فیاض چوہان، نوائے وقتی سچ اور اسرائیلی پائلٹ


آئیے جشن منائیں کہ ہم نے اسلامی اقدار کو اپناتے ہوئے پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے جان چھڑا لی کہ اس نے مسلمان اکثریت کے معاشرے میں ہندو اقلیت کا دل دکھایا تھا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اقلیت کی جان، مال، آبرو اور عبادت گاہوں کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایک وزیر ہی اقلیتوں کی آبرو یعنی مذہب کامذاق اڑائے تو وہی ہونا چائیے تھا جو ہوا۔ مگر ٹھہریں یہ سب اسلام کے نام پر تو نہیں ہوا پھر کس لئے ہوا۔

چلیں جشن منائیں ہم لبرل ہو چکے آزاد خیال ہیں اور انسانی حقوق کے راستے پر اتنا آگے چل چکے کہ ایک وزیر نے ہمارے لبرل معاشرے میں اقلیت کے مذہب کا تمسخر اڑایا اور ہم نے کینیڈا کے روادار معاشرے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے انسانی حقوق کی مثال قائم کر دی۔ مگر ٹھہریں، حکومت بنے زیادہ عرصہ نہیں گزرا، عاطف میاں نام کا ایک معاشی ماہر جس کی قابلیت کا احترام امریکہ سمیت دنیا بھر کے معاشی اداروں میں کیا جاتا ہے کو عمران حکومت نے انگیج کرنے کا سوچا ہی تھا کہ شور اٹھا وہ تو قادیانی ہے۔ تبدیلی کی دعویدار حکومت دم دبا بھاگ گئی۔ تو پھر یہ کیا تھا، نہ اسلامی نہ لبرل یہ آج کا سرکاری سچ تھا جو جنگی حالات کے جبر تلے ہونا ہی تھا، یعنی صرف اور صرف خالص سیاست تھی۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا مجید نظامی مرحوم کا ایک ادارہ ہو ا کرتا تھا نوائے وقت۔ ہے تو آج بھی مگر نہ زندوں میں نہ مردوں میں، بہرحال جب یہ ادارہ پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اس وقت اس ادارے کی پالیسی کا ترجمان جو کہ کسی بھی اخبار کا اداریہ ہوتا ہے، میں ہندو لفظ اکیلا کبھی چھپا ہو مجھے یاد نہیں۔ کیونکہ اس لفظ کے ساتھ، مکار، کمینہ، بنیا، سازشی جیسے اعزازات ہمیشہ چھپتے تھے۔ یعنی مکار ہندو، سازشی ہندو، کمینہ ہندو وغیرہ۔

تنقید بھارت پر ہوتی تھی لیکن سرکاری سچ یا نوائے وقتی سچ اس وقت یہ ہی تھا۔ ضیاء الحق کے ساتھ اس ادارے کی لڑائی اسی حد تک ہوتی تھی جو قابل برداشت رہے مگر اس تمام دور کا جہادی سچ نوائے وقت کے صفحات پر چھپتا تھا۔ اسرائیل، امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ کی ساری اہم تفصیلات صرف نوائے وقت کو نصیب ہو تی تھیں اور مقدس جہاد کے لئے فکری رہنمائی نوائے وقت دیا کرتا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس اخبار کے اداریوں سے کتنے نوجوانوں کی زندگی متاثر ہوئی، کتنے والدین نے اپنی اولاد کو افغانستان اور کشمیر جہاد کرنے بھیج دیا۔ جن تنظیموں کو آج کالعدم قرار دیا جاتا ہے ان ہی کے رہنماؤں اور ورکروں کا محبوب نوائے وقت تھا۔

یوں سمجھیں کہ اردو صحافت کا ایک طویل دور ان ہی دو اداروں کی گویا سر پرستی میں گزرا، پہلا جنگ گروپ اور دوسرا نوائے وقت گروپ۔ جنگ گروپ کاروباری یا کمرشل سمجھا جاتا تھا اور نوائے وقت گروپ نظریاتی۔ مجید نظامی مرحوم اس فرق کو پوری شدت سے نہ صرف بیان کرتے بلکہ ایک طرح سے اس پر بہت فخر کیا کرتے تھے۔ اپنے اور جنگ گروپ کے درمیان اس فرق کو واضح کرنے کے لئے ان کے پاس بہت سی مثالیں ہوتیں۔ مثلآ ایک واقعہ ان سے میں کم از کم سات بار سن چکا ہوں کہ کیسے جب میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں جنگ گروپ کو ٹائیٹ کیا تو شکیل الرحمان اپنے ایک فرزند کے ساتھ نواز شریف کو لاہور میں ملے اور کمرہ ملاقات میں داخل ہونے کے بعد صوفے کے بجائے فرش بیٹھ گئے اور میاں صاحب کی حیرت بھرے اعتراض پر جواب دیا کہ میں اپنے بیٹے کو سکھا رہا ہوں کہ یہاں اگر کاروبار کرنا ہے تو حکمران سے ملنے کے آداب کیا ہوتے ہیں۔ مگر نواز شریف نے یوں ملاقات جاری رکھنے سے معذرت کر لی اور اصرار کر کے انہیں صوفے پر بیٹھایا۔

یہ واقعہ سنا کر وہ دراصل بتا رہے ہوتے تھے کہ میں کبھی کسی حکمران کے آگے اس طرح نہیں جھکا اور یہ ہی کاروباری اور نظریاتی گروپ کا فرق ہوتا ہے۔ ان کے نظریات کے مطابق وہ ہندو مذہب کی اصل یا تمام ہندوؤں کے باطن کو جانتے تھے اسی لئے ان کا یہ بیان آج بھی سب کو یاد ہے کہ ان کا دل کرتا ہے کہ ان کے جسم پر ایٹم بم باندھ کر انہیں بھارت پھینک دیا جائے۔

28 مئی 1998 کو جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے اس سے قبل کا سرکاری سچ تھا کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم نہیں ہے۔ مطلب دنیا کو ہم باور کرواتے تھے کہ ہم ایٹم بم نہیں رکھتے۔ غالباً 1996 کا سال تھا، پاک بھارت کشیدگی کچھ بڑھی جب نیلا بٹ کشمیر میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلے نواز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر بھارت کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ میں تصدیق کرتا ہوں کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے بھارت یاد رکھے اور کسی مہم جوئی سے باز رہے۔

اس تقریر کے بعد اس وقت کی وزیراعظم بے نظیربھٹو کو مصیبت پڑ گئی اور وہ بین الاقوامی اور لوکل میڈیا کے سامنے گویا قسمیں کھاتی رہیں کہ میں وزیر اعظم ہوں اور پوری ذمہ داری سے بتا رہی ہوں کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم نہیں ہے۔ وجہ یہ تھی کہ ان دنوں میں بھی اپنی مالی حیثیت وہی تھی جو آج کل ہے اس لئے بین الاقوامی پابندیوں کا ڈر تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ نواز شریف نے ایسا کیوں کہا تھا اور کس کے کہنے پر کہا تھا۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی لیکن اس ایک واقعہ سے یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ ہماری مقتدرہ کا کردار کیا رہا۔ وزیر اعظم کو ایک بریفننگ، اپوزیشن لیڈر کو دوسری۔

مجید نظامی مرحوم کی اپنی اولاد نہیں تھی اور دوسروں کی اولاد کو وہ افغانستان، یا کشمیر کے جہاد پر بھیجنے کے لئے اکساتے تھے۔ ان کے اخبار میں کام کرنے والے بھی نظریات کا پرچار کرتے۔ دو قومی نظریہ کا چوکیدار اور رکھوالا ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں تھا کہ وہ محض ہندو افراد کی سیاست سے اختلاف رکھتے۔ یا ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے سیاسی اختلاف کو بھارتی ہندووں کی سیاست تک محدود رکھتے۔ وہ بار بار لکھتے کہ ہندوؤں کا اصل بھگوان چانکیہ ہے جس کی مکاری ہندوؤں کی رگ رگ میں بھری ہے۔ انہیں یا قدیر خان کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ ان کے جنگی نعروں اور ارادوں میں اولیا کرام کے مزارات بھی آتے ہیں اور پاکستان کی ابادی کے برابر مسلمانوں کی تعداد بھی بھارت میں رہتی ہے۔

گائے کا پیشاب پیتے ہندو لیڈران کے ان گنت کارٹون نوائے وقت نے چھاپے۔ یہ، وہ وقت تھا جب ڈاکٹر قدیرخان اور مجید نظامی مرحوم کی بہت دوستی تھی۔ مکار ہندووں کے بارے میں ان دونوں کے نظریات ایک سے تھے، قدیر خان کو محسن پاکستان کہلوانے کا بے انتہا شوق تھا جو مجید نظامی پورا کرتے۔ ہمارا یہ ایٹمی سائنسدان شاید دنیا کا واحد ایٹمی سائنس دان تھا جو پریس کے سامنے گرجتا کہ بھارت کے ہندوؤں کو کتنے منٹ میں صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے، دہلی اور لکھنو کو کتنے لمحوں میں جہنم واصل کیا جا سکتا ہے وغیرہ۔

بعد میں جناب نظامی مرحوم کے غم اور حیرت کی انتہا نہ رہی جب ڈاکٹر قدیرخان اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد شکیل الرحمان کی زیادہ پیسوں کی آفر نہ ٹھکرا سکے اور جنگ گروپ سے وابستہ ہو گئے اور یوں دنیاوی دولت کو آخرت اور نظریات پر ترجیح دے دی۔ مجید نظامی مرحوم نے اگلے دن صفحہ اول پر اس غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔ مجید نظامی مرحوم نوائے وقت کے لئے لکھنے والوں کو درس دیا کرتے تھے کہ وہ انہیں زیادہ پیسے اس لئے نہیں دے رہے کہ وہ ایک مقدس فریضہ اور مشن سر انجام دے رہے ہیں صرف کاروبار نہیں کر رہے۔

جبکہ ان کے مقابل جنگ گروپ محض کاروباری گروپ ہے جس کا کوئی مقدس مشن نہیں۔ وہ جنگ گروپ سے زیادہ پیسوں کی آفر ملنے کو ضمیر بیچنے کے متبادل بتایا کرتے تھے۔ جناب ارشاد عارف اور محترم عرفان صدیقی ایک طویل فہرست کے صرف دو نام ہیں جنہوں نے نظامی صاحب کی پالیسی کو دل و جان سے اپنایا اور ایک طویل عرصے تک زیادہ پیسوں کی آفرز کو غیر اخلاقی جان کر دوسروں سے معزرت کرتے رہے اور مارکیٹ سے پانچ گنا سے بھی کم تنخواہوں پر کام کرتے رہے۔

غالباً فیاض الحسن چوہان اس مکتبہ فکر کو زیادہ سنجیدگی سے اپنا بیٹھے اور جان نہ پائے کہ سرکاری سچ اپنی ظاہری حالت بدل چکا ہے۔ میں فیاض الحسن چوہان کی وزارت چھننے کا نوحہ بیان نہیں کر رہا کہ یہاں ہر کوئی جانتا تھا کہ آنے والی پنجاب کابینہ میں ردوبدل میں ان کا نام پہلے ہی سر فہرست تھا کہ جس طرح وہ مولا جٹ بنے تھے اس نے بے چینی پیدا کر دی تھی، صرف یہ بیان کر رہا ہوں کہ نظریات کا نام لے کر جب آپ سچ جھوٹ پڑھائیں گے تو اس کے کچھ نتائج برآمد ہوں گے۔

ہر چند سال بعد ایک نیا نظریہ اپنا کر نصاب تبدیل کرنا، کبھی ایک تو کبھی دوسرے کی سرپرستی کرنا، ادھر بھی ادھر بھی کی پالیسی اپنے اندر اختلافات کا بارود لئے ہوتی ہے اور یہ ہی وہ بارود ہے جو ہمارے معاشرے میں جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنا ایک دائمی سچ لئے اس لئے گھوم رہا ہے کہ اسے کم از کم وہی پڑھایا گیا تھا جو وہ جانتا ہے اور دوسرے نکتہ نظر کو یا تو غدار، واجب القتل بتایا گیا تھا یا پھر دوسری طرف والوں کو بتایا گیا تھا کہ دوسرے جنگلی ہیں جاہل ہیں وغیرہ۔

دنیا بھر کی ریاستیں اپنی ضروریات کے مطابق جھوٹ بولتی ہیں دوسروں سے بھی اور خود اپنے بچوں سے بھی، مثلاً انگریز اپنے نصاب میں اپنی نسلوں کو بتاتے ہیں کہ جب وہ محض کاروباری نکتہ نظر سے دنیا میں نکلے تو افریقہ اور ایشیاء میں خونخوار بادشاہتیں قائم تھیں اور مقامی لوگوں نے ان سے فریاد کی تھی کہ وہ انہیں ظالم بادشاہوں کے ظلم سے نجات دلائیں اور عدل وانصاف کا نظام قائم کریں لہذا ہم نے انسانوں کا درد محسوس کرتے انہیں غلامی کی لعنت سے آزادی دلوائی۔ انہیں جدید دور کا شہری بنایا وغیرہ۔ مگر وہ اس ایک نصاب پر قائم ہیں۔

جس نے آگے جا کر تحقیق کرنی ہو تو تمام سچ مل جائے گا مگر اس کو جو اس پر تحقیق کرے۔ حقیقت میں کتنے لوگ ہیں جو اس سنجیدہ کام کے لئے وقت اور وسائل لائیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ششی تھروڑ کی برطانوی راج کے مظالم پر لکھی تحقیقی کتاب اور اس کے انکشافات نے خود برطانیہ کے تعلیمی اور سماجی حلقوں میں زلزلہ برپا کر دیا کہ ان کے بزرگ اصل میں کیا تھے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خارجہ پالیسیوں کی ضرورت کے مطابق داخلہ کو ترتیب دیتے ہیں، عام طور پر یہ کام الٹی ترتیب سے ہوتا ہے۔ ہمہ وقت تبدیلی کی زد میں آئی اس دنیا میں خارجہ پالیسی ایک جیسی رہے یہ ممکن نہیں اور اس کو رہنما قرار دے کر داخلی پالیسی کو مرتب کرنے کا انجام سامنے ہے۔

میں ان افراد کی گنتی نہی کر سکتا جو انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہیں، کامیاب اور ناکام ہوتے ہیں اپنی پارٹی کے لئے دن کا سکون رات کا چین برباد کیے رکھتے ہیں، گاڑیوں کا نقصان، پیسے کا نقصان کرتے ہیں مگر دل کی گہرائیوں سے جمہوریت کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں۔ بھارت کو ازلی دشمن جانتے ہیں، ہندو مذہب کو گالی دینا، عین اسلامی فرض سمجھتے ہیں۔ یہ سب اتفاق تو نہیں ہے۔ اسلامی دنیا میں بھانت بھانت کے کئی جہادی فلسفے موجود ہیں، عرب پس منظر میں جہاد کا مفہوم وہ ہر گز نہیں جو پاکستانی پس منظر میں جہاد کا مطلب ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2