عورت رے عورت!


عورت کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ برتا گیا ہے۔ مذہبی لوگ ہوں، لبرل یا کوئی تیسرا طبقہ جو کسی حد تک مذہبی اور تھوڑا بہت لبرل ہو ہر کسی نے ممکنہ حد تک عورت کا استحصال کیا اور مضحکہ خیز بات یہ کہ ہر طبقے نے اپنے علاوہ باقی سب پر یہ الزام دھرا کہ وہ عورت کے حقوق کے پاسدار نہیں۔ مذہبی مذہب کے نام پر بے جا پابندیاں لگا کر اور کالے کفن میں لپیٹ کر عورت کا استحصال کرتا رہا اور لبرل آزادی کے نام پر کھلے بندوں اسے سڑکوں پر آنے کے لیے اکسا کر یہی سب کر رہا ہے۔

عورت کو روایات سے بغاوت کے نام پر انتشار اور بدنظمی پھیلانے کے ٹول کے طور پر کام میں لایا جاتا رہا۔ مذہبی اور لبرل دونوں ہی طبقے خصوصاً عورت کے معاملے میں دو انتہاؤں پر کھڑے ایک دوسرے کو کھائی میں دھکیلنے کے خواہاں ہیں۔ اعتدال کا راستہ کسی نے نہیں اپنایا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عورت نے خود اپنے آپ کو ہمیشہ آسان ہدف بنائے رکھا۔ اس نے اپنے حقوق کو سمجھا نہ انہیں حاصل کرنے کے طریق پر توجہ دی۔

کل دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ ہر جگہ اس دن کی مناسبت سے طرح طرح کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا، بہت سارے مقاصد و مطالبات اور منشور لے کر مارچ بھی کیے گئے۔ حقوقِ نسواں کے حق میں تقریریں ہوئیں، اجلاس اور سیمینار منعقد کیے گئے۔ اسی سلسلے میں لاہور میں بھی خواتین کے ایک مارچ کا بہت چرچا سننے میں آیا۔ مارچ میں شمولیت کے لیے دعوت بھی موصول ہوئی۔ اس مارچ کی تفصیلی رپورٹنگ جو الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا پر سامنے آئی اس پہ شدت سے جی چاہا کہ یقین کر لیا جائے ہمارے ملک میں واقعی تبدیلی آ چکی ہے۔

تبدیلی کی شروعات تو تبھی ہو گئی تھی جب اس صحیح معنوں میں شوباز مقتدر پارٹی نے سیاسی جلسوں کا چہرہ مسخ کر کے انہیں ایک نہائت عامیانہ اسٹیج ڈرامے کی شکل دے ڈالی اور کل مارچ کے نام پر خواتین سے سڑکوں پر جو عجیب و غریب تماشا لگوایا گیا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ جیسے ان جلسوں کو دیکھتے ہی پہلا خیال یہ آتا تھا اور اس حوالے سے حقائق بھی سامنے آئے کہ یہ پارٹی کارکنوں کے بھیس میں دیہاڑی دار مزدور ہیں، کل کے مارچ سے یہ خیال مزید پختہ ہو گیا۔

لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ اس مارچ میں حکومت براہ راست ملوث نہ تھی اور نہ ہی اس بدامنی کی بیہودہ کوشش کے پیچھے حکومت کے پوشیدہ مقاصد کارفرما تھے بلکہ یہ کسی خاص گروہ یا این جی اوز وغیرہ کی کارستانی تھی جنہوں نے کسی خاص مقصد کے تحت یہ سب کیا تو بھی خواتین کے ہاتھوں میں وہ ناشائستہ جملوں سے بھرے پلے کارڈز دیکھتے ہوئے مارچ کو نہ روکنا کیا انتظامیہ کی کوتاہی نہیں ہے؟ ہمارے ہاں خواتین کو عموماً یہ شکایت رہتی ہے کہ انھیں ان کا اصل مقام نہیں دیا جاتا۔

انہیں وہ سہولیات وہ مراعات نہیں حاصل نہیں جن کا وہ حق رکھتی ہیں۔ انھیں مردوں کی برابری کا اور ان کے شانہ بشانہ چلنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ انہیں وہ عزت و تکریم حاصل نہیں جو ان کا حق بنتی ہے۔ انہیں یہ شکایت ہے کہ وہ اس ماحول میں کھلے عام کہیں گھوم پھر نہیں سکتیں، اکیلے کہیں آنا جانا ان کے لیے کارِ دشوار ہے۔ انہیں راستے میں، دفاتر میں، کارخانوں میں یہاں تک کہ گھر میں بھی ہر طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے جس میں خصوصاً جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی شکایت سر فہرست ہے۔

تو ٹھیک ہے فی زمانہ حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج ریکارڈ کروائے جاتے ہیں، مارچ کیے جاتے ہیں جن میں پلے کارڈز وغیرہ کے ذریعے یہ واضح کیا جاتا ہے کہ ان کے کیا کیا حقوق ہیں جو ان کو نہیں دیے جا رہے۔ جنہیں حاصل کرنے کے لئے وہ یوں راستے پر آ کر احتجاج کرنے کے لئے یا مارچ کرنے کے لئے مجبور ہوئے۔ حقوقِ نسواں ایک انتہائی سنجیدہ موضوع ہے جس پر سنجیدگی سے بات کر کے ہی مسائل کو کم کیا جا سکتا ہے۔

لیکن ہمارے تبدیل شدہ پاکستان میں عالمی یوم خواتین کے موقع پر جو مارچ ہوا اس کے مقاصد کیا تھے اور ان میں خواتین کے کیا مطالبات تھے جو وہ حکومت سے یا دیگر اداروں سے یا پھر معاشرے سے منوانا چاہتی تھیں یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ بہت غور کرنے پر بھی اس تماشے کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ لوگوں کو چند دن کے لیے گفتگو کا ایک گرما گرم موضوع مل جائے اور اس مقصد میں کافی حد تک کامیابی بھی ہوئی، اس کے علاوہ کچھ مقاصد تھے تو وہ اب تک سامنے نہیں آئے۔

ہمیں درحقیقت جس چیز کو سمجھنے اور قبول کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ خرابی ہمارے اپنے ہی گھروں سے شروع ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو ماننا اس لیے ضروری ہے کہ مانے بغیر اصلاح کا عمل ہی آغاز نہیں ہو سکتا۔ مطلوبہ تبدیلی جس کی ہم خواہش رکھتے ہیں وہ کسی کل جیسے بے مقصد مارچ کے نتیجے میں واقع نہیں ہو گی بلکہ اس کے لیے تسلیم، صبر، حوصلے اور جرات سے کوشش شروع کرنی ہو گی۔ جب تک ہم اپنے گھروں سے ممکنہ حد تک جنسی تفریق اور امتیاز کا خاتمہ نہیں کریں گے، اور ایک خاص حد تک اس فطری تفریق کو تسلیم نہیں کریں گے تب تک بہتری کی امید رکھنا نادانی ہے۔

ہاں البتہ مذکورہ بالا صورتحال وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہنے کا قوی امکان ہے۔ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا شعور اجاگر کرنا ہو گا اور جذباتی طور پر خود کو مستحکم کرنا ہو گا۔ تاکہ جب ہم اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کھڑے ہوں تو ہمیں پتہ ہو کہ ہمارا حق ہے کیا؟ ہم جو مطالبہ کرنے جا رہے ہیں وہ کس قابلیت یا اہلیت کی بنیاد پر کر رہے ہیں؟ کیا ہم اس کے اہل ہیں جو چاہ رہے ہیں؟ فقط خواہش اور ضد کے تحت غیر دانشمندانہ طریق اختیار کر کے ہم کسی بھی پیمانے پہ اپنے مطالبات نہیں منوا سکتے۔

اور ہم حکومت کو، پچھلی نسلوں کو یا خود اپنے ہی اسلاف کی سوچ اور تربیت کو ایک حد سے زیادہ موردِ الزام ٹھہرا کر خود بری الزمہ بھی نہیں ہو سکتے۔ ایک وقت آتا ہے کہ ہم خود اتنے باشعور ہو چکے ہوتے ہیں کہ غلط اور صحیح میں فرق کر سکیں اور چاہیں تو تھوڑی سی کوشش اور توجہ سے غلط کو ترک کر کے صحیح کو اختیار کر سکیں لیکن یہاں عمل درکار ہو گا۔ صرف جذباتی ردِعمل سے شاید ہمیں وقتی توجہ تو حاصل ہو جائے اور دو چار دن کے لیے گفتگو کا موضوع بن کر تھوڑا سا ذہنی سکون حاصل کر لیں لیکن اگر دیر پا سکوں اور آسودگی درکار ہے تو ہمیں الزام در الزام اور بے مہار احتجاج سے اوپر اٹھ کر سوچنا اور عمل کرنا ہو گا۔

ہمیں اپنے ساتھ ساتھ اپنی آنے والی نسلوں کا بھی سوچنا ہو گا کہ انہیں ہم سے جو ورثہ منتقل ہونا ہے اگر یہ ورثہ صرف وہی ہوا جو نسل در نسل سفر کر کے ہم تک پہنچا ہے تو بات نہیں بنے گی۔ ہمیں اس ورثے کا جائزہ لینا ہو گا۔ مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں سے اس کا موازنہ کرنا ہو گا۔ پھر اپنے ذہنوں کو تعصبات سے پاک کر کے اس ورثے کی تشکیلِ نو کرنی ہو گی۔ صرف ایک دن مزیدار جملوں بھرے پلے کارڈز سے سجا میلہ فقط ایک کمینی سی وقتی لذت کے سوا کچھ نہ دے پائے گا۔ ان پلے کارڈز پہ لکھے جملے آپ کو جہاں سے سننے کو ملتے ہیں اور آپ کی قابلیتیں جہاں تسلیم نہیں کی جاتی درستی کا عمل وہیں سے شروع کرنا ہو گا اور وہ آپ کے اور ہمارے گھر ہیں، سڑکیں نہیں۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).