بیٹی کا جہاں اور ہے، بہن کا جہاں اور


آج کے اس مبارک دن پہ پیش کرنے کو میرے پاس پھول نہیں ہیں کیو نکہ کوئی گما ن میرے خوابوں میں نہیں سویا کہ کوئی دن بھی ایک عام عورت کا دن ہے۔ اس لئے آج بھی چند دکھ بھری کہا نیاں ہیں۔کہ بیٹی کا جہاں اور ہے، بہن کا جہا ں اور۔

افسوس وہی بہن جو ماں جائی ہوتی ہے۔ اس کے لئے اپنے گھر کی دنیا اتنی تاریک و تنگ ہو تی ہے کہ اس کا سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ اور اس سے زیادہ افسوس، اسی خوفناک دنیا میں ہم اس تنگ و تاریک دنیا میں اس کو ایک سرسبز خواب سا باغ سجا دیتے ہیں۔ کہ کوئی شہزادہ آئے گا اور اس کی زندگی میں رنگ بھر دے گا۔ وہ رنگ جو ہم اس کو نہیں دے سکتے کہ اس کے کنوار پن کی ڈوری اس کے رنگوں کے سنگ خاندان کی عزت نا اڑالے جائے۔

لیکن اسی بھائی کے اپنے گھر میں جب بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اسی کی سوچ کے سارے زاویے بدل جاتے ہیں۔ اب رنگ بھی حلال ہو جاتے ہیں، اب تعلیم بھی حلال ہو جاتی ہے، اب روشنی بھی حلال ہو جاتی ہے، اب سانس لینے کو ہواؤں کے درکھول دیے جاتے ہیں کہ وہ بھی انسان ہے۔ لیکن وہ لڑکی جو بہن کے رشتے میں بندھی ہو ئی تھی، جو کسی اور کی بیٹی تھی، کیا وہ انسان نہیں تھی؟

نہیں۔ مشاہدات نے بتایا وہ انسان نہیں تھی۔ کیونکہ وہ کسی اور کی بیٹی تھی۔ اسی کا نطفہ ایک تھا۔ وہ شراکت دار تھی۔ اور شریکہ کب انسان ہوا کرتا ہے۔ اس سوچ کا ذمہ دار کوئی بھی ہو یہ وہ حقیقت ہے۔ جس پہ ہم نا تو بات کرنا چاہتے ہیں۔ نا ہی کرتے ہیں۔ ہمیں بہن کا لفظ سنتے ہی شرم آتی ہے۔ کیونکہ ہم نے اکثر گالیاں اسی لفظ کے سابقے اور لاحقے سے ترتیب دی ہوئی ہیں۔ اس لئے ہمیں لگتا ہے۔ بہن گالی ہے۔

”رابعہ آج تمہیں بتاؤں، وہ مجھے مارتے بھی تھے۔ صرف مجھ پہ پا بندیا ں ہی نہیں لگاتے تھے۔ لیکن آج سب کچھ بدل گیا ہے۔ آج وہ بہت لبرل ہو گئے ہیں۔ آج ان کی بیٹی ایک مکمل انسان ہے۔ اب وہ لوکل ہی نہیں امریکن یو نیورسٹی بھی جا سکتی ہے۔ بس اتنا سا فرق پڑا ہے میرے جانے کے بعد، رابعہ میری جان۔ بس اتنی سی کہانی بدلتی ہے“۔

یہ جملہ میں بہت سی لڑکیو ں سے مختلف انداز سے سن چکی ہو ں۔ ان لڑکیو ں سے جن کو میں برسوں سے جانتی ہوں۔ ان لڑکیو ں سے جن کا نام لے کر آج یہ کہتے ہیں۔ وہ میری بہن ہے۔ ان لڑکیو ں سے جن کی طرح بہت سے لوگ اب اپنی بیٹی کو بنانا چاہتے ہیں، ان لڑکیو ں سے جو آج اپنی اپنی فیلڈ میں رول ماڈل ہیں۔

مگر افسوس ان کو یہا ں تک پہنچنے کے لئے سب سے پہلی جنگ اپنے ہی گھر میں لڑنی پڑی ہے۔ وہ سب سے پہلے اپنے ہی گھر میں دھتکاری گئی ہیں۔ اس کا دل زخمی یا جسم نیلا اسی گھر میں ہوا ہے۔ اس کے بعد جسم کے نیل اور دل کے سوراخ کی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہے اور بغاوت کی آگ یا خود کو جلا دیتی ہے یا دوسرے کو۔ ان لڑکیو ں میں سے اکثر کو گھر سے بھاگ کر شادی کرنا پڑی، اس کے بعد ان کا نصیب تھا۔ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ لیکن اکثر سے ساتھ اتنا برا نہیں ہوا، جتنا ان کی والدین کے گھر میں ہو رہا تھا۔ کچھ کی منزل کھو گئی۔ سفر زندگی بن گیا۔ کچھ نے وہ منزل پا لی جو اس تاریکی میں کبھی دکھائی بھی نہ دی تھی۔

”میرے پاس بتیس روپے تھے جب میں گھر سے نکلی۔ میرا میٹرک کا زرلٹ آیا تھا۔ کالج میں داخلہ لینا چاہتی تھی کہ رات کے وقت میرے بھائیوں نے میرے منہ پہ تکیہ رکھ کر مجھے مارنے کی کوشش کی۔ رات بہت تاریک تھی۔ میں کسی طور ان کے چنگل سے نکل کر باہر کی طرف بھاگی، میری بہن نے میری مدد کی اور وہ تلاش کرتے رہ گئے تاریک رات اور کھڑی فصل نے مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیا۔ اور صبح سے پہلے میں بس اسٹاپ پہ پہنچی اور پھر کبھی اس گھر نہیں گئی۔ آج میں پی ایچ ڈی اسکالر ہوں۔ میرا گھر ہے۔ شوہر ہے بچے ہیں۔ اچھی جاب ہے“

”رابعہ غیرت کے نام پہ جتنے بھی کیسسز ہوتے ہیں اس میں غیرت بھائی کہ ہوتی ہے۔ کتنے کیس ہیں جس میں کسی باپ نے اپنی بیٹی کو غیرت کے نام پہ مارا ہو؟ “ میرے پاس اس لڑکی کے سوال کا جواب نہیں تھا۔ بس وہ واقعات چشم تصور میں تھے جو شہہ سرخی بنے۔ جو بریکنگ نیوز بنے۔

”رابعہ یقین کرو جب میں کمرے میں گئی اس شخص کو دیکھ کر میرا سانس رک سا گیا تھا۔ چکر آنے لگے تھے۔ جس کے ساتھ بھائی میری شادی کرنا چاہ رہے ہیں کہ گھر کا ایک کمرا خالی کروانا ہے۔ دوسرے بھائی کی شادی کے لئے۔ اور تو اورمجھے کہا جاتا رہا ہے کہ اب تمہارے لئے جوان کہا ں سے تلاش کریں۔ تم میں عورتوں والی کوئی بات ہی نہیں۔ میری عورت کو مارا کس نے تھا انہو ں نے ہی نا، کہ کہیں جذبات میں بہہ کر کسی کو پسند نا کر لوں، کو ئی مجھے نا چاہ لے؟“

” رابعہ تم تو یہ بات کرتی ہو کہ وہ کنواری ہے اور اس کے بھائی اس کو فلاں بابا جی کے ساتھ رخصت کر دینا چاہتے ہیں۔ میں ایک طلاق یافتہ عورت ہوں۔ میرا شوہر مجھے بازاری عورت کہتا تھا۔ مجھ پہ مردوں کے ساتھ تعلقات کے بہتان باندھتا تھا۔ مجھ کو مارتا تھا۔ اس لئے میں نے طلاق لی تھی۔ اب ابو کے گھر میں تھی۔ جو میرے بھائیوں کی جائیداد ہے۔ اب میرے بھائی ہی سابق شوہر سے مل کر مجھے تجدید نکاح کے ساتھ اسی خبیث کے ساتھ رخصت کر نا چاہتے ہیں۔“

لیکن جونہی یہ عذاب (یعنی بہن) سر سے اتر جاتا ہے۔ دنیا نئے جہا ن میں بد ل جاتی ہے۔ اور مجھے یقین ہے اس تحریر پہ سب سے زیادہ منفی و مثبت رد عمل بھی اسی مخلوق کا آئے گا۔ جس کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ بیٹی کا جہا ن اور ہے اور بہن کا جہا ں اور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).