونے کا پابند کر کے ہم پہ بہت بڑا احسان کِیا ہے۔ نبئی کریم صلی اللّٰہ علیہ و ال وسلم نے فرمایا کہ نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔ تو جب آپ کے علم میں ہو کہ آپ نے ابھی اللّٰہ کے سامنے حاضر ہونا ہے تو کیا آپ porn دیکھیں گے؟ جب آپ وضو سے ہوں گے تو کیا آپ گانے سنیں گے؟ کسی نا محرم کو ہاتھ لگا پائیں گے؟

ترمذی اورصحیح حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلعم نے فرمایا کہ جو شخص باقاعدگی سے جمعہ پڑھتا ہے تو اللّٰہ ایک جمعے سے دوسرے جمعے کے درمیان کہ اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے۔ اسی طرح جو باقاعدگی سے پانچوں نمازیں پڑھتا ہے تو اللّٰہ نمازوں کے بیچ میں اس سے سرزد ہونے والے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ یہ بالکل وہی اصول ہے کہ جو بچہ اسکول سے چھٹی نہیں کرتا اور اپنے صحیح وقت پہ حاضر ہوتا ہے تو استاد اسے چھوٹی موٹی چیزوں میں رعایت کر دیتا ہے۔ اس کے پرچے ہیں بھولے ہوئے نکتے لگا دیتا ہے، کلاس چیکنگ کے دوران اس کے لباس کی شکنیں ان دیکھی کر دیتا ہے اور کبھی دیر آنے پہ دانستہ وقت نہیں دیکھتا۔ اللّٰہ بھی ایسے ہی اپنے بندے کے معاملات کو سدھار دیتا ہے۔

اس کے برعکس جو بچہ اسکول سے بنا بتائے غائب رہے، جب آئے تب لیٹ بھی ہو اور کام پہ توجہ بھی نہ دے تو اس کے لئے چھوٹی چھوٹی غلطیوں پہ سزائیں بھی بڑی ہی ہوا کرتی ہیں۔

دوسری اہم بات ہے نماز کا قضأ ہونا۔ ایک سادہ سی بات یہ ہے کہ ہم اگر نماز چھوڑیں کہ اکٹھی پڑھ لی جائیں گی تو نماز کا اصل مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ نماز کا حکم تو ہے کہ ہر نماز اپنے اپنے وقت پہ ترتیب سے ادا کی جائے، اور ہر مقررہ وقفے کے بعد اللّٰہ کے آگے حاضری دی جائے۔ قضأ نماز کا جو تصور ہمارے بیچ رائج پا گیا ہے وہ سراسر جاہلیت کی پیداوار ہے۔ اگر ایک ساتھ ہی نمازیں ادا کرنی ہوتیں تو اللّٰہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ و ال وسلم اور اُن کے احباب جنگ و جدل، فاقوں، آبی قلت اور بیماری کی نمازیں امن اور سکون کی حالت میں آنے کے بعد ایک ساتھ ادا کر لیتے۔ لیکن اُن کا حال تو یہ تھا کہ جان جائے پر نماز نہ جائے۔

اللّٰہ تعالٰی سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے کہ جنگ کی حالت میں نماز کا وقت آ جائے تو چلتے چلتے ہی نماز ادا کرو یہاں تک کہ امن کی صورتِ حال ہو جائے تو پھر ویسے ادا کرنا جیسے تمہیں سکھایا گیا ہے۔ یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ جنگ کے بیچ آنے والی نماز کو قضأ کر کے امن میں پڑھ لینا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ غزوات کے دوران بھی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و ال وسلم اور آپ کے اصحاب نماز کے وقت میں باری باری نماز ادا کرتے ہیں۔ مگر کبھی بھی یہ نہیں ہوا کہ جنگ میں آنے والی نماز کو بعد میں ادا کِیا گیا ہو۔

مزید یہ کہ اگر پانی نہیں میسر تو تیمم کر لینا مگر پانی کی فراہمی تک نماز قضا نہ کرنا۔ بیماری میں بیٹھ کر اور سفر میں کسر نماز ادا کرنا۔ وقت کم ہے یا جان کا خوف تو صرف فرض ادا کرنا۔

آپ غور کریں کہ اللّٰہ تعالٰی کے ان سارے احکامات میں ادائیگی کے بجائے حاضری کا عنصر پایا جاتا ہے۔ کیونکہ نماز کی قضا نہیں ہے۔ جو نمازیں چھوٹ جائیں ان کی معافی طلب کرنا اور آیندہ کے لئے توبٰہ کرنا امر ہے۔ اور جب آپ کو ہدایت نصیب ہو جائے تو کثرت سے نوافل ادا کریں کیونکہ قیامت کے روز جب پلڑے میں فرض نمازیں کم پڑ جائیں گی تو اللّٰہ فرشتوں سے فرمائے گا کہ اس کے نوافل لے کہ آؤ۔ اور ان سے نمازیں پوری کی جائیں گی۔

اللّٰہ کو یاد کرنا اور اس کا خوف رکھنا نماز کی روح ہے۔ ہمیں یہ روح ہی تو زندہ رکھنی ہے۔ کہ جب بھی اور جہاں بھی نماز کا وقت ہوا، اللّٰہ کو یاد کریں، اس سے مدد اور مغفرت طلب کریں۔

آج کے دور میں تو ہمیں اتنی سہولیات میسر ہیں کہ ہمیں نماز چھوڑنے یا قضا کرنے کی نوبت کم ہی آتی کہ کجا کہ بہت ہی مجبوری ہو۔ سفر میں آپ کو پانی اور اکثر اوقات نماز پڑھنے کی جگہ بھی میسر آجاتی ہے۔ پھر نومولودوں کی ماؤں کے لئے اب ڈائیپر جیسی سہولت ہے۔ مسافر خانوں سے لے کر ہوٹلوں تک ہر جگہ نماز کی جگہ متعین مل جاتی ہے۔ پھر بھی ہم نماز کی ادائیگی میں کوتاہی برتیں تو یہ ہماری نا اہلی ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو نماز کا پابند بنائے۔

جزاکہ اللّٰہ خیراً کثیرا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).