آٹھ مارچ : عالمی یوم خواتین


خواتین کو جو مقام و مرتبہ اسلام نے دیا وہ دُنیا کی تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔ جب سے ہم نے اسلامی سنہری اصولوں کو پسِ پشت ڈالا۔ وہ رشتے جو ہر لحمہ نبھانے کے تھے اب سال میں ایک دن منانے کی نوبت آن پہنچی۔ عالمی یومِ خواتین کا دن منانے کا آغاز امریکہ سے ہوا۔ جہاں 08 مارچ 1857 کو نیو یارک میں گارمنٹس فیکٹری کی خواتین نے کم اجرت ٗمشکل حالات کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاجی مظاہرے پر پولیس نے تشدد کیا۔

اس کے بعد 1908 میں 1500 عورتیں مختصر اوقاتِ کار، بہتر اجرت اور ووٹنگ کے حق کے مطالبات منوانے کے لیے نیویارک کی سڑکوں پر مارچ کرنے نکلیں۔ ان کے خلاف نہ صرف گھڑ سوار دستوں نے کارروائی کی بلکہ ان پر پتھر برسائے گئے۔ ان میں سے بہت سی عورتوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ انیس سو نو میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظور کی اور پہلی بار اسی سال 28 فروری کو امریکہ بھر میں عورتوں کا دن منایا گیا۔

اس کے بعد 1913 ء تک ہر سال فروری کے آخری اتوار کو عورتوں کا دن منایا جاتا رہا۔ 1910 میں کوپن ہیگن میں ملازمت پیشہ خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کلارا زیٹکن نے ہر سال دُنیا بھر میں عورتوں کا دن منانے کی تجویز پیش کی جسے کانفرنس میں شریک 17 ممالک کی 100 خواتین شرکا نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ انیس سو گیارہ میں 19 مارچ کو آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈٖ میں پہلی بار خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔

فروری 1913 میں پہلی بار روس میں خواتین نے عورتوں کا عالمی دن منایا تاہم اسی سال اس دن کے لیے 8 مارچ کی تاریخ مخصوص کردی گئی۔ انیس سو سترہ میں سوویت انقلاب کے بعد اس دن کو روس میں سرکاری سطح پر تسلیم کرنے کے بعد اسے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ممالک میں چھٹی کے طور پر منایا گیا۔ انیس سو بائیس سے اسے چین میں کمیونسٹوں اور 1936 سے ہسپانوی کمیونسٹوں کی جانب سے بھی منایا جانے لگا۔ یکم اکتوبر 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد ریاست کونسل نے 23 دسمبر کو اعلان کیا کہ 8 مارچ یومِ خواتین کے طور پر نہ صرف منایا جائے گا بلکہ اس دن سرکاری سطح پر آدھی چھٹی بھی ہوگی۔

انیس سو پچھتر کے بعد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے رکن ممالک کو مدعو کیا اور آٹھ مارچ کو خواتین کے حقوق اور عالمی امن کے طور پر منائے جانے کا اعلان کیا۔ دُنیا بھر میں آج یوم خواتین منایا جا رہا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگا ہی دینا اوران کی معاشرتی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے کیونکہ ماں بہن بیٹی بیوی معاشرے کے یہ ہی رشتے استحکام کی ضمانت ہیں۔ آج دُنیا بھر کی خواتین متحد و متجسم ہوکر خود پر لگائے صنفِ نازک کا ٹیگ اتار کر اپنے ضبط شُدہ حقوق کی بحالی کے لیے جرات مندانہ آواز بلند کرنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان ٗ اِس جیسے سماجی بدحالی سے دوچار ممالک میں فی زمانہ خواتین چار دیواری کے اندر اور باہر یکساں استحصال کا شکار ہیں۔ معمولاتِ زندگی میں صنفی عدم مساوات سے کہیں بڑھ کر اب جسمانی و جنسی تشدد، اغواء، آبرو ریزی، خود کُشی پر اُکسانا، بے راہ روی و بے غیرتی کے الزام میں قتل اور ایسے کتنے مصائب و آلام سے آگے جا پہنچی ہے۔ اِس معاشرے کے لیے دعوت فکر یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کے ان مسائل کی نشان دہی، اُن کے سّدِباب کے لیے سفارشات اور پھر اقدامات کو مختلف فورمز پر زیرِ بحث لایا جانا زیاں و رائگاں کیوں جاتا ہے؟

وہ کیا وجوہات ہیں کہ عورت کی مظلومیت کا تماشا بھی بنایا جاتا ہے، اس کے نالہ و فُغاں کا چرچا بھی کیا جاتا ہے پھر ہر برس، بغرضِ تبدیلی نعرہِ تجدیدِ پیماں کا غُلغُلہ بھی شورمچاتا ہے۔ پھر یکسر یہ تمام صدائیں سراب سے جنم لے کر سراب میں ہی کھوجاتی ہیں۔ کیا ہم پرلازم نہیں کہ ہم اُن مُحرکات کا تنقیدی جائزہ لیں جو اُن اقدامات کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہیں۔ آج بھی دُنیا میں خواتین بھر پور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے باوجود امتیازی سلوک سے دوچار ہیں۔

دُنیا کی دو تہائی خواتین ناخواندہ ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خواتین پر تشدد ٗقتل کے رحجان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر 15 سکینڈ بعد ایک عورت تشد د کا نشانہ بنتی ہے۔ جب کہ ہر سال ایک لاکھ خواتین میں سے 36.2 فیصد زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں یہ شرح 8.7 فیصد فی لاکھ اور جنوبی افریقہ میں 129 خواتین فی لاکھ ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دُنیا بھر میں 20 فیصد خواتین مردوں کے تشدد و زیادتی کا شکار ہیں۔

اقوام متحدہ کے ڈوپلمنٹ فنڈ برائے خواتین کی رپورٹ کے مطابق اب تک 20 ہزار سے زائد مسلمان بوسینائی عورتیں زنا بالجبر کا شکار ہوئیں۔ جب کہ ایک اور رپورٹ کے مطابق کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں 38 ہزار سے زائد عورتوں کی عزت پامال ہو ئی۔ صحت مند خواتین کی نسبت معذور ٗ مفلوج خواتین کے ساتھ زیادہ ظلم و ستم ہوتا۔ 80 فیصد سے زائد اپاہج خواتین ظلم و زیادتی کے واقعات کو معمولِ زیست سمجھ کر قبول کر لیتی ہیں۔ دُنیا میں ایک کروڑ سے زائد معذور خواتین میں سے صرف 17 فیصد کو ملازمت کا موقع ملا۔

دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہلوانے والی بھارتی ریاست میں سالانہ 6500 سے 7000 کو محض اس لیے قتل کیا جاتا ہے کہ سسرال کی طرف سے جہیز کم ملا۔ تقریباً 4 کروڑ نوجوان خواتین فیملی پلاننگ کے محفوظ ذرائع دستیاب نہیں۔ ہر سال 15 سے 29 سال کی تقریباً 6 لاکھ خواتین دورانِ زچگی جان کی بازی ہا ر جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی فنڈ برائے آبادی کی رپورٹ کے مطابق دُنیا میں ہر سال 5 کروڑ خواتین اسقاطِ حمل کے مراحلہ سے گزرتے ہوئے 78 ہزار انتقال کر جاتی ہیں۔

ہر سال 20 لاکھ خواتین کے ختنے کرنے کے علاوہ 40 لاکھ خواتین ؍لڑکیوں کو عصمت فروشی کے دھندے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ ایشیاء میں 70 فیصد عورتیں بغیر تربیت یافتہ دائی کے بغیر ہی بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ اس عمل سے زیادہ تر 25 سے 29 سال تک کی خواتین گزرتی ہیں۔ دُنیا بھر میں عورتوں کو کم اجرت دی جاتی ہے، 07 کروڑ سے زائد خواتین روزانہ بھوکی سوتی ہیں۔ ہر سال 80 لاکھ خواتین انسانی خریدو فروخت کا شکار ہوتی ہیں۔

وطنِ عزیز میں عورتوں پر تشدد ایک بحران کی شکل اختیار کر چکا۔ پاکستان میں 50 فیصد خواتین جسمانی ٗ 90 فیصد ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر دو گھنٹے بعد ایک خاتون سے زیادتی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایشیا ء واچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پولیس 70 فیصد حراست خواتین کے ساتھ بد سلوکی کرتی ہے۔ متعدد مقامات پر رسم و رواج بھی خواتین کو تشدد کا باعث بن رہا ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق 70 فیصد خواتین کو اپنی مرضی کا ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ٗ 67 فیصد بچیوں کی پیدائش پر سسرالیوں کے تیز و تند جملوں کی نظر ہو جاتی ہیں۔

سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ ملک میں افرادی قوت کا 28 فیصد خواتین ہیں اس میں 92 لاکھ 96 ہزار شعبہ زراعت ٗ 32 لاکھ 20 ہزار خدمات اور 14 لاکھ 84 ہزار صنعت سے وابستہ ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ لیبر فورس بنگلہ دیش میں ہے۔ جو 42 فیصد ہے۔ بھارت 32 فیصد ٗ سری لنکا 36 فیصد ہے۔ 1996۔ 97 کی لیبر سروے کے مطابق دیہائی علاقوں میں 9 فیصد خواتین غیر تکنیکی کام کرتی ہیں۔ جب کہ 47 فیصد مرد غیرتکنیکی کام کرتے ہیں۔

جب کہ 1995 کی رپورٹ کے مطابق 57.43 فیصد بتایا گیا تھا۔ شہری علاقوں میں 20 فیصد خواتین پروفیشنل کام کرتی ہیں۔ 5.4 فیڈرل گورنمنٹ ملازم ہیں جو زیادہ تر سوشیل سکیڑ میں کام کرتی ہیں۔ خواندگی ٗ صحت ٗمعاشی نمو کے لحاظ سے غربت کے تعین میں 52 فیصد خواتین ہیں۔ عورتوں کی شرح خواندگی 33 فیصد ہے۔ مناسب روزگار نہ ملنے کی وجہ سے لاکھوں خواتین اپنی تعلیم کا درست استعمال نہیں کر سکتیں۔ مادرِ وطن میں خواتین کو صحت کی سہولیات بہت ہی کم ہیں۔

ہر سال حاملہ ہونی والی 50 لاکھ خواتین میں سے 7 لاکھ سرجری اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا شکار ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی فنڈ برائے آبادی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ایک لاکھ زچگی کے کیسز کے دوران اموات کا تناسب 340 سے 700 تک ہے۔ پاکستان میں دورانِ حمل فوت ہونی والی خواتین کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دورانِ حمل مرنے والی 80 فیصد خواتین انیمیا کا شکار ہوتی ہیں۔ قابلِ علاج بیماریوں میں بھی ہر 0 منٹ بعد ایک حاملہ خاتون لقمہ اجل بنتی ہے۔

نیشنل ہیلتھ سروے آف پاکستان کے مطابق ملک میں ڈلیوری کے 83 فیصد کیسز گھروں میں روایتی دائیوں کے ہاتھوں ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں یہ تناسب 94 فیصد ٗ جب کہ شہری علاقوں میں 77 فیصد ہے۔ یونی سیف کی رپورٹ کے مطابق خواتین کی ماہر افراد سے ڈلیوری کی شرح صرف 18 فیصڈ ہے۔ عورت فاونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق ملک کے دیہی و شہری علاقوں کی حاملہ خواتین کی بالترتیب 21 اور 60 تعداد ڈاکٹرز سے چیک اپ یا زچگی کی سہولت میں سے کسی ایک سے استعفادہ کر سکتی ہیں۔

ملک میں ہر روز 100 خواتین کا حاملہ پن کی پیچیدگیوں ٗ زچگی اور اسقاطِ حمل کے غیر محفوظ طریقوں کے باعث مر جاتی ہیں قومی ادارہ صحت ان ساوتھ ایشیا ء رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 45 فیصد حاملہ خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ قومی ادارہ صحت کے مطابق ملک میں حاملہ خواتین اوسطاً 2165 کیلوریز روزانہ لیتی ہیں۔ جب کہ انہیں 2500 کیلوریز یومیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دودھ پلانے والی خواتین اوسطاً 2298 کیلوریز روزانہ لیتی ہیں جب کہ انہیں 3100 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 12 سال کی عمر میں 2.2 فیصد بچیوں کی شادی کر دی جاتی ہیں۔ جب کہ 15 سال کی 33.4 فیصد ٗ 18 سال کی 71.9 فیصد ٗ اور 20 سال کی 86.3 فیصد خواتین کی شادی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں حمل کے دوران 200 گنا زیادہ جان کا خطرہ ہوتا ہے۔ 21 فیصد خواتین زیادہ خون بہہ جانے سے مر جاتی ہیں۔ 12 سے 49 سال کی عمرکی 22 فیصد خواتین بچے کی پیدائش کے مراحل سے گزرتی ہیں۔ 15 فیصد اسقاط حمل کے دوران فوت ہوتی ہیں۔

پنجاب کے دیہی و شہری علاقوں میں 44 فیصد خواتین 5 ماہ کے اندر اندر اور 69 فیصد شادی کے 15 ماہ کے دوران حاملہ ہو جاتی ہیں اور اوسطاً ہر عورت کے 6 بچے ہیں۔ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایکشن واچ کی رپورٹ کے مطابق 1 سے 4 سال کی بچیوں کی اموات بچوں کی نسبت 66 فیصد زیادہ ہے۔ 9 فیصد خواتین گھرانوں کی سر براہ ہیں جن کے سرپرست یا خاوند فوت ہو چکے یا بیرون ممالک ہیں یا پھر وہ طلاق یافتہ ہیں دو تہائی بییٹوں کو جائیداد کی وراثت نہیں دی جاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).