طوفان میل کیپسول شادی شدہ حضرات کے لیے


”ڈک پک اپنے پاس رکھو“۔ اس میں تو کوئی بے حیائی کی بات نہیں ہے۔ غیرت برگیڈ کو تب برا لگنا چاہیے تھا کہ لڑکی کہے کہ ”اپنی ڈک پک بھیجو“۔ انہوں نے تو منع ہی کیا ہے۔ اس بات پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ”ڈک پک“ کو دیکھنے سے انکار تو حیا دار خواتین کا کام ہے۔ آپ اس انکار سے برا نہ منائیں اور بالکل پہلے کی طرح کوشش کرتے رہیں ہو سکتا ہے کوئی کہہ دے کہ بھیجو تو آپ ضرور بھیج دیں۔

”اکیلی، آوارہ، آزاد“ اور بد چلن۔ یہ ”اکیلا، آوارہ اور آزاد“ تو ایک لائف سٹائل ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ہمارے مرد دوستوں میں اگر کسی کو یہ عیاشی نصیب ہو کہ وہ معاشی اور سماجی پریشانیوں سے آزاد ہو، اکیلا ہو، اور آوارگی افورڈ کرتا ہو اور گھوم پھر کر زندگی کو انجوائے کرتا ہو تو سب لوگ اس پر رشک کرتے ہیں۔ ہمارے مرد دوستوں میں جو بھی ایسا کر پائے اسے لوگ آزاد منش ہی کہتے ہیں۔ قریبی دوست اور بعض اوقات وہ خود بھی اپنے آپ کو آوارہ کہہ لیتا ہے۔

بد چلن اسے کوئی نہیں کہتا۔ اگر وہ ”بد چلن“ ہونے کا خود اقرار بھی کرے تو اس کے دوست اس کی بد چلنی کی کہانیاں مزے لے کر سنتے ہیں اور اس پر کوئی کلنک کا ٹیکا نہیں لگتا۔ عورت کے لیے تو آزاد، اکیلی، آوارہ اور بد چلن چاروں لفظوں کا ایک ہی مطلب ہے، بد چلن۔ آزاد زندگی گزارنے اور دنیا گھومنے کی آپشن عورت کے پاس تو ہے ہی نہیں۔ وہ اگر دنیا گھو منا چاہتی ہے کیونکہ دنیا گھومنے کو اس کا دل کرتا ہے تو اس کے ماتھے پر بد چلن ہونے کا ٹیکا ہی سجے گا۔ خواتین اس نفسیاتی تشدد سے جان چھڑانا چاہتی ہیں۔ اس پوسٹر میں انہوں نے اس بغاوت کا اعلان کیا ہے۔ رد عمل بتاتا ہے کہ اس نعرے میں دم تھا۔ شاباش۔

”لو بیٹھ گئی صحیح سے“ یہ تو بیٹھنے کا ایک سٹائل ہے۔ ہر شخص کو اپنی مرضی کے پوز میں بیٹھنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ آپ اس پوز میں اگر کچھ خاص دیکھ رہے ہیں تو اس کا علاج آپ خود اپنے اندر سے ہی کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کا اپنا تخیل ہے۔ غیرت برگیڈ کی ایک برگزیدہ ہستی پہلے بھی لڑکی کو کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھ کر اپنے تخیل کے گھوڑے کو بے قابو ہونے سے نہیں بچا سکی تھی۔ بڑا واویلا مچایا تھا ٹی وی پر ایک لڑکی کو بالنگ کرتے دیکھا تھا انہوں نے۔

”مائی پیریڈ از ناٹ اے لگژری“ یہ ایک بہت پرانا نعرہ ہے۔ یو کے میں ایک مہم چل رہی تھی (یا شاید ابھی ہے) کہ سینٹری پیڈز پر ٹیکس ختم کیا جائے کیونکہ یہ عورتوں کی ایک قدرتی ضرورت ہے کوئی لگژری نہیں۔ اس میں چھپا ڈھکا کچھ بھی نہیں۔ پیریڈز کے متعلق کھلے عام بات نہ کر سکنے کا عورتوں کو نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے متعلق بیماریوں کو بھی چھپاتی رہتی ہیں اور احتیاط یا علاج کا فائدہ حاصل نہیں کر پاتیں۔

ایک اور پوسٹر میں عورت کے اندرونی تولیدی نظام کا ایک خام (رف) سا خاکہ دکھایا گیا ہے۔ جسم کا کوئی ظاہری حصہ اس خاکے میں نظر نہیں آ رہا۔ آپ میری نالائقی سمجھیں یا جنسی کم زوری کہ میں اس پوسٹر میں کوئی بے حیائی نہیں ڈھونڈ سکا۔

ہمارے معاشرے میں کچھ اور نعرے بھی بہت مشہور ہیں بلکہ زبان زد عام ہیں۔ اور سڑکوں پر جگہ جگہ لکھے ہوتے ہیں۔ ان نعروں پر کوئی اعتراض تو دور کی بات ہم سارے مزے لے لے کر انہیں دہراتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کی بھی کوششیں کرتے ہیں۔ ہماری کوششوں کا ہمیں کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو حکیموں کو معاشی فائدہ ضرور ہو جاتا ہے۔

”مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھا نہیں ہوتا“ اب گھوڑے اور مرد میں یہ مماثلت یقینا وزن اٹھانے اور ٹانگا کھینچنے کے لیے ہی ہے۔ یہ کوئی گندی اور بے حیائی کی بات ہوتی تو سارے ملک کی دیواروں پر بڑے حروف میں نہ لکھی ہوتی۔ اس سے مراد جنسی طاقت اور اس کا استعمال ہوتا تو ہمارا معاشرہ اس پر ضرور کوئی رد عمل ظاہر کرتا۔

”طوفان میل کیپسول: صرف شادی شدہ حضرات کے لیے“ اس کیپسول کی وال چاکنگ خاص طور پر کشمیر اور بالاکوٹ کے اس علاقے میں بہت نظر آتی تھی جو عورتوں کی بے پردگی کی وجہ سے آنے والے زلزلے کے کارن تباہ ہو چکا تھا۔ یہی اشتہارات اگر فیملی پلاننگ کے طریقہ کار کے دیے جائیں تو فوراً بے حیائی پھیلنی شروع ہو جاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فیملی پلاننگ کے طریقوں میں عورتوں کے لیے ایک سہولت چھپی ہے جب کہ ”طوفان میل کیپسول“ میں مردوں کے لیے جنسی میراتھن پوری کرنے کا خواب عیاں ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik