ترکی کا تنہا سفر تھا اور جہاز میرے بغیر اڑ گیا


8 فروری کا دن تھا رات کے گیارہ بج رہے تھے، بورڈنگ ہو چکی تھی اور میں لاؤنج میں بیٹھ کر 12:15 بجنے کا انتظار کر رہی تھی۔ گھر والوں سے رخست لے چکی تھی اور عجیب سا ڈر تھا۔ گھرسے دور جانے کا ڈر۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ میرا زندگی کا پہلا بیرون ملک سفر تھا اور وہ بھی تنہا۔ اسی سوچ کے ساتھ میں لاؤنج میں بیٹھی اور پھر اپنے گھر والوں سے متعلق سوچنے لگی یہ کیفیت بڑی عجیب تھی، وقت گزارنے کے لیے میں کبھی ساتھ بیٹھی چینی لڑکی کو دیکھتی تو کبھی گھڑی پر نظر ڈالتی۔

اس دوران پرواز کے انتظار میں میں نے گھر والوں سمیت تمام رشتہ داروں سے بات چیت بھی کر لی اور سب کو اپنی خیر وعافیت سے آگاہ بھی کر دیا۔ کچھ دوستوں سے بات کی اور بتایا کہ میں ایک یکسچینج پروگرام پر ترکی جا رہی ہوں، چونکہ قریبی دوست جانتے تھے کہ میں ہمیشہ سے ہی ترکی کا سفر کرنا چاہتی تھی اس لیے وہ سب میرے لیے بہت خوش تھے۔ اور مجھے بھی سب افسانوی لگ رہا تھا مگر ایک چیز جو حقیقت تھی وہ یہ کہ میں اب دو ماہ کے لیے کچھ نیا سیکھنے جا رہی ہوں۔ جن سے بات نہیں ہو پائی ان کو مسیج پر آگاہ کر دیا۔ سب نے دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔

ترکی جانے سے کچھ دن پہلے ایک ساتھی اینکر نے کچھ بہترین چیزیں بتائی تھیں ان میں سے ایک یہ کہ ہوائی سفر کے دوران کان بند ہو جاتے ہیں اور اکژ لوگوں کو تکلیف بھی شروع ہو جاتی ہے۔ اس لیے ایک عدد ببل لاؤنج سے خرید لیجیے گا، جب جہاز بلندی پر جائے تو اس کو چبانا شروع کر دیجیے گا اس سے آپ کو مدد ملے گی مگر یہ سب کس کو یاد رہتا ہے ہے بھلا؟ میں تو سب کچھ گھبراہٹ میں ایسے بھولی پڑی تھی جیسے کچھ معلوم ہی نہ تھا۔

گھڑی دیکھی تو 12:05 بج رہے تھے۔ اپنی نشست سے اٹھی اور کاؤنٹر کی جانب گئی۔ اس کے بعد تمام دیگر مسافروں کی طرح میں بھی ایک سمت کی طرف بڑھتی گئی، سامنے ایک شخص بورڈنگ پاس دیکھنے کے بعد ان کو ان کی نشت کی جانب جانے کا اشارہ کرتا اور ساتھ ساتھ کچھ انگریزی کے الفاظ بولتا جو اکثر کی سمجھ میں نہ آتے چونکہ میری نشست دور نہیں تھی یس لیے زیادہ پریشانی نہیں اٹھانا پڑی۔ نشست پر بیٹھی اور لمبا سانس لیا پھر فون اٹھایا اور والد کو کال کی، سلام پیش کرنے کے بعد انہیں اطلاع دی کہ آب جہاز اڑنے والا ہے اور میں پہنچ کر ان سے رابطہ کروں گی۔ ماں باپ کی دعاؤں کے ساتھ رخست ہوتے ہوئے جہاں میں خوش تھی وہیں کافی اداس بھی کیونکہ یہ میرا زندگی کا پہلا تنہا سفر تھا اور وہ بھی اتنی دور!

جہاز نے اڑان بھری اور حفاظتی اعلان شروع ہوگیا، کچھ سمجھ میں اور کچھ نیند اور تھکاوٹ کی وجہ سے سر کے اپر سے گزر گیا۔ باقی کا ائرہوسٹوں کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا۔ اس سب کے بعد سوچا کے کیوں نا آنکھ لگا لوں مگر ترکی جانے کی خوشی کہیے یا بے چینی نیند آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ایک دو بار آنکھے بند بھی کیں مگر ساتھ بیٹھے ایک بزرگ کی کھانسی نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا سونا! جہاز جیسے ہی مزید بلندی پر گیا تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا، کان بند ہوگئے اور اس کا اثر مزاج پر ہونے لگا۔ طبعیت خراب ہونے لگی اور سوچنے لگی کہ لگتا ہے نظر لگ گئی۔ میرے اندر کا پاکستانی جاگ گیا۔ سفر پانچ گھنٹوں کا تھا اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کئی سالوں کا ہو۔

خدا خدا کر کے جدہ ائرپورٹ پہنچے چکینگ کے بعد لاؤنج میں گئے تو نہ ہی کوئی جگہ تھی اور نہ ہی بیٹھنے کا حال تھا۔ لاؤنج میں تقریبا ہر رنگ و نسل کا بندہ موجود تھا۔ پہلے تو میں نے کافی وقت جگہ تلاش کرنے میں صرف کر دیا اور پھر تھک کر زمین پر ہی بیٹھ گئی۔ اگلی فلائیٹ میں ابھی 3 گھنٹے پڑے تھے۔ نا تو میرے پاس سم کارڈ تھا نا ہی وائی فائی تک رسائی۔ ایسے میں نیند بھی شدید تھی مگر ڈر تھا کہ کہیں میں فلائٹ مس نہ کر دوں۔

ادھر ادھر نظر دوڑائی پھر ساتھ بیٹھی ایک ملائیشین لڑکی سے بات چیت شروع کردی۔ اس کا اسٹے کافی لمبا تھا، ہم دونوں کافی دیر بات چیت کرتے رہے، وہ ایک طالب علم تھی اور وہ ملائیشیا آپنے گھر والوں سے ملنے جا رہی تھی۔ اس سے بات کر کہ کافی حوصلہ ملا۔ باتوں کا سلسلہ رکا تو ایک نگاہ گھڑی پر ڈالی وقت ہو ہی گیا تھا۔ میں اٹھی اور بیک پیک اٹھا کر کاؤنٹر کی جانب گئی۔ وہاں موجود شخص سے پرواز کا پوچھا تو اس نے عربی ایکسنٹ میں کہا میدیم فلائیت از لیت۔

اس وقت جی چاہا کہ اس پرغصہ کروں مگر یہ اس کے بس کی بات تھوڑی تھی۔ میں مزید پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایک گھنٹہ اور لگے گا۔ یہ سن کر میں واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھی۔ نیند سے آنکھیں بوجھل تھیں اور سر میں شدید درد تھا، میں نے سوچا کہ کیوں نا آنکھ لگا لوں! میں نے ساتھ میں بیٹھی ملائشین لڑکی کو التجا کی کہ کیا وہ مجھے 15 منٹ کے بعد اٹھا سکتی ہے تو اس نے ہاں کردی۔ یہ سن کر میں سکون کا سانس لیا اور پھر اپنا سر بیگ پر رکھ کر سو گئی۔

ایک خوبصورت خواب شروع ہوگیا۔ خواب میں دیکھتی ہوں کہ میں ترکی جا رہی ہوں اور میرے گھر والے بھی ساتھ موجود ہیں، غالبا وہ بھی میرے ساتھ ترکی جا رہے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں اور سب سے آگے موجود ہوں جیسے ہی میں آپنا بورڈنگ پاس اور پاسپورٹ آگے کرتی ہوں تو وہ افیسر مجھے دیکھ کر کہتا ہے کہ! فروا یور فلائٹ از گون! ویک آپ۔ ایک دم سے ڈر کے آنکھ کھلی تو ساتھ بیٹھی ملائیشین لڑکی مجھے ہلاتے ہوئے یہی جملے کہہ رہی تھی!

ویک آپ فروا یور فلائٹ از گون! اس کو سننا تھا کہ میں گھبراتے ہوئے اٹھی اور بیگ اٹھا کر کاؤنٹر کی جانب بھاگی۔ ادھی ہوش میں نے کاؤنٹر پر موجود شخص کو اپنا بورڈنگ پاس دیتے ہوئے فلائٹ کا پوچھا تو اس نے میرا چہرا شدید غصے سے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ آر یو مس فروا واحید؟ میں نے الفاظ ادا نہ کرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔ اس نے میرا پاس واپس کرتے ہوئے کہا کہ ویر ور یو؟ وی کالڈ یور نیم فائف ٹائمز؟ یو مسڈ یور فلائٹ میدیم۔

یہ سن کر میں پوری ہوش میں آگئی کیونکہ اس کے منہ سے نکلے الفاظ کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت تھے۔ ایسے معلوم ہوا جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔ میں نے کچھ لمحے خود کو نارمل کرنے میں لگائے اور اس سے مزید حل کا پوچھا تو اس نے کہا سوری یو ہیو ٹو بائے نیو ٹکٹ! اور پھر وہ ساتھ والے سے عربی میں بات کرنے لگا۔ ایک دم مجھے دیکھ کر بولا ویئر ور یو؟ میں نے گھبراہٹ میں کہا کہ دا فلائٹ گوٹ لیٹ سو ا وینٹ تو دا واش روم۔ اس نے میری طرف کھا جانے والی آنکھوں سے دیکھا اور کہا بائے یور نیو ٹکٹ وی کانٹ ہیلپ یو! یہ سن کر میرے دماغ میں تمام ڈبلیو اور ایچ گھومنے لگے! ہائے فروا کیا کردیا تو نے اب کیا ہوگا؟ سوال کئی تھے اور جواب۔ ایک بھی نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).