عورتوں کی جنت میں بے چارہ مرد


عورتوں نے بھی مردوں کی طرح ایک بار ہی یہاں اس دنیا میں جینا ہے۔ اس لیے ان کو ان کی مرضی سے جینے کا حق ہے۔ دیدو حق جینے دو۔ بلغراد، پرانے یوگوسلاویہ میں صبح کے وقت میں لوکل بس میں بیٹھا ریلوے اسٹیشن جارہا تھا۔ ں بس کی سیٹیں زیادہ کھلی نہیں تھی۔ میرے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اخبار پھیلا کر پڑھ رہا تھا۔ میں آدھا اخبار کے نیچے چھپا ہوا تھا کبھی کبھی سر نکال کر سامنے کے شیشے سے باہر دیکھتا رہتا۔ کہ کہیں اپنے سٹاپ سے آگے نہ نکل جاؤں۔

اتنے میں کوئی تیس سال کی عمر کی ایک عورت جو بہت واضح طور پر پیٹ سے تھی۔ بس پر چڑھی۔ ایک بازو میں درمیانی سائز کا بیگ لٹکایا ہوا تھا۔ دوسرے سے میرے سامنے والی سیٹ کا بیک سپورٹ پکڑ لیا۔ کیونکہ بس میں کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ بس کے معمولی جھٹکے سے بھی پیٹ میں موجود بچے کی بوجھ سے وہ اگے کو جھک جاتی۔ کبھی ایک اور کبھی دوسری ٹانگ پر مسلسل اپنا وزن منتقل کرتی رہی۔ تھوڑی دیر تک میں بھی دوسروں کی طرح انجان بنا اپنی جگہ بیٹھا رہا۔

لیکن اس کی حالت اور تکلیف کی وجہ سے اٹھ کر اپنی سیٹ اسے دیدی۔ اخبار دیکھنے والے مرد نے پہلے عورت کو اور پھر مجھے غصے میں دیکھا۔ اخبار لپیٹا، اور مشکل سے مصیبت زدہ عورت کو بیٹھنے کی جگہ دی۔ شکریہ کہہ کر وہ بیٹھ گئی۔ میں کوئی دس منٹ تک کھڑا رہا۔ وہ اگلی سٹاپ پر اتر گئی۔ میں واپس اپنی خالی سیٹ پر بیٹھنے لگا تو اخبار پڑھنے والی سواری نے اخبار لپیٹ کر باقاعدہ مجھ سے اپنی زبان میں لڑائی شروع کی۔ اس کی باتیں زیادہ تر مجھے سمجھ نہیں آئی۔ لیکن سب سواریاں میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ اور خاموشی سے اخبار والے بوڑھے شخص کی طرف دار لگ رہی تھیں۔

میں اگلی سٹاپ پر جو کہ ریلوے اسٹیشن تھا، اترا۔ تو بس سے میرے پیچھے بہت ساری سواریوں کے ساتھ کالج جانے والی ایک لڑکی بھی اتری۔ شرمندہ سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے مجھ سے میرے ملک کے بارے میں پوچھا۔ میں نے بتایا۔ تو اس نے سمجھایا۔ کہ ان کے ہاں عورتیں مردوں کے برابری کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس لیے یہاں مردوں کی اکثریت عورتوں کو کوئی خصوصی اور امتیازی سلوک سے نہیں نوازتی۔ جو آپ نے کیا۔ وہ اس عورت کی مدد نہیں برابری کے خلاف امتیازی سلوک ہے۔ اس لیے وہ بوڑھا آپ سے لڑپڑا۔ اور کسی سواری نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔

مجھے یوں لگا۔ حق کے نام پر مغرب کی عورت کے ساتھ مردوں نے دھوکا کیا ہوا ہے۔ اپنا بوجھ کم کیا ہے۔ عورت کو حق تو کیا ملتا اپنی ذمہ داریاں ضرور ملی ہیں۔ کیونکہ عورت لاکھ کہے میرا جسم میری مرضی۔ لیکن مرد سے ملنے کے بعد اس کا جسم صرف اس کا نہیں رہتا۔ اس میں انے والی تبدیلیاں اور بوجھ، عورت ایک ٹانگ سے دوسرے ٹانگ پر تبدیل کرتے کرتے اکیلے نہیں سنبھال سکتی۔ کوئی مرد چاہیے۔ جو اسے بیٹھنے کے لئے اپنی نشست چھوڑ دے۔

کیونکہ مرد اور عورت کے جسموں میں فرق قدرت نے رکھا ہے۔ مرد پیٹ سے نہیں ہوسکتا، عورت ہی پیٹ سے ہوگی۔ وہی ماں بنے گی۔ وہ کسی فریگننٹ مرد کے لئے جگہ نہیں چھوڑنے اٹھے گی۔ مرد کو ہی اٹھنا ہوگا۔ مرد عورت ایک دوسرے کے مقابلے پر نہیں تکمیل کے لئے ہے۔ انسان کے علاوہ کوئی جانور اپنی مادہ کا خیال نہیں رکھتا۔ اور حقوق کی جنگ میں (جو کہ حقیقت میں جدوجہد ہے ) عورت کو جو تھوڑا بہت حاصل ہے۔ دھوکے میں اکر اس سے بھی ہاتھ نہ دھونے پڑے۔ کیا آپ جانتی ہیں۔ برابری کی جدوجہد نے مغرب کی عورت کو اتنا بے کشش اور بے مایہ بنایا ہے۔ کہ وہ اسی متقابل مرد کو دوبارہ اپنی طرف متوجہ کرنے کی چکر میں اپنے لباس سے فارغ ہوگئی ہے؟ اس کا شوہر یا زندگی کا ساتھی، اسے کہتا ہے پیزہ کھاوگی؟ وہ ہاں کرتی ہے۔ تو اس سے پیزے کے آدھے پیسے مانگتا ہے۔

میرے جسم، میری ماہواری، ٹھنڈے کھانے اور گرم بستر کی واہیات پوسٹروں اور یک روزہ تماشے کی بجائے، وراثت میں اپنا حق، شادی کے لئے اپنا اختیار، غیرت کے نام پر عورت کا قتل، عورت کو جنس بازاری بنانے، ملائیت اور پسماندہ مردانہ ذہنیت، کارخانوں دفتروں اور کام کی جگہ پر عورت کے ساتھ جنسی ہراسانی کے سلوک جیسے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے مستقل بنیادوں پر مسلسل جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔ مرد اپکا بھائی باپ بیٹا اور شوہر ہے ساتھ دیگا۔ مریخ سے اترا ہوا ایلئین نہیں۔ شاید آپ جانتی نہیں کی ان میں کئی حقوق تو اکثر مردوں کو بھی ہمارے ہاں حاصل نہیں۔ پھر مرد آپ کی گود میں پلتا ہے۔ آپ اس سے خصوصی سلوک کرکے خصوصی بناتی ہو۔

ایک امیریکن بوڑھی پینٹر عورت نیٹ پر میری دوست بنی تھی۔ کینسر کی مرض سے صحت یاب ہوئی تھی۔ آب و ہوا بدلنے کے لئے نیپال آنا چاہتی تھی۔ ایک دن مجھے کہا مجھے بہت ساری پینٹنگ کرنی ہے لیکن مجبوراً کام کرنا پڑتا ہے۔ علاج کے لئے لیا بنک قرضہ بھی چکانا ہے۔ لیکن میرے پاس کوئی راستہ نہیں کہ میں کام نہ کروں اور صرف پینٹنگ کروں۔ میں نے اس سے مذاق میں کہا مجھ سے شادی کرلو۔ اور باقی زندگی آرام سے پینٹنگ کرو۔ اس نے جواب دیا۔

شادی تو میں یہاں بھی کرسکتی ہوں لیکن کام تو پھر بھی کرنا پڑے گا۔ میں نے اسے کہا مجھ سے شادی کروگی تو کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا۔ اس نے پوچھا کیا تم بہت زیادہ امیر ہو؟ میں نے جواب دیا۔ نہیں عام سا پاکستانی ہوں۔ اس نے پوچھا۔ پھر کام نہ کرکے میں زندہ کیسی رہونگی۔ میں نے بتایا کہ ہمارے ہاں عورتوں کی اکثریت کام کی غرض سے گھر سے باہر نہیں نکلتیں۔ شوہر کام کرتے ہیں۔ اس نے کہا واہ۔ یہ تو عورتوں کی جنت ہے۔ اور مردوں کے لئے جہنم، میں نے لقمہ دیا۔ اس نے کہا بے چارے مرد۔

عورتوں کے لئے کم از کم سال میں ایک دن تو ہے منانے کے لئے۔ مردوں کے لئے زندگی بھر کوئی دن نہیں۔ جوانی میں، میں نے اپنے باپ کے یتیم بچے پالے۔ جن میں اب مجھے کوئی نہیں جانتا۔ اور مرتے دم تک اپنے پال رہا ہوں۔ جوانی کہاں چلی گئی، زندگی کہاں پیچھے رہ گئی یا میں پیچھے رہ گیا کوئی پتہ نہیں۔ کب کا مرگیا ہوں کوئی نہیں جانتا۔ بے چارہ مرد

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani