عورتوں کا بین الاقوامی دن اور پاکستانی عورتوں کی حالت


امریکی عورتوں کا دن انیس سو گیارہ سے باقاعدہ طور پر مناتے ہیں۔ یوں تو یہ دن سرمایہ دار دنیا مناتے ہیں جہاں پر بھی عورت انسان نہیں جنس ہوتی ہے لیکن ایسی جنس جو کم از کم معاشی اور سماجی طور پر اتنی خود انحصار ہوتی ہیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکتی ہیں۔ چاہے ان کے اپنے والدین ہوں، رشتہ دار یا سماج کوئی طاقت یا مجبورکرکے ان پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کرسکتا۔ اور اپنے زندگی کے ذاتی فیصلے خود کرتی ہیں۔ اتنی سی بات ہے جس کی بدولت مغربی ممالک سماجی، سیاسی اور معاشی طورترقی یافتہ ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ عورت جنس نہیں انسان ہے تو سرمایہ داری نظام میں نہ صرف عورت بلکہ ہر فرد کو جنس اور نفع و نقصان کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اور یہ دن منانے کا مقصد عورتوں کے حقوق، ذمہ داری اور ترقی کے حوالے سے احساس دلانے کے لئے ہوتا ہے۔

پاکستان میں عورتوں کے اس دن کے حوالے سے دیکھا جائے پہلے تو دیہاتوں میں کسی کو بھی پتہ نہیں ہوگا اور شہری خواتین میں بھی اکثریت اس دن کے حوالے سے بے خبر ہوں گی۔ سیاست اور این جی اوز میں جو عورتیں موجود ہیں ان کو پتہ بھی ہوتا ہے اور وہ اس دن کو مناتے بھی ہیں۔ کس طرح مناتے ہیں یہ اور بات ہے علامتی طورپر پریس کلب کے سامنے یا سیمینار منعقد کرتے ہیں اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں لمبی لمبی تقریریں ہوتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے لیکن گفتار کے غازیوں کو کردار کاغازی بنے بغیر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اپنے گھر میں اپنی عورت ہو یا کام کرنے والئی ان کے حقوق کا کتنے لوگ خیال کرتے ہوں گے یا کتنے ہوں گے جو اپنے ساتھ اپنے گھر والوں اور کام کرنے والی عورتوں کو ساتھ اس دن کے حوالے سے شامل کریں؟

پاکستانی سماج کی اکثریت فیوڈل مائنڈ سیٹ رکھتی ہے چاہے پارلیمنٹ میں ہوں، اداروں کے سربراہ ہوں یا کام کرنے والے ہوں دوسری بات مذہب کا ہم پر اور غلبہ ہوں نہ ہوں لیکن عورتوں کی آزادی کے حوالے سے ہم سب کی غیرت جاگ جاتی ہے۔

پنجاب، کراچی، اسلام آباد کے شہروں میں تو عورتوں کو کچھ آزادی حاصل ہے جو اپنے فیصلے خود کرسکتی ہیں کیونکہ وہ معاشی طور خودمختار ہوں گی لیکن دیگر شہروں میں اور تمام دیہات میں عورتوں کی حالت دیکھنے والی ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی ہماری اکثریت غلاموں سے بدترزندگی گزار رہی ہیں۔ بچے پیدا کرنا اور گھر کے کام کاج کرنے کے علاوہ اپنی مرضی سے گھر سے باہر بھی نہیں جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے حق سے بے خبر اور اپنی حالت پر خوش نظر آتی ہیں جس میں مذہب کا زیادہ عمل دخل ہے۔

جس میں جنت ماں کے قدموں میں اور جنت میں حور کی شکل میں دکھا کرعورت کو خاموش کردیا ہے۔ لیکن زندگی میں اپنی بیوی، بہن کو کتنے لوگ اپنا حصہ خوشی سے بغیر مانگے دیتے ہیں تو ان کی تعداد گنتی میں ہوں گی۔ چونکہ میر ا تعلق پشون قوم سے ہے اس لئے میں پشتون عورتوں کی زندگی کے بارے زیادہ جانتا ہوں اور بہتر مشاہدہ کرسکتا ہوں۔ ہمارے ہاں کوئی بھی اپنی عورتوں کے جائیداد، آمدنی میں بخوشی اور مانگے بغیر حصہ نہیں دیتا۔

اور جو مانگے تو ان عورتوں کے لئے بے شرم، بے حیا، آزادخیال، طوائف یا دوسری قسم کے القابات سننے کو ملتے ہیں اور وہ صرف اپنے خاندان والوں کی طرف سے نہیں بلکہ ارد گرد کے تمام مرد وزن کے طعنوں کا شکار ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں زیادہ تعلیم یافتہ اور باشعور عورتوں کو پھر یہاں رشتے ملنے میں بھی اس لئے دشواری ہوتی ہے کہ کوئی بھی مرد عورتوں کو برتر برداشت نہیں کرسکتے۔

ہماری جیسی پسماندہ سماج میں عورتوں کے حقوق اور آزادی کے لئے بیداری کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم اور معاشی ترقی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ معاشی خودمختاری ہی عورتوں کی آزادی اور خودمختاری کی ضامن ہوسکتی ہے۔

اس لئے تمام باشعور اور انسان دوست دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے گھر کی عورتوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی سے لے کر اپنے ارد گرد کی عورتوں کو منظم شکل میں معاشرے کی ترقی میں کردار اداکرنے کے لئے عملی کام کریں۔ کیونکہ تعلیم یافتہ اور خودمختار عورتوں کے بغیر معاشرے سے انتہاپسندی، جہالت اور پسماندگی ختم کرنا ناممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).