کلیلہ و دمنہ، انشااللہ خاں انشا اور فیاض الحسن چوہان


فیاض الحسن چوہان کے استعفی کا سنتے ہی ”کلیلہ ودمنہ“ اور انشا اللہ خان انشا  کی یاد آگئی۔ ’کلیلہ ودمنہ ”ایک بہت مقبول اور مشہور کلاسیکی داستان ہے۔ جس میں دو گیدڑوں کی زبانی نہایت دلچسپ اور سبق آموز قصے بیان کیے گئے ہیں۔ کلیلہ نامی گیدڑ میں ایک بے نیازی اور قناعت تھی، وہ جھوٹ اور فریب سے نفرت کرتا تھا۔ جب کہ دمنہ نہایت چالاک، چاپلوس، خوشامدی اور موقع پرست تھا۔ اور اسی خصوصیت کی بناء پر وہ جنگل کے بادشاہ شیر کے مصاحبوں میں شامل ہوگیا تھا۔

دمنہ کی خواہشوں کو دیکھتے ہوئے کلیلہ اسے نصیحت کرتا ہے کہ بادشاہوں کا مصاحب بننے میں فائدے تو بہت ہیں، لیکن یہ خطرے سے خالی نہیں کیونکہ جب صاحب اقتدار جلال میں آتے ہیں تو ساری چالیں الٹی پڑ جاتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ”حاکم کی نہ اگاڑی اچھی نہ پچھاڑی“۔ اسی طرح اردو کے صف اول کے نام ور شاعر سید انشاء اللہ خاں انشاء کا خیال آتا ہے ’جن کی دو نثری تصانیف ”دریائے لطافت“ اور ”رانی کیتکی کی کہانی“ اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔

انشااللہ خاں حاکم لکھنو کے دربار میں قصیدہ گوئی کرتے تھے اور حاکم وقت اس کے قصیدوں اور کلام سے لطف اندوز ہوتا تھا مگر ایک بار جب انشااللہ نے حاکم وقت کو ابن انجب کہا تو انہیں سخت ناگوار گرزا۔ انشا پہ زمین حیات تنگ کر دی اور گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔ انشا نے بار ہا کہا کہ میرا مطلب طنزیہ طور پہ ابن انجب کہ کر حاکم وقت کو نشانہ بنانا نہیں تھا مگر حاکم یہ سمجھ گیا اس نے نجیب الطرفین (جس کے ماں باپ دونوں شریف ہوں ) نہیں کہا بلکہ ابن انجب کہہ کر اس طرف بات لے گیا کہ اس کے باب نے اک طوائف سے شادی کی تھی۔

گویا جس طرح حاکم وقت پہ گراں گزرنے کے لئے انشااللہ خان کی ایک بات کافی تھی اسی طرح آج کے حاکم وقت کے لئے بھی فیاض الحسن چوہان کی ایک بات کافی ہو گئی تھی۔ یہ جرم ناقابل معافی ہو چکا تھا۔ یہ جرم اقلیتوں کے خلاف بیان تھا۔ ساری صفائیاں ناقابل قبول قرار دے دی گئیں۔ حالانکہ یہ وہی فیاض الحسن چوہان ہیں جو مخالفیں پر بولتے تھے تو عمران خان اسے اپنا ٹائیگر کہتے تھے۔ جس کی اس وقت حاکم وقت نے سرزنش نہیں کی۔

کبھی اداکاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کبھی مخالفیں کی بیماریوں کا مذاق اڑایا۔ کبھی میڈیا کو اخلاقیات کا درس سیکھنے کا انوکھا مشورہ دیا۔ الغرض جیسے جی چاہا ایسے ہی ہر طرف تنقید کے بے لگام نشتر چلائے مگر کہیں حاکم وقت نے روک ٹوک نہ کی۔ یوں طنز و تنقید کا مرض بڑھتا گیا۔ بھلے کے۔ پی۔ کے کی اپنی حکومت کی پولیو کے حوالے سے بات کی تو یہاں تک کہ دیا کہ ہمارے دور سے پہلے پیدا ہونے والے بچے ہماری ذمہ داری نہیں۔

یہ آج کا المیہ بن چکا ہے۔ دمنہ جیسے خوشامدی لوگوں کی زیادہ آؤ بھگت کی جاتی ہے ایسے ہی ان کا انجام بھی عبرتناک۔ کسی نے ٹھیک کہا تھا ”یہ چرب زباں بندے شاہوں کی ضرورت ہیں“۔ اب ضرورت اس امر کی ہے سابقہ صوبائی وزیر اطلاعات کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور فیصل واڈا جیسے وزیروں کو بھی ”دمنہ“ بننے سے بچنا ہو گا۔ حاکم وقت کو اتنا ہی مقام دینا ہو گا جتنی اللہ نے اسے عزت دی ہے۔ یہی حاکم وقت کے ساتھ بھی اصل وفا ہے اور اپنے ساتھ بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).