ایک درویش سے ملاقات


 ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات میری کتابی رُخ یا کتابی چہرہ سہیلی رابعہ الربا نے کروائی۔ پہلے تو آپ سوچ رہے ہوں کتابی رُخ کاکیا مطلب ہے؟ تو بھئی facebookکی اُردو میرے ذہن میں تو یہی آئی۔ باقی آپ بتا دیجیے۔ کچھ لوگوں سے تعلق اتنا عجیب ہوتا ہے کہ اسے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ نجانے رابعہ سے میری روح کا کون سا اور کس جنم کا رشتہ ہے جو محبت کی مضبوط ڈوری سے بندھا ہوا ہے۔ دھیمی دھیمی سی چمکتی ہوئی آنکھوں والی یہ لڑکی بلاشبہ ذہین ہے۔

جب میں نے گاہے گاہے ہم سب پہ ڈاکٹر صاحب اور رابعہ کی آنے والی کتاب کو کالم کی صورت میں پڑھا تو ڈاکٹر سہیل صاحب سے بھی ملنے، بات کرنے کی تمنا دل میں انگڑایاں لینے لگی۔ جیسے ہی یہ خبر ملی کہ ”درویشوں کا ڈیرہ“ چھپ چکی ہے اب اسے پڑھنے کی تاہنگ شروع ہوگئی؟ میرے ہاتھ ترس رہے تھے اس کتاب کو چھونے کے لیے اور ماشا اللہ ابھی تک ترس ہی رہے ہیں۔ کتاب نہ جانے راستے میں کہاں اغوا ہوگئی۔ کچھ روز قبل رابعہ سے ڈاکٹر صاحب کی آمد کا پتہ چلا بس پھر کیا تھا ”جی کا جانا ٹہر گیا ہے“ کے مصداق ہم ڈاکٹر صاحب سے ملنے ان کی بہن عنبر کے گھر جا پہنچے۔

وہ فروری کی رم جھم برستی بارش کا ایک بھیگا بھیگا سا دن تھا۔ لاہور کی گیلی سڑکوں پہ میں خوشی خوشی ڈاکٹر صاحب سے ملنے فیصل ٹاؤن کی سڑکوں پر رواں دواں تھی۔ جیسے ہی میں ان کے داخلی دروازے پر پہنچی تو دل کش چہرے پہ مسکراہٹ سجائے ہوئے اک خاتون نے مجھے خوش آمدید کہا۔ میں گھر کے اندر گئی تو ایک اور مسکراتی ہوئی خاتون بھی منتظر تھیں یہ زہرا نقوی تھیں ان سے ملنے کے بعد میں نے بے تابی سے پوچھا ڈاکٹر صاحب کیسے ہیں؟ کدھر ہیں؟ تو وہ مجھے ڈرائنگ روم میں لے گئیں۔ وہاں خاکستری گھنگھریالے بالوں اور داڑھی والے خوش شکل مسکراتے ہوئے ڈاکٹر خالد سہیل براجمان تھے۔ میں ڈاکٹر صاحب کے لیے اپنی وینس کی بنی ہوئی واٹر کلر پینٹنگ تحفے کے طور پر لے گئی تھی جسے انہوں نے بہت سراہا۔ ڈاکٹر صاحب یقینا جانتے ہوں گے ایک آرٹسٹ کے لیے ان کی پینٹنگ اولاد کا درجہ رکھتی ہے۔ جبھی تو وہ اس پینٹنگ کو کینیڈا لے گئے ہیں۔ میں ان کی شفقت کی ممنون ہوں۔

خیر ڈاکٹر صاحب سے ہلکے پھُلکے ذاتی تعارف کے بعد باتوں کا سلسلہ چل نکلا جس میں ظاہر ہے ذاتی کہانیاں واضح طور پر زیادہ تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ایک تنظیم یا گروپ بنایا ہے جس کا نام ”Family of the Hearts“ بتایا۔ بہت خوب صورت نام ہے ”دلوں کا کنبہ“۔ واہ! بات تو ہر جگہ صرف دلوں کی ہی ہوتی ہے۔ دل خوش ہے تو ہر چیز ٹھیک رہے گی ورنہ سب اُلٹ پلٹ ہوجاتا ہے۔ ہر رشتہ خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی دل ہی کی راہ کا مرہونِ منت ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا کہ زہر ہ بھی اسی کنبے کی ایک رکن ہے سن کر بہت اچھا اور عجیب لگا۔ عجیب اس لیے کہ مشرق میں مرد اور عورت کی دوستی کو ہضم کرنے لیے بہت سی ہضم کشا گولیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک دوستی ہر شے سے بڑھ کر اور معصوم سا رشتہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب وہ باغی انسان ہیں جنھوں نے لڑکپن میں ہی بغاوت کی اور اپنا راستہ خود چُنا۔ ان کو بچپن ہی سے لگتا تھا کہ ان کی زندگی کا کوئی خاص مقصد ہے جو انہوں نے پورا کرنا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کو یہ بھی لگتا ہے کہ انسانون کی دو اقسام میں سے ڈائپر قسم کے انسان آپ کی خداداد صلاحیتوں کو یوں کھا جاتے ہیں جیسے گھُن لکڑی کو۔ ۔ لہذا خود کو حالات کے دھارے پہ چھوڑنے کی بجائے اپنی راہ کا تعین خود کر لینا چاہیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ چیزیں بھول جاتے ہیں اور زندگی درست سمت میں چل پڑتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وہ بہت عرصہ اپنی ایک دوست Bettyکے ساتھ رہے اور ایک Romanian بچی کو Adopt بھی کیا لیکن کچھ عرصہ قبل وہ Betty سے ہنستے ہنستے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔

یہ سن کر مجھے لگا ڈاکٹر صاحب شاید کہیں ذمہ داری یا بندھن سے تو نہیں گھبراتے۔ کیونکہ انہوں نے اپنوں سے دور، اپنی مٹی سے دور، اجنبی دیس کی آزاد فضاؤں میں وہ سب پایا جس آزادی کی انہوں نے تمنا کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ انسان کو اپنی تخلیقی قوت و صلاحیتوں کو کسی بھی نفسیاتی آزمائشوں کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے بلکہ تمام بندشوں کو توڑ کر آزادی کے بال و پر لگا کر آزاد فضاؤں میں اُڑان بھرنی چاہیے۔ کہ آپ ایک آزاد روح کی طرح پیدا ہوئے ہوتے ہیں۔

میں یہاں ایک ہلکا سا سوال اُٹھاتی ہوں کہ سب سے پہلی پابندی تو ہم پرہمارا خدا ہماری پیدائش پہ ہی لگا دیتا ہے۔ یعنی ہم نہ تو اپنی مرضی سے دنیا میں آتے ہیں اور نہ ہی اپنی جنس کا انتخاب کرتے ہیں، نہ ہی اپنے خاندان کا تعین کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے مذہب کو منتخب کرتے ہیں۔ اتنی چیزوں کا شکار ایک بے بس مخلوق کرے تو کیا کرے؟ اپنی اذیتوں اور آزمائشوں سے خوش ہویا افسردہ۔ روشنی تو انسان کے اپنے اندر ہی کہیں موجود ہوتی ہے۔

یہاں کچھ لوگ راہ میں ایسے ضرور ملتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس روشنی کے بٹن کو دبا دیتے ہیں۔ ایسا زندگی میں یک بار نہیں کئی بار ہوتا ہے۔ دوسرے ہم ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانا چاہیں یا نہ اُٹھانا چاہیں لیکن ذمہ داری بہر طور ہمارے دروازے پر دستک دینے کی آرزو مند رہتی ہے۔ بلکہ دستک دیتی ہی چلی جاتی ہے چاہے دوستوں کی صورت، چاہے رشتوں کی صورت۔ تو ڈاکٹر صاحب کہنا یہ تھا کیا یہ ذمہ داری ہے یا تنقید یا زور زبردستی جو ایک مرد کو ایک عورت کی ذمہ داری اُٹھانے سے متنفر کرتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کہا جاتا ہے جب کوئی خود پہ بھی کسی وجہ سے ناز کرنے لگتا ہے تو ایک زعم میں ڈھلنے لگتا ہے تو کیا اسے خود فریبی کہیں گے جب دونوں کا گناہ ایک ہی ہوتا ہے تو ایک کے لیے سزا اور ایک کے لیے جزا کیسے بن جاتی ہے پھر زندگی صرف دائمی شکووں کی نذر ہوجاتی ہے۔ محبت کے بارے میں رُومی نے کہا تھا: ”از محبت خار ہا گل می شود“ یعنی محبت سے کانٹے بھی گلاب بن جاتے ہیں۔ مگر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آیا یا درد اور کانٹے آپ کی ذات کے اندر کچھ اس طرح تحلیل ہوجاتے ہیں کہ پھر قید میں ہی رہائی نظر آنے لگتی ہے، تو پھر کیا کریں محبت کے پیمانے کو کس طرح وضع کریں؟

سماج اور انسانی رشتوں میں توازن کی برقراری کے بتائے گئے بیشتر اُصولوں میں سے کس پہ اور کیسے عمل کریں؟ کیا محبت کو کسی اور چیز سے ادل بدل کیا جاسکتا ہے؟ کیوں انسانیت ہی انسانیت کو سبوتاز کرتی رہتی ہے؟ روزِ ازل سے لے کرکتنی ہی تحریکیں اس بدنصیبی کی بھینٹ چڑھتی رہیں کہ محبت کیا ہے اور مقدم کون ہے؟ مرد یا عورت؟ کیا انسان کے اندر مثبت یا منفی نمونوں کے خاکے نہیں اُتارے گئے۔ تقویٰ کے ساتھ ساتھ فسق و فجور بھی شاید انسانی فطرت میں الہام کر دیے گئے ہیں۔

کتاب ”درویشوں کا ڈیرہ“ کی تقریب رُونمائی میں بہت مزہ آیا اس کتاب کو پڑھنے کی تمنا اور زیادہ زور پکڑنے لگی۔ دیکھیے مجھ غریب تک یہ کتاب کیسے اور کب پہنچتی ہے؟ ڈاکٹر صاحب خود کے لیے آخر میں پھر ایک سوال چھوڑے جا رہی ہوں شاید میں از خود سراپا سوال ہوں۔ ڈاکٹر صاحب آپ خود کو ”دہریہ درویش“ کہتے ہیں تو بتائیے کہیں آپ کچھ تسخیر کرنے تو نہیں نکل پڑے۔ ؟ کہیں آپ رشتوں کی باریکی اور ذمے داریوں سے تو نہیں گھبرارہے؟ ڈاکٹر صاحب مجھے کہنا پڑے گا یہ بھی آپ کی شخصیت کی پرتوں میں چھُپی ہوئی وہ مٹھاس ہے جس نے مجھے اتنے کڑوے سوال کرنے پہ اُکسا دیا۔ بہر حال میں بھی آپ کے ”دلوں کے کنبے“ کا حصہ بننا چاہتی ہوں لیکن اپنی Intelligence Capacityاور Intellectual Visionکو جاننے کے بعد اب آپ بتائیے اسے کیسے حل کروں۔ ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).