بیٹی خدا کی رحمت یا قتل کا پروانہ


تین سال قبل جب میری بیٹی زہرا میرے پیٹ میں تھی تو میڈیکل چیک اپ کے لئے الٹراساؤنڈ کروانے ایک سینٹر پر گئے ہوئے تھے۔ نام لکھوایا فیس جمع کروائی تو کاؤنٹر پر کھڑے شخص نے پہلے سے رش زیادہ ہونے کی وجہ سے آدھا گھنٹہ انتظار فرمانے کو کہا۔ میاں باہر بیٹھے میں لیڈیز ہال میں داخل ہوئی تو گھمسان کا ماحول بنا ہوا تھا۔ بیٹھنے کی جگہ کے لئے نظر دوڑائی تو ایک کونے میں تھوڑی سے جگہ مل گئی۔ اس دوران میری نظریں دو عورتوں پر تھی جو میرے برابر میں بیٹھی تھیں، دیکھنے میں کسی ٹرائبل ایریا سے ان کا تعلق لگ رہا تھا، ایک جوان لڑکی رو رہی تھی جو اس بوڑھی عورت کی بیٹی لگ رہی تھی۔

بہرحال میں بیٹھنے کے بعد معمول کے مطابق خاموش ہی رہی کیونکہ انجان جگہ پر انجان لوگوں سے کم ہی بات کرتی ہوں۔ حال میں عورتوں کی گفتگو کے شور میں مسلسل میرے کانوں کے پردوں سے اس لڑکی کے رونے کی آواز اور بوڑھی عورت کی تسلی کے انداز میں ہلکی آواز ٹکرا رہی تھی۔ میں نے پہلے موقعہ پر یہ سوچا شاید اس لڑکی کو اتنی زیادہ تکلیف ہے تب ہی رو رہی ہیں۔ اتنے میں روتی لڑکی نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے سہمے ہوئے سسکتے آواز میں بوڑھی عورت سے کہا “وہ مجھے اب مار دے گا“ تو میں نے شاک ہوتے ہوئے مڑ کر دیکھا تو دروازے پر تو کوئی نہیں تھا شاید میں بھی اس جملے کو سن کر تھوڑی بوکھلا گئی۔ میں نے کچھ جانے بغیر اس بوڑھی عورت سے یکے بعد دو تین سوال پوچھ لئے اس بہن کو کیا ہوا، اسے کون ماردے گا یہ مسلسل کیوں رو رہی ہے انہیں کیا تکلیف ہے؟

میرے سوال پوچھنے کے بعد لڑکی کا یک دم سے رونا بند ہوگیا لیکن اس کے آنسو تب بھی نہیں تھمے تھے، شدید کرب میں مبتلا اس کی نظریں مجھے گھورنے لگیں، پریشان حال بوڑھی عورت نے اداس نظروں سے میری طرف دیکھا اور تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد آہستہ سے کہا یہ میری بدنصیب بیٹی ہے، یہ آج کیوں رو رہی یہ اس کا قصور نہیں یہ سب میرا قصور ہے، میں نے اسے پیدا کرنے کے وقت اس کا گلا نہیں گھونٹا تھا، شاید وہ میری غلطی کی سزا اب ہم دونوں کو مل رہی یے۔

میں حیران ہوئی میں نے سوال کیا پوچھا اور اس نے مجھے جواب کیا سے کیا دے دیا، بظاہر تو بوڑھی عورت کے بات کرنے سے ایسا لگا وہ پڑھی لکھی نہیں ہیں لیکن اردو بولنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہو رہی تھی۔ لگتا کافی عرصے سے شہر میں رہ رہی ہیں۔

میں نے حیران ہوکر پھر سے پوچھا آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں ایسا نہ کہیں بیٹیاں تو خدا کی رحمت ہوتی ہیں آپ بھی تو کسی کی بیٹی ہیں!

اس بوڑھی عورت نے طنزیہ انداز میں جواب دیا خدا کی رحمت کہاں ہیں ہم تو خدا کی طرف سے اپنے آپ کے لئے زحمت ہیں، بات کو جاری رکھتے ہوئے اس میلی آنکھوں والی بوڑھی عورت نے بیٹی کے آنسو پونچھتے ہوئے حال میں بیٹھی دوسری عورتوں پر نظر دوڑاتے ہوئی ہوئے میری طرف دیکھ کر کہنے لگی۔ میری قسمت میں تکلیفیں ہی تکلیفیں لکھی ہوئی ہیں۔ شادی ہوئی، پہلے بیٹا پیدا ہوا تو میرے شوہر بڑے خوش ہوئے اس کے بعد دو بیٹیاں پیدا ہوئیں تو کوئی خوشی نہیں منائی گئی اور چوتھی مرتبہ بھی بیٹی پیدا ہوئی تو غلیظ گالیاں دے کر شوہر گھر سے دس دن کے لئے چلا گیا۔

کچھ دن بعد واپس آیا لیکن بیٹی کی رحمت کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی کیونکہ اس کی مرضی تھی بیٹا پیدا ہو اس نے دھمکی دی اگر اگلی مرتبہ بیٹا پیدا نہیں کیا تو میں تمہیں گھر سے نکال دوں گا، کچھ عرصہ گزرا مجھے دوبارہ اللہ نے بیٹی پیدا عطا کی تو میرے مرد نے اپنی غیرتمند زبان کو پانی دیا اور مجھے گھر سے نکال دیا۔ مجھ سے میرا چھوٹا بیٹا چھین لیا اور مجھے بیٹیوں سمیت نکال دیا، کچھ عرصے بعد طلاق دے دی تو میرے بھائیوں نے میری ایک دوسرے شخص سے شادی کروادی جو مجھے کراچی لے کر آیا، میرے دوسرے شوہر جو پہلے سے شادی شدہ تھے لیکن اس نے اپنی بیوی کو ملکیت کے چکر میں غیرت کے نام پر اپنے ہی بھائی پر الزام لگا کر دونوں کو قتل کردیا تھا۔

دوسرے شوہر نے میری بھائیوں سے مجھے اس شرط پر اپنایا تھا کہ میری دو بیٹیوں کی وہ اپنی مرضی سے کہیں بھی شادی کروادے گا۔ مجھے دوسرے شوہر سے سات بچے ہوئے چار بیٹے تین بیٹیاں۔ سب کی شادی کروا دی گئی۔ میری بیٹیوں کو شوہر نے اپنی مرضی سے چھوٹی عمروں میں ہی دور دور اپنے قبیلے کے لوگوں میں کچھ رقم کے عوض شادی کروا دی، سب کی زندگی سکھی ہے کیونکہ ان کے بیٹے پیدا ہوئے ہیں!

بوڑھی عورت نے کہانی لمبی کردی تھی میں نے اس سے صرف اس لڑکی جوکہ اس کی بیٹی تھی اس کے رونے کی وجہ پوچھی تھی لیکن اس نے اپنی زندگی بیان کردی، میں نے آہستہ سے ان سے دوبارہ پوچھا یہ آپ کی بیٹی کیوں رو رہی ہیں؟

اس خاتون نے حیرت سے دیکھتے ہوئے تیکھے لہجے میں کہا اس کا قصہ بھی میرے جیسا ہی ہے کیونکہ یہ بدبخت میرے پہلے شوہر سے پیدا ہوئی تھی جس وجہ سے اس کا دوسرا باپ اور سوتیلے بھائی اس کی داد فریاد کم ہی سنتے ہیں! ویسے بھی اس نے اس کے عوض رقم جو لی تھی، آپ نے پوچھا یہ کیوں رو رہی ہے، میری اس بیٹی کو مسلسل پانچ بیٹیاں پیدا ہوئی ہیں!

برابر میں بیٹھی دوسرے عورت نے تیز آواز میں حیرت سے کہا پانچ بیٹیاں! اس پر میں نے ”ماشا اللہ“ کہا تو بوڑھی خاتون کے ہونٹوں پر ایک ہلکی مسکان آئی اور طنزیہ فرمانے لگیں ماشا اللہ نہ کہیں اس کی بیٹیوں کو کوئی نظر نہیں لگنی، اس کی پانچ بیٹیاں ہی تو اس کی مصیبت بنی ہوئی ہیں اس کے شوہر نے اس کو آخری بار دھمکا کر بھیجا تھا کہ اگر اس مرتبہ بیٹا پیدا نہ ہوا تو میں تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کرکے دریا میں بہا دوں گا۔ اس بدنصیب کی موت کا پروانہ جاری ہوچکا ہے کیونکہ آج ڈاکٹرنی صاحبہ نے الٹراساؤنڈ دیکھ کر کہا ہے کہ آپ کی آنے والی بیٹی بالکل صحت مند ہے!
اتنے میں نرس کی آواز آئی 43 واں نمبر شرمین کون ہیں۔ جلدی آئے ڈاکٹر بلا رہے ہیں، اور میں نم آنکھوں سے انہیں بے بسی کے عالم دیکھتے ہوئے لیڈیز ہال سے باہر نکل آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).