ہیجڑے سے ٹرانس جینڈر تک


شادی کا گھر، لاڑکانہ شہر، موسم کچھ کچھ سرد، چھوٹے شہروں میں صبح جلدی ہوجاتی ہے، ہم بچوں کو بڑے چچا کی شادی کی خوشی الگ ہی تھی، آج ولیمہ تھا سب صبح سے ہی بیدار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ میں غسلخانے میں لگے ہینڈ پمپ کے نیم گرم پانی سے منھ دھو کر نکلی ہی تھی کہ گلی میں ڈھول بجنے اور تالیاں پیٹنے کی آوازیں آنے لگیں، بدھائی ہو بدھائی، بہو آئی ہے، نیگ لاؤ نیگ، چندا سا بھیا لے آیا دلھنیا۔ ہم بچے دروازے کی طرف بھاگے میں نے اپنے کزن سے پوچھا کون ہیں یہ اس نے کہا ارے ہیجڑے آئے ہیں ناچ دکھانے، بیل لینے۔ ابھی ہم دروازے تک بھی نہ پہنچے تھے کہ دادا ابا کی گرجدار آواز آئی دروازہ نہیں کھولنا، سب اندر جاؤ۔

سمجھ میں نہیں آیا دادا ابا کو غصہ کیوں آیا، میں دادا ابا کے بارے میں بتاتی چلوں دادا پنج وقتہ نمازی پرہیزگار، پوسٹ آفس میں جاب کرتے تھے، محلے کی مسجد میں ہر سال رمضان میں اعتکاف میں بیٹھتے، گانے بجانے کو برا سمجھتے ہی نہ تھے بلکہ گھر میں شادی بیاہ پر بھی گانا نہیں گانے دیتے وہ تو ہماری دادی تھوڑی لبرل تھیں تو اوپری منزل میں بڑے کمرے میں عورتوں نے تھوڑا بہت گانا بجانا کر لیا تھا لیکن ڈھول بجانا سخت منع تھا کیونکہ دادا کہتے تھے کانا دجال قیامت کے دن ڈھول بجاتا ہی آئے گا اور لوگ اس کے پیچھے چل دیں گے، وہ ڈھول کی آواز کو بھی برا سمجھتے تھے۔

دادا نے ساری زندگی ایمانداری سے نوکری کی رشوت کو قریب پھٹکنے نہیں دیا زیادہ وقت تبلیغ میں گزارتے کئی لوگ ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرچکے تھے۔ ایک دلچسپ واقعہ دادی سناتیں ہیں کہ ستر کے الیکشن کا زمانہ تھا گھر آئے تو سیدھے غسلخانے میں ہاتھ دھونے چلے گئے مل مل کر ہاتھ دھو رہے اور لا حول پڑھ رہے تھے دادی نے پوچھا کیا ہوا کہنے لگے مسجد سے نکل رہا تھا تو ذوالفقار علی بھٹو لوگوں سے مل رہا تھا میں بچ کر نکل رہا تھا لیکن اس نے حاجی صاحب کہہ کر ہاتھ ملا لیا، دادی وجہ سمجھ گئیں چونکہ بھٹو مے نوش تھے اور دادا کو یہ بات پسند نہ تھی۔

ہم بچے سہمے کھڑے اور دادا نے ہیجڑوں کو بھگانے کو دروازہ کھولا اور ایک زور دار بڑک لگائی لیکن وہ کہاں رکنے والے تھے تالیاں پیٹتے حاجی صاحب مبارک ہو بیٹے کی شادی ”چاند سا بنا بنی لے آیا“ گاتے اندر گھس آئے، دادا نے انھیں بھگانے کو اپنی لاٹھی اٹھائی اور لگے ڈانٹنے وہ تو دادی نے تیزی سے جاکر انھیں پیسے دیے اور رخصت کر کے دروازہ بند کر دیا۔

وہ دن تھا جب سے ہیجڑوں کی آواز سے ہی خوف محسوس ہوتا تھا۔ اونچے پورے مردوں کی طرح آواز لیکن عورتوں کی طرح زرق برق کپڑے گہرا میک اپ، زیور سے آراستہ تالیاں پیٹتے ہیجڑے جن کا نام لینا بھی ممنوع تھا، سارا بچپن ان سے ڈرتے گزرا، انھیں ہم لوگ کوڈ ورڈ میں کھدڑا کہتے، وقت گزرا کراچی شہر میں اس طرح قریب سے ہیجڑوں کو نہیں دیکھا۔ پھر ان کو چوراہوں پر سگنل پر بھیک مانگتے دیکھا۔ کھڑی گاڑی کا شیشہ بجابجا کر مانگتے ہیں، بھیک دینے سے منع کردو تو ایک جملہ ضرور سننے کو ملتا ہے بڑا غرور ہے، ڈیفینس کے علاقے میں بڑے اسٹائلش انداز مین انگلش بولتے ہیجڑے بھی دیکھے، نرمی سے سر جھکا لو تو خاموشی سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی ان میں بھی احساس پیدا ہوا، شاید وہ بھی لوگوں کی جھڑکیاں کھا کر سمجھدار ہو گئے، انھوں نے اپنی تنطیم بنا لی۔ جہاں دوسرے طبقے اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ان میں ایک طبقہ ہیجڑوں کا بھی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ان کے حقوق کے بارے میں کم ہی آگاہی ہے۔ اسلام کی رو سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ بلا شبہ ہیجڑے اللہ کی مخلوق ہیں اور انسان ہیں۔ انسان ہونے کے ناطے جو حقوق انسانوں کو دین اسلام میں حاصل ہیں وہ سب ہیجڑوں کو بھی حاصل ہیں مثلا خنثی افراد کے لیے اپنے والدین کی وراثت میں بھی حصہ ہے اور ہمارے فقہا نے مسائل کو اس اصول کے تحت حل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں اگر جس میں مرد ہونے کی علامات زیادہ ہیں وہ مرد اور اگر عورت ہونے کی علامات غالب ہیں تو اسے عورت شمار کیا جائے گا لیکن غالب علامت واضح نہ ہوں تو ان کے لیے کچھ اصول وضوابط بیان کیے گئے ہیں جن کی روشنی میں انھیں مرد یا عورت میں سے کسی ایک نوع میں داخل کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں انھیں ایک باعزت فرد کادرجہ ملا ہوا تھا، انھیں خواجہ سرا کہتے تھے۔ مغل دور میں انھیں قابل اعتماد مشیر کا درجہ حاصل تھا، قرون وسطی میں خواجہ سراشہزادوں، شہزادیوں کو اسلامی تعلیم دینے کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔

سب سے اہم بات جو پاکستان کی تاریخ میں ہوئی چیف جسٹس افتخارمحمد چوھدری اور اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ کہ پاکستان میں خواجہ سراؤں کا رجسٹریشن کروانے کے ساتھ انھیں باقی پاکستانی شہریوں جیسے حقوق دیے جائیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاشرتی رویوں میں تبدیلی آئی ہے لیکن اب بھی معاشرے میں تربیت کی ضرورت ہے تاکہ ہم انھیں اپنے جیسا انسان سمجھیں۔ حکومتی سطح پر انھیں روزگار مہیا کیا جائے، فیکٹریوں کارخانوں میں نوکری دی جائے۔ خواجہ سراؤں کی تنظیموں نے اپنے مسائل خود حل کرنے شروع کیے ہیں اپنے بیوٹی سیلون، اپنے فیشن ڈیزائنر بنالیے ہیں تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں تاکہ سر اٹھا کر جی سکیں۔

ہیجڑے سے ٹرانس جینڈر کا سفر، اس کی مثال کراچی لٹریچر فیسٹول میں ٹرانس جینڈر پہ بنائی گئی شارٹ فلم ”رانی“ کا پریمئیر تھا۔ اسٹیج پر گفتگو کے لیے فلم کا اہم کردار رانی ٹرانس جینڈر کامی سیڈ خود موجود تھی، اسمارٹ، ویل ڈریسڈ، تعلیم یافتہ، کسی بھی عام فرد کی طرح لوگوں کے سوالوں کا جواب دیتی کامی سیڈ پر اعتماد لگ رہی تھی۔ دماغ سے بچپن کا وہ خوف جو ہیجڑہ لفظ سے جڑا تھا کہیں دور بھاگ چکا تھا۔ ٹرانس جینڈرز کے اس طویل سفر کو جو دھتکار، ڈانٹ ذلت سے شروع ہوتا میں نے خود دیکھا تھا اور آج انھیں اسٹیج پر اپنے لیے بات کرتے دیکھ کر ایک انہونی خوشی ہوئی اور ٹرانس جینڈر کو اپنے جیسا انسان تسلیم کیا دور کہیں خوف کی دھند جو ہیجڑے لفظ سے شروع ہوئی تھی، ختم ہوگئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).