سردار عثمان بزدار! دور اندیش یا احسان فراموش


سردار عثمان بزدار بلوچ نے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد جو کارکردگی دکھائی ہے اس پہ ہر ذی شعور کو اعتراضات ہیں لیکن سرائیکی وسیب کے لوگ عثمان بزدار کی اس بات سے بہرحال خوش ہیں کہ اب میگا منصوبے اور پچانوے فیصد بجٹ لاہور سے نکل کر ڈی جی خان کی طرف گامزن ہیں۔ لیکن ساتھ ہی سردار عثمان بزدار جس طرح بلوچ قوم پرستی کے مظاہرے کر رہے ہیں اس پر سرائیکی قوم پرست تحفظات کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔ سردار عثمان بزدار خود کو سرائیکی قوم پرست کی بجائے بلوچ قوم پرست ثابت کرنا چاہ رہے ہیں حالانکہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے تھے اور جیتے تھے۔

الیکشن کے وقت ان کا بنیادی مدعا سرائیکی صوبے کا قیام تھا۔ لیکن وزیر اعلی بننے کے بعد ملتان سے بلوچی زبان میں ٹرانسمیشن کا آغاز ہو یا پھر چاکر خان رند یونیورسٹی کے قیام کا بل، سرائیکستان پر بلوچستان کو ترجیح ہو یا پھر ٹرائبل ایریا کے علاوہ تمام سرائیکی علاقوں کو نظر انداز کرنا یہ سب کسی اور طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

آج کل دیگر قوم پرست سرائیکیوں کو کفن چور والی وہ مثال سناتے نظر آتے ہیں جس میں کفن چور کا بیٹا کفن بھی چوری کرتا ہے اور ان اقدامات کا نتیجہ وسیبی سطح پر قوم پرستوں میں تقسیم کی صورت میں نظر آ رہا ہے، جس کا اثر لامحالہ نئے سرائیکی صوبے کے قیام کی تحریک و مطالبے کی کمزوری پر منتج ہو گا۔ اب قابل غور بات یہ ہے کہ سردار عثمان بزدار خود اتنے دور اندیشن اور گہری سوچ کے مالک نہیں کہ کسی تحریک کو دبانے کا موجب بننے والے بولڈ اور بڑے فیصلے کر سکیں۔ تو آخر تقسیم کے موجب ایسے فیصلے کرا کون رہا ہے؟

سردار عثمان بزدار کے قریبی افراد کی سوچ کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ موصوف کے بھائی ادھر ہر ایرے غیرے کی دعوت پر کھانا کھانے پہنچ جاتے ہیں۔ آپ کھانا کھلا کر ان سے کمشنر یا آر پی او لیول کا کوئی بھی کام آسانی سے کرا سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ علاقے میں خبریں اڑنے لگی ہیں کہ مبینہ طور پر سابق وزیر اعظم گیلانی کی طرح ان کے خاندان نے بھی پیسے لے کر کام کرانے کا دھندہ شروع کیا ہوا ہے کہ معلوم نہیں دوبارہ ایسا عہدہ نصیب ہوتا بھی ہے کہ نہیں۔ آپ خود سوچیں جن کا تعارف شہباز شریف لگنا ہے ان کا مرکزی مقصد کیا ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ کسی طرح اپنے حلقے کے ایم این اے خواجہ شیراز کو فیل کر سکیں تاکہ وہ اگلے الیکشن میں اس حلقے سے ایم این اے منتخب ہو سکے اور نیچے دو ایم پی اے منتخب کروا سکیں۔

یقین جانیں یہ بات میں نہیں کر رہا بلکہ سردار عثمان کے قریبی ذرائع یہ دعوی کر رہے ہیں کہ وزیراعلی صاحب نے خود اس مقصد کا اظہار اک نجی میٹنگ میں کیا ہے۔ حالانکہ خواجہ شیراز وہ ایم این اے ہیں جن کی بدولت سردار عثمان ایم پی اے منتخب ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے پارٹی اور قوم کے امیدوار ایم پی اے کی بجائے سردار عثمان کے لیے ووٹ مانگے تھے اور مقامی ذرائع کے مطابق خواجہ شیراز نے ان کو چھ سے سات ہزار ووٹ دلوائے تھے۔

اب مبینہ طور پر سردار عثمان نے تونسہ و ڈی جی خان کی انتظامیہ کو باقاعدہ ٹاسک دے رکھا ہے کہ کسی صورت خواجہ صاحب کے کام نہیں ہونے چاہیں یہ الگ بات ہے کہ خواجہ شیراز اک نرم خو پڑھے لکھے خاندانی آدمی ہیں جن کے تعلقات کسی عہدے کے محتاج نہیں۔ ان کے حلقے کے جتنے لوگوں سے میری بات ہوئی ہے انہوں نے سردار عثمان اور خواجہ صاحب کے موازنے کو ہی ہنسی میں اڑا دیا کہ کہاں خواجہ شیراز اور کہاں عثمان بزدار۔

مختصر یہ کہ ملتان سے مظفرگڑھ چلنے والی ٹرانزٹ بسوں کو بصیرہ چوک قریشی سے کوٹ ادو کے بعد تونسہ تک پہنچانا ہو یا پھر ضلع مظفرگڑھ کی مجوزہ یونیورسٹی کو پہلے کوٹ ادو اور پھر آگے ہیڈ تونسہ بیراج کراس کرانا ہو یہ اقدامات شاید ملک کے دیگر علاقوں میں بیٹھے لوگ نہ سمجھ سکیں لیکن وسیب کے قوم پرست سب دیکھ رہے ہیں۔ عثمان بزدار کے چند مخصوص عزائم کو لے کر ان میں بے چینی پائی جاتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بے چینی کب الفاظ کا روپ دھار کر قوم پرستوں کی زبانوں سے اظہار کا راستہ چنتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).