جنگ، پروپیگنڈا اور اخلاقی جیت


دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں ان میں کسی کو ہار تو کسی کو جیت ملی ہے۔ لیکن جنگ نے آج تک سوائے ایک فرد کے کسی کو بھی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں ایک بادشاہ، ظالم یا طاقت کے نشے میں چور لوگوں نے اپنے مفاد اور طاقت کامظاہرہ کرنے کے لئے جنگیں لڑی ہیں۔ تاہم ان جنگوں میں ہزاروں ایسے لوگوں کی جانیں بھی گئی ہیں جو اپنے مالک اور آقا کے حکم کے سامنے بے بس تھے۔

ان مجبور لوگوں کو اپنے مالک اور آقا کے حکم کا بحالتِ مجبوری پالن کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے ملک کی دفاع کے نام پر تو کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی قوم پرستی کے نام پر میدانِ جنگ میں اتر جاتے ہیں اور نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں۔ اس طرح ان کی جان جانے کے بعد یہی حکمراں اور طاقت ور انسان ان کی یاد میں ان کے مجسمے بنا کر پر پھولوں کا ہار چڑھاتے ہیں اور کبھی ان کا نام لے کر لوگوں کو ملک، مذہب، قوم کی دفاع کے لئے تیار رہنے کی نصیحت کرتے ہیں۔

یوں تو دنیا میں ہزاروں چھوٹی بڑی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ ہر جنگ میں اسی بات کا دعو یٰ کیا جاتا رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں لاکھوں لوگوں نے اپنے ملک کی دفاع کے لئے جانیں قربان کی تھیں۔ شاید ہٹلر کی جارحانہ رویے اور ایک خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنانا اس جنگ کی ایک اہم وجہ تھی۔ لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد ان ممالک نے نے آج تک جنگ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہو اہے۔ حالانکہ ہٹلر کا تعلق جرمنی سے تھا لیکن ہٹلر کے خاتمے کے بعد جرمنی نہ ہی تو ہٹلر کے متعلق کوئی فخریہ بات کرتا ہے اور نہ ہٹلر کی کوئی یادگار دیکھنے کو ملتی ہے۔

برطانیہ ایک ایسا ملک تھا جو دوسری جنگِ عظیم میں کافی تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ زیادہ تر مرد ملکی دفاع کے لئے لڑنے کے لئے چلے گئے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برطانیہ میں ایک خوف و ہراس کا ماحول بن گیا تھا۔ برطانیہ ہٹلر کی پیش رفت سے کافی فکر مند تھا اور وہ ہٹلر کی جارحانہ قدم کو کسی بھی قیمت پر روکنا چاہتا تھا۔ برطانیہ نے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ہٹلر کو شکست دینے میں کامیابی تو حاصل کر لی لیکن آج بھی لوگ جنگ کے نام سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ آج بھی برطانیہ کے لوگ کسی اور جنگ میں کودنے یا جنگ کی حمایت میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ بلکہ زیادہ تر لوگ سڑکوں پر نکل کر کسی بھی جنگ کی سخت مخالفت کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔

پچھلے چند دنوں میں مجھ سے مسلسل ایک سوال پوچھا جارہا ہے کہ آخر ہندوستان اور پاکستان کیوں جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ میرا جواب صاف صاف یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے قائم ہونے کی وجہ تاقیامت تک آپس میں جنگ لڑناہے۔ مجھ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اس کا حل کیا ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ اس کا حل صرف ’قیامت‘ ہے۔ اگر انگریز اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن جلد بازی میں تقسیمِ ہند کا فیصلہ کرنے کی بجائے ایک لائحہ عمل کے طور پر اس کام کوسر انجام دیتے تو شاید آج ہندوستان اور پاکستان ایک خوش حال اور امن و سلامتی والے ملک ہوتے۔

تاریخ کے پنوں کو جب پلٹا جاتا ہے تو پتہ یہ چلتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین پہلی جنگ، تقسیمِ ہندکے صرف دو مہینے بعد اکتوبر 1947 میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد جہاں تک مجھے یاد ہے دونوں ممالک ہر سال نہیں تو چندسال بعد ایک دوسرے سے ضرور ٹکرا تے ہیں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے شاید ہی کوئی سال ایسا ہوگا جس میں ہندوستان اور پاکستان کے بیچ تناؤ نہیں پایا گیا ہو۔ آئے دن دونوں ممالک ایک دوسرے پر کسی نہ کسی بہانے الزام لگا کر معصوم عوام کے جذبات کو بھڑکا کر اپنی سیاست کی دکان کو چمکا تے ہیں۔

اسی طرح کا ایک واقعہ اس بارکشمیر کے پلوامہ شہر میں ہوا جب ایک سر پھرے خود کش حملہ آور نے درجنوں ہندوستانی فوجیوں کی جان لے لی۔ پھر کیا تھا سوشل میڈیا پر دونوں ممالک کے عوام آمنے سامنے آ گئے۔ ہندوستانی عوام کا ایک ہی مانگ تھا کہ پاکستان پر حملہ کرو۔ تو وہیں پاکستانی عوام بھی اپنے انداز میں جارحانہ جواب دے رہے تھے۔ گویا کچھ دنوں کے لئے ایسا معلوم پڑ رہا تھا کہ سوشل میڈیا میدانِ جنگ بن چکا ہے اور ہندوستان اور پاکستان میں جنگ لازمی ہے۔

ہم نے کچھ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی تو ہماری بات ان کے جارحانہ دماغ میں داخل ہونا تو درکنار بلکہ ہم اس معاملے میں بالکل بے بس ہو کر رہ گئے۔ ہم اتنے خوف زدہ ہو گئے کہ ہماری زبان ہی گنگ ہوگئی۔ کیا سیاست داں، کیا صحافی، کیا تعلیم یافتہ، کیا نوجوان، کیا مذہبی رہنما گویا تمام کے تمام بس اپنے آستین کو موڑ کر ایک ہی ضد پر اڑے تھے اور کہہ رہے تھیں کہ فوج تم لڑو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

ابھی سوشل میڈیا پر رنج و غم کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ہندوستانی اور پاکستانی نیوز چینل والوں نے بھی اپنے فرض کو طاق پر رکھ کر کبھی حکومت تو کبھی عوام کو اسی بات کے لئے ورغلا رنہ شروع کیاکہ اب پانی سر سے اوپر ہوچکا ہے اور اس کا حل صرف جنگ ہے۔ نتیجہ وہی نکلا اور ہندوستانی وزیر اعظم نے موقع کو غنیمت دیکھتے ہوئے پاکستان کے بالاکوٹ کے علاقے میں حملہ کر دیا۔ پھر کیا تھا پوری دنیا کی نگاہ ہندوستان اور پاکستان پر ٹکی ہوئی تھی کہ اب کیا ہوگا۔

ہندوستانی وزیر اعظم اپنے سینے کو پھلا کر ہندوستانی عوام کو اس بات کا دلاسہ دے رہے تھے کہ انہوں نے پاکستان کے بالاکوٹ میں دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیا ہے اور پاکستان کو سبق بھی سکھا دیا ہے۔ تاہم ہندوستانی وزیراعظم اس بات کو بھول گئے کہ انہوں نے پاکستان میں حملہ کرکے عالمی برادری کو سکتے میں ڈال دیا تھا۔ اب تو ہندوستانی وزیراعظم مودی کی دشواریاں بڑھ رہی ہیں کہ بالاکوٹ حملے اور جان و مال کے نقصان کا ثبوت کہاں ہیں۔

ابھی ہندوستانی میڈیا پر اس کارروائی کا جشن منایا جا رہا تھا اور سوشل میڈیا پر بھی ہندوستانی عوام کی خوشی اور طرح طرح کے مزاحیہ اور بھڑکاؤ پوسٹ سے دنیا کے لوگ حیران تھے تو اسی وقت پاکستان نے ایک ہندوستانی لڑاکا جہاز کو مار گرا کراس کے پائیلٹ کوگرفتار کر کے سبھوں کو سکتے میں ڈال دیا۔ اب معاملہ اور پیچیدہ ہو چکا تھا اور سوشل میڈیا اور نیوز چینل جہاں ہندوستانی حملے کا جشن منا رہا تھا، کچھ دیر کے لئے الجھن میں پھنس گیا۔ گویا اس خبر سے ہم بھی پریشان ہو گئے کہ آخر کون سچ اور کون جھوٹ بول رہا ہے۔

ہم بھی بی بی سی نیوز کے ذریعے خبروں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھے کیونکہ بی بی سی آزادنہ طور پر خبروں کی نشریات کر رہا تھا۔ جس سے ایسی باتوں کا علم ہورہا تھا جو ہندوستانی اور پاکستانی نیوز ایجنسی اپنی نا اہلی اور پرپگنڈا کی وجہ سے نہیں بتا پارہے تھے۔ لیکن ہماری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ آخر ہندوستان نے اتنی جلد بازی میں پاکستان پر حملہ کیوں کر دیا۔ بی بی سی کے مطابق بالا کوٹ میں ایسی کوئی تباہی نہیں بتائی جا رہی ہے جسے ہندوستانی نیوز ایجنسی نے بڑھا چڑھا کر دکھایا تھا۔

میں پلوامہ کے حملہ کی پر زور مذمت کرتا ہوں اور اس پورے معاملے کی جانچ کرنے کی بھی اپیل کرتا ہوں۔ لیکن ہندوستانی وزیر اعظم نے کیا سوچ کر اور کن وجوہات کی بن اپر پلوامہ حملے کے بدلے کے لئے بالا کوٹ پر حملہ کروا دیا۔ وزیر اعظم مودی کی کیا مجبوری تھی، کیوں انہوں نے اس معاملے میں عالمی برادری سے رجوع نہیں کیا۔ ایسے کئی سوال ذہن میں ابھر رہے تھے جس کا جواب لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ اب تو یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم حال ہی میں اس قدر ناکام اور پریشان رہے ہیں کہ ممکن ہے یہ سارے معاملہ ایک سوچی سمجھی سازش ہو۔

کیونکہ ہندوستان میں عام الیکشن اسی سال ہونے والے ہیں اس لئے ممکن ہے ملک کی فضا کو خراب کر کے لوگوں کا ذہن ہندوستان کے اصلی مسائل سے ہٹا کر ایک بار پھر حکومت بنانے کی تمنا میں یہ سارے کام کیے گئے ہوں۔ حال ہی میں ہندوستانی وزیر اعظم اپنے پارٹی کے ورکروں سے پاکستان حملے سے الیکشن جیتنے کی امید جتا رہے تھے۔ حد تو تب ہوگئی جب ان کی پارٹی کے ایک سنئیر لیڈر نے یہ بھی پیش گوئی کر دی کہ آنے والے الیکشن میں پارٹی کو مزید سیٹوں سے کامیابی نصیب ہوگی۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے اس اعلان سے کہ ہندوستانی پائلٹ کو معاف کردیا جائے گا اور اسے جلد رہا کر دیا جائے گا۔ دنیا بھر میں عمران خان کے اس قدم کی ستائش کی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ عمران خان کی ایک اخلاقی جیت ہے۔ وہیں میں پاکستانی وزیر اعظم سے یہ بھی امید کروں گا کہ وہ انتہا پسندی پر روک لگانے کی ہر ممکن کوشش کریں اور انتہا پسندی کا اپنے ملک سے جلد ازجلد خاتمہ کریں۔

میں ہندوستان اور پاکستان کے عوام سے ایک بار پھر اپیل کروں گا کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جنگ سے وقتی طور پر راحت ضرور ملتی ہے لیکن لمبی مدت میں اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہندوستا ن اور پاکستان دونوں اپنی انا اور نفرتوں کو بالائے طاق رکھ کر عوام کی بھلائی اور امن و سلامتی کے ساتھ دنیا کو ایک بے مثال دوست بن کررہنے کی تلقین کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).