وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ


8 مارچ خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1913 سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دلانا اور خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کو ختم کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب جنت کو تخلیق کیا اور آدم علیہ اسلام کو جنت میں رکھا تو آپ علیہ السلام جنت میں اکیلے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ اسلام پر نیند غالب کر کے ان کی دائیں پسلی میں سے ایک پسلی نکال کر اس سے حوا کو پیدا فرمایا اور حضرت آدم علیہ السلام کی نکالی ہوئی پسلی کی جگہ کو گوشت سے بھر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کی پیدائش پسلی ہوئی ہے اور پسلی ٹیڑھی ہوتی ہے اس سے نرمی احتیار کریں کیونکہ پسلی کو اگر سختی کے ساتھ سیدھا کریں گے تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اور اس کا ٹوٹنا ”طلاق“ ہے اس لیے حتی الامکان عورت سے نرمی احتیار کرو۔

کسی معاشرے کی سماجی حالت کا اندازہ لگانا ہو تو اس میں عورت کی حیثیت کا مطالعہ کیا جائے۔ جس معاشرے میں عورت کے مقام کے تعین میں افراط و تفریط سے کام لیا گیا ہوں وہ مہذب یا ترقی یافتہ معاشرہ نہیں ہو سکتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی عورت کسی معاشرے میں افراط و تفریط کا شکار ہوئی ہے اس معاشرے کی چولیں ہل کر رہ گئیں۔

دنیا کی تعمیر و تخریب میں عورت اور مرد برابر کے شریک ہیں۔ آج کسی بھی معاشرے کی فتح و شکست کا اندازہ زور و بازو سے نہیں بلکہ اس کی دماغی طاقت اور ذہنی صلاحیت سے لگایا جاتا ہے۔ عورت آج اپنی ذہنی صلاحیت ہی کی وجہ سے زندگی کے کسی بھی شعبے میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ آج شاید ہی کوئی شعبہ حیات ایسا ہو جس میں عورتوں نے پیش رفت نہ کی ہو اور نمایاں کامیابی حاصل نہ کی ہوں۔ بلا امتیاز جنس وہ ہر شعبہ میں مردوں کے مقابل کھڑی ہوئی ہیں۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہرکامیاب مرد کے پیچھے ایک عور ت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے اسی طرح ہر کامیاب معاشرے کے پیچھے خواتین کی محنت اور کردار ضرور ہوتا ہے۔

زمانے اب ترے مدمقابل
کوئی کمزور سی عورت نہیں ہے

لیکن خواتین کے کچھ مسائل جو پہلے تھے اب بھی ہیں۔ مذہب کے نام پر عورت کا آج بھی استحصال ہوتا ہے۔ آج بھی ہمارے ہاں عورت غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہے۔ پروفیشن کو چننے میں پابندیاں، انصاف تک رسائی میں رکاوٹ اور کھیلوں میں شمولیت میں مشکل جیسے مسائل آج بھی ہیں۔ زنا بالجبر، اغوا، گھر اور گھر سے باہر عدم تحفظ، تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں، آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ، جبری محنت، مفلسی، جہالت، بیروزگاری اور جہیز جیسی چیزیں آج بھی اس کے روشن مستقبل کو غیر یقنی بنائے ہوئے ہیں۔
یہ سب مسائل توجہ طلب ہونے کے ساتھ ساتھ حل طلب بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).