انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اخبارات کا پہلا صفحہ خالی چھپا


انڈیا کے اخبارات میں جہاں خبریں اشتہارات میں گم ہیں وہیں اس کے زیرِ انتظام کشمیر سے نکلنے والے کئی اخبارات نے اتوار کو اپنا پہلا صفحہ سادہ شائع کیا ہے۔

احتجاج کا یہ اظہار ایک درجن سے زائد اخبارات نے ایک حکومتی فیصلے کے خلاف اپنایا جس کے تحت کشمیر کے دو اہم اخبارات ‘گریٹر کشمیر’ اور ‘کشمیر ریڈر’ کو اشتہارات نہ دیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

سری نگر سے ہمارے نمائندے ریاض مسرور نے بتایا کہ کشمیر ایڈیٹر گلڈز نے کشمیر کے پریس کلب کے سامنے مظاہرہ بھی کیا اور پریس کونسل آف انڈیا اور ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

انڈیا کے ’دی ہندو‘ اخبار کو کشمیر ایڈیٹرز گلڈ کے رکن اور ’کشمیر مرر‘ کے مدیر بشیر منظر نے بتایا کہ ‘ہم نے دو بہت زیادہ پڑھے جانے والے اخبارات کو اشتہار بند کرنے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ اشتہارات بند کرنے کی وجوہات جاننے کی ہم نے بہت کوششیں کیں لیکن ابھی تک حکومت نے ہمیں جواب فراہم نہیں کیا ہے۔ اس لیے ہمیں احتجاج کے طور پر مجبوراً پہلا صفحہ خالی شائع کرنا پڑا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

سرینگر میں اخبار کی بندش، صحافیوں کا احتجاج

شجاعت بخاری: ’کشمیر کی کہانی کو بیان کرنے میں ماہر‘

اتوار کو ایک درجن سے زائد اخبارات کے پہلے صفحے پر صرف دو یا تین سطر کا احتجاجی جملہ شائع ہوا تھا جس میں لکھا تھا ‘دو انگریزی روزنامے گریٹر کشمیر اور کشمیر ریڈر کو بلاوجہ سرکاری اشتہارات روکنے کے خلاف احتجاج۔’

حکومت کے خلاف احتجاج کا یہ طریقہ انوکھا نہیں ہے۔ اس سے قبل ایک معروف ٹی وی چینل نے احتجاج کرتے ہوئے بغیر کسی تصویر کے تاریکی میں صرف آواز کے سہارے پورے ایک گھنٹے کا پروگرام پیش کیا تھا۔

کشمیر کی اہم پارٹیوں نے اشتہار نہ دینے کے حکومتی فیصلے پر مرکزی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے ٹویٹ کیا ‘وادی (کشمیر) کے ایک واقعے کو باہر کوئی کوریج نہیں ملی۔ حکومت وادی کے اخباروں کو اشتہارات نہ دے کر میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مرکز اور ریاست جلد ہی ریاست کے چوتھے ستون کو خاموش کرنے کے اپنے فیصلے کو واپس لیں گے۔’

جبکہ پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کہا کہ ‘گریٹر کشمیر جموں کشمیر کے مقبول ترین اخباروں میں شامل ہے۔ ان کو اشتہار نہ دینے کے فیصلے کو پریس اور الیٹرانک میڈیا کے متعلق ان کے رویے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ یا تو ان کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ان کی تعریف کریں یا پھر اس کا خمیازہ بھگتیں۔’

https://twitter.com/ImranNDar/status/1104764652322340864

ایک صارف عمران نبی ڈار کے ایک ٹویٹ کو عمر عبداللہ نے دوبارہ ٹویٹ کیا جس میں لکھا تھا کہ ‘کشمیر کے اخباروں کو اشتہار دینا بند کرنا، مذہبی رہنماؤں کو دہلی بلانا، اسمبلی انتخابات کو روکے رکھنا، عوام کی حقیقی خواہشات کا منھ بند کرنا، کیا انھیں اقدامات سے حکومت ہند کشمیر میں امن اور معمول کے حالات بحال کرنا چاہتی ہے؟’

ایسے وقت میں جب انڈیا اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اخباروں کو اشتہارات بند کرنا معنی خیز ہے۔

https://twitter.com/ashutosh83B/status/1104234965892399105

اس سے قبل انڈیا کے معروف صحافی اور عام آدمی پارٹی کے سابق رکن آسوتوش نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر ایک پیغام میں کہا کہ ‘سخت مقابلہ ہے مودی اور کیجریوال میں۔ انتخابات سے قبل عوام کے خزانے کا کتنا بے جا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کیجری وال کے پانچ مکمل صفحہ اشتہارات تو مودی جی کے مجموعی طور پر آٹھ اور نو۔ انتخابات کا اعلان ہونا ہے اس لیے کل یہ مقابلہ مزید سخت ہوگا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32804 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp