ہماری بہادر عورتیں


ہمارے یہاں یہ ایک عام روش ہے کہ 8 مارچ کا دن آئے تو اخباروں میں ”وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ“ لکھ کر اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوا جائے۔ ایک دل نواز مصرعہ لیکن اس کے پیچھے عورتوں کی زندگی کی کیسی محرومیاں اور بد صورتیاں چھپادی گئی ہیں، اس بارے میں سوچنے کی فرصت بیشتر عورتوں کو ہی نہیں ہوتی، مردوں سے بھلا کیا شکایت کی جائے۔

برصغیر کی تاریخ کو پڑھ جائیے، کیسی کیسی باکمال اور پُر جلال عورتیں گزری ہیں۔ ان میں رانیاں، مہارانیاں ہیں، بادشاہ بیگم اور شاہزادیاں ہیں۔ کھیت کھلیان میں، کارخانوں اور کرگھروں پر کام کرنے والیاں ہیں۔ جنہوں نے ہر ہر قدم پر غربت سے لڑائی لڑی، اپنے گھر والوں کی بھوک اور احتیاج کے سامنے ہار نہیں مانی اور ایسے بیٹے اور بیٹیاں اٹھائیں جنہوں نے برصغیر کی آزادی میں اپنا کردار ادا کیا۔

آج اگر برصغیر دنیا کے نقشے پر ایک شاندار اور باوقار سماج کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے تو اس کا سہرا ان نامور اور گم نام عورتوں کے سر ہے جنہوں نے انیسویں صدی کے آخر سے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی تعلیم کے لیے جان لڑادی تھی۔ لگ بھگ ڈیڑھ سو برس کی اس خاموش جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے یہاں سروجنی نائیڈو سے فاطمہ جناح، رعنا لیاقت علی خان اور وجے لکشمی پنڈت سے بیگم نسیم ولی خان، طاہرہ مظہر علی خان، نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو تک باہمت اور جمہوریت کے لیے بے جگری سے لڑنے والی عورتوں کی قطار ہے۔

ہم عصمت چغتائی کو کیسے بھول جائیں جنہوں نے کالج کی تعلیم پر پابندی لگانے والے اپنے رعب و دبدبے والے باپ سے کھلم کھلا یہ کہہ دیا تھا کہ اگر مجھے آگے پڑھنے کی اجازت نہ ملی تو میں ”کرشٹان“ ہوجاؤں گی۔ انگریز بہادر کی حکومت تھی، والد انگریز سرکار کے ملازم تھے، یہ دھمکی سن کر انھیں اپنی بیٹی کے سامنے ہتھیار ڈالتے بنی تھی۔ یہ وہی عصمت چغتائی ہیں جنہوں نے نہ صرف ادب میں جھنڈے گاڑے بلکہ بی اے بی ایڈ کرکے پہلی مسلمان انسپکٹرز آف اسکولز ہوئیں۔

ہم تاریخی اعتبار سے جائزہ لیں تو عالمی سطح پر خواتین کے دن کا قصہ 28 فروری 1909 سے شروع ہوتا ہے جو پہلی مرتبہ امریکا میں منایا گیا۔ 1910 میں کوپن ہیگن کے شہر میں 17 ملکوں کی 100 عورتوں نے خواتین کے بین الاقوامی دن کا تعین کیا اور پھر 1911 میں آسٹریلیا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں دس لاکھ سے زیادہ عورتوں اور مردوں نے مل کے عورتوں کے حقوق اور سب سے بڑھ کر ان کے ووٹ ڈالنے کے حق کے لیے بڑے بڑے جلوس نکالے اور اپنے حکمرانوں کو اس بات کا احساس دلایا کہ اب انھیں حکومت میں عورتوں کو شراکت داری کا حق دینا پڑے گا۔

برصغیر کی تحریک آزادی میں جو ابھار تھا، اس نے کروڑوں عورتوں کو متحرک کیا۔ ان میں سے چند کے سوا تمام عورتیں گم نام رہیں لیکن یہی وہ عورتیں تھیں جنہوں نے ہماری لڑکیوں اور عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے، ہنر سیکھنے اور زندگی کے ہر میدان میں قدم قدم آگے بڑھنے اور مستحکم بنیادوں پر سماج میں اپنا مقام حاصل کرنے پر اُکسایا۔ آج جب ہم زیب النساء حمید اللہ، رضیہ بھٹی، عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، خاور ممتاز، ڈاکٹر ملیحہ لودھی، شیری رحمان، شہلا رضا، کشور زہرا اور کشمالہ طارق کو ان کی جدوجہد پر داد دیتے ہیں تو ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ ان کے پیچھے ان کی مائیں، ان کے باپ اور شوہر بھی کھڑے ہیں۔ عورت کے حقوق کی جدوجہد میں ہمارے مرد جب تک شریک نہ ہوں، اسے کامیاب ہونے میں بہت دیر لگے گی۔ یوں بھی حقوق کی یہ لڑائی ایک بہتر اور منصف مزاج سماج کے حصول کے لیے ہے جس کا ثمر ہماری عورتوں کے ساتھ ہی ہمارے مردوں کو بھی پہنچتا ہے۔

ہم اگر تحریک پاکستان کا جائزہ لیں تو اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمان عورتوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنا مسلم لیگ کی قیادت کے لیے کس قدر اہم تھا۔ 1944 میں جناح صاحب نے علی گڑھ کے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا :

”یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے کہ ہماری عورتیں گھروں کی چار دیواری میں قیدیوں کی سی زندگی گزاریں۔ ہماری عورتیں جن شرم ناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آپ اپنی عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں کامریڈ کی طرح ساتھ لے کر چلیں۔ “

مسلمان عورتیں پاکستان کی حمایت میں جس حد تک آگے گئیں، اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ پشاور جہاں آج اکیسویں صدی میں بھی عورتیں برقعے یا چادر میں باہر نکلتی ہیں، وہاں سیکڑوں پختون عورتوں نے اپریل 1947 میں نقاب یا حجاب کے بغیر جلوس نکالا تھا اور یہ بھی پختون عورتیں تھیں جنہوں نے ان ہی دنوں ”پاکستان براڈ کاسٹنگ اسٹیشن“ کے نام سے ایک خفیہ ریڈیو اسٹیشن قائم کیا تھا جس کا کھوج 14 اگست 1947 تک نہیں لگایا جاسکا۔

آج مجھے یہ تمام عورتیں اور ان کی بے غرض جدوجہد یاد آتی ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ وہ تمام عورتیں اور لڑکیاں جو اس وقت حصولِ پاکستان کی سیاسی جدوجہد میں سرگرم تھیں، آج اگر زندہ ہیں، یا وہ جو ختم ہوچکی ہیں اگر چند گھنٹوں کے لیے زندہ ہوجائیں تو کیا ان کے ذہن میں کئی سوال نہیں اٹھیں گے؟ کیا وہ نہیں سوچیں گی کہ اسی پاکستان کے لیے انھوں نے سینکڑوں برس پرانی روایات سے بغاوت کی تھی جہاں آج کروڑوں لڑکیاں اور عورتیں ختم نہ ہونے والی آزمائش میں مبتلا ہیں اور ہر آنے والا دن اس میں اضافہ کررہا ہے۔

اس جدوجہد کے دوران انھوں نے اپنے لیے کوئی حق نہیں مانگا تھا اور جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک آزاد ملک کے قیام کی جدوجہد میں سڑکوں پر نکلی تھیں تو کیا انھیں تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں سے، پاکستان بنانے والوں سے سوال کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا؟ کیا وہ یہ نہیں پوچھ سکتیں کہ انھیں ایک ایسے پاکستان کے خواب کیوں دکھائے گئے جہاں عورت کو ”کامریڈ“ ہونے کا مژدہ سنایا گیا تھا اور جہاں وہ ”کاری“ بنادی گئی۔ جہاں اس سے بعض وہ حقوق بھی چھین لیے گئے جو ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے انگریزوں نے اسے دیے تھے۔

یہ افسوس ناک صورت حال ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات پر خاص توجہ دینی چاہیے کہ سندھ جو تحریک آزادی میں سرگرم رہا اور جس نے آزادی کے فوراً بعد ملک کی جمہوری بنیادوں پر تشکیل کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وہاں آج نوجوان سندھی لڑکیاں ایک ہلچل مچارہی ہیں۔ اب سے پہلے سندھ نے ون یونٹ کے خاتمے، ایم آر ڈی کی تحریک اور آمریت کے خلاف جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا تھا اور جیلیں بھر رہی تھیں، اب وہاں باشعور سندھی عورتوں کی ایک اونچی لہر اٹھی ہے جن میں ڈاکٹر عرفانہ ملاح، امر سندھو، بختاور جام، اور مردوں میں امداد چانڈیو اور دوسرے روشن خیال مرد بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ بیداری کی یہ لہر صرف سندھ ہی نہیں، پاکستان کے زمین و آسمان بدل دے گی۔ یہاں کی خاک سے ہی مختاراں مائی اور ملالہ یوسف زئی جنم لیتی ہیں۔

طنز و طعنے سے چھلنی ہونے کے باوجود یہاں اقبال بانو، فریدہ خانم، مادام نور جہاں، ملکہ پکھراج اور طاہرہ سید گائیگی کو زندہ رکھتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے تاریک دور سے گزر کر شیما کرمانی، نگہت چوہدری، ناہید صدیقی اور ہماری دوسری رقاصائیں اپنے گھنگھرو نہیں کھولتیں۔ بدترین دہشت گردی اور انتہا پسندی کے دور میں یہ ہماری عورتیں ہیں جنہوں نے اپنی تحریر، تقریر، اپنے فن پاروں کی تخلیق اور نمائش سے منہ نہیں موڑا۔

آج جب ہم بے خوفی سے لکھنے والے بہت سے ادیبوں اور صحافیوں کو داد دیتے ہیں تو ہم بیگم زیب النساء حمید اللہ کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں جو کہنے کو ایک سوسائٹی میگزین نکالتی تھیں لیکن جن کا اداریہ پاکستان کے پہلے آمر مطلق جنرل ایوب خان کی نیندیں حرام رکھتا تھا۔ یہ زیب النساء حمید اللہ تھیں جنہوں نے رسالے پر لگنے والی پابندیوں کے باوجود اس پاکستانی آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا جس کے سامنے ہمارے بڑے بڑوں کی سانس رکتی تھی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ 1983 میں اور اس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے جو سیاہ قوانین نافذ کیے ان کے خلاف جم کر لڑائی پاکستانی عورتوں نے لڑی تھی اور اسے بھی ہم کیسے فراموش کریں کہ 1964 میں یہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں جنہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے طوفانی دورے کرکے پاکستانیوں کو جمہوریت کے لیے یکجا اور متحد کردیا تھا۔ یہ بھی نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو اور کلثوم نواز شریف تھیں جنہوں نے جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کو زچ کردیا تھا۔ پاکستان میں جمہوری جدوجہد کا سلسلہ مستقل مزاج اور بے مثال خواتین رہنماؤں سے جڑا ہوا ہے۔ 8 مارچ ہماری نامور اور گم نام عورتوں کو یاد کرنے کا دن ہے۔
بشکریہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).