ہوس بھری نظریں، بلیک میلنگ۔ پاکستانی خواتین کی جنسی ہراسانی


حال ہی میں امریکہ سے پاکستان منتقل ہونے والی مغربی تعلیم یافتہ تانیہ کو اس وقت دھچکا لگا جب وہ ایک نجی ٹی وی چینل میں اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد اسلام آباد کے پوش ایریا میں واقع اپنے گھر کی طرف جاتے ہوئے کچھ مردوں کی ہوس بھری نظروں کا نشانہ بنی۔ ایسا اکثر ہوتا تھا لیکن تانیہ نے بتایا کہ اس نے کبھی اتنا دھیان نہیں دیا ”جتنا تنگ ہوکر آج دینا پڑا“۔ مغربی جدید معاشرے میں تربیت پانے والی پرکشش شخصیت کی حامل جواں سال تانیہ لئے یہ سب کچھ حیران کن تھا۔

اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تانیہ ایک ایسے پیشے سے وابستہ تھی جس کی ذمہ داریوں میں ہراسانی کے خلاف جدوجہد بھی شامل ہے، لیکن وہ خود جنسی طور پر ہراساں کرنے کے اس انوکھے طریقے سے حیران و پریشان ہوگئی۔ تانیہ جیسی شخصیت کے لئے یہ سب کچھ اجنبی ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے معاشرے میں یہ معمول کی بات ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرسال 50 تا 70 فی صد خواتین جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے بعد نفسیاتی علاج کے لئے سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرتی ہیں۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی ہراسانی کے واقعات کے باعث اکثر خواتین ملازمت یا دیگر مثبت سرگرمیوں کے لئے گھروں سے باہر نکلنے سے اجتناب کرتی ہیں اور اگر کوئی خاتون ہمت کرکے کوئی ملازمت اختیار کرلیتی ہے تو وہ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر مختلف طریقوں سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنتی ہے۔

عائلہ بھی اسلام آباد میں ایک نجی ادارے میں ملازمت کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے لئے آزادی سے کام کرنا مشکل ہے اور وہ مجبور ہوتی ہیں کہ اپنے دفتر میں سخت اور غیر دوستانہ رویہ رکھیں، اور ایسا وہ صرف اپنی دفاع اور حفاظت کے لئے کرتی ہیں۔ اس کا کہنا تھا ”لیکن خواتین کو پھر بھی کسی نہ کسی طریقے سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب آپ کو کوئی غیر ضروری طور پر ڈسکس کرے۔ میں نے کئی بار اپنے کچھ کولیگز کو میرے بارے میں نا شایستہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے سنا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں عورت کو مناسب سپورٹ حاصل نہیں ہے اور ہمیں اکثر اوقات خاموش رہ کر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ گھورتے رہنا اور فقرے بازی ایسے مسائل ہیں جو ہم نہیں چاہتے کہ کسی کے ساتھ ڈسکس کر کے مزید مسائل میں پھنس جائیں۔“

لیکن کچھ خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جو ایسے مسئلے کا شکار ہونے کے بعد زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہ سکتیں اور وہ ہمت کرکے ایسے مسائل سے نمٹ لیتی ہیں لیکن پھر بھی انھیں تکلیف اور ذہنی کوفت سے گزرنا پڑتا ہے۔ غوثیہ ایک صحافتی ادارے میں ڈسک انچارج کے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، گھورنا تو ہمارے معاشرے کا ایک ایسا عام مسئلہ بن گیا ہے جسے اب کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتا۔ ہم خواتین کسی پارک میں جائیں، کسی عوامی مقام پر جائیں، کسی مارکیٹ میں جائیں یا یوں راہ چلتے ہی اکثر اوقات محسوس ہوتا ہے کہ ہم کئی افراد کی نظروں میں ہیں۔

لیکن جب یہ مسئلہ دفتری ماحول میں پیدا ہو جائے تو یہ پھر ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا ”کچھ سال پہلے کی بات ہے، میرے ایک کولیگ نے مجھ میں دل چسپی لینا شروع کی اور وہ دفتر میں مجھے گھورنے لگا۔ مجھے بعض اوقات ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ نظروں ہی نظروں میں ہر زاویے سے میرا جسم ٹٹولنا چاہتا ہے۔ پہلے تو میں نے مختلف طریقوں سے اس کا رویہ تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بدستور اپنی ہوس بھری نظروں سے مجھے پریشان کرتا رہا۔ یہ میری زندگی کے مشکل دن تھے، میں ایک عجیب خوف اور احساس عدم تحفظ کا شکار ہو گئی تھی۔ بالآخر مجھے اپنے ایک سینئیر کولیگ کو اس معاملے سے آگاہ کرنا پڑا اور اس نے یہ مسئلہ حل کر دیا، لیکن مجھے بہت شرمندگی اٹھانا پڑی اور کئی روز تک ذہنی کوفت میں مبتلا رہی۔“

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مڈل طبقے اور لوئرکلاس علاقوں میں رہنے والی خواتین زیادہ vulnerable ہوتی ہیں اور وہ اپنے کمزور خاندانی پس منظر اور مختلف محرومیوں کے باعث جنسی ہراسانی کا زیادہ نشانہ بنتی ہیں۔ لیکن جنسی ہراس کا یہ مسئلہ پوش علاقوں میں بھی اتنی ہی شدت میں موجود ہے جتنا کہ عام علاقوں میں۔ لاہور کے ایک پوش علاقے میں سکونت پذیر ایک کامیاب کاروباری شخصیت طاہرہ امین کا کہنا ہے کہ پوش علاقوں میں بھی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مسئلہ پوری شدت سے موجود ہے لیکن اس پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔

یہ بات درست ہے کہ امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو معاشرے میں ہر لحاظ سے تحفظ حاصل ہوتا ہے اور عام طور پر کوئی انھیں ہراساں کرنے کی جرات نہیں کر سکتا لیکن وہ بھی کسی نہ کسی طرح اس مسئلے کا سامنا کر رہی ہوتی ہیں۔ میں نے اپنے گھر میں اپنے بچوں کی سیکیورٹی کے لئے کیمرے نصب کروا رکھے ہیں اور میں جہاں کہیں بھی ہوتی ہوں ہمیشہ اپنے گھر کو مانیٹر کرتی ہوں۔ کچھ دن پہلے میرے اپنے گھر میں ہمارے ایک ڈرائیور نے سرونٹ کوارٹر میں جا کر کھڑکی سے ایک نوجون خادمہ کی وڈیو بنائی جب وہ کپڑے تبدیل کر رہی تھی اور پھر اسے بلیک میل کرنے لگا۔

وہ بہت خوف زدہ ہوئی اور اس نے ہمیں اس معاملے سے آگاہ کر دیا، ہم نے ڈرائیور کو بلا کر اس کی سرزنش کی اور اس کے موبائل سے وڈیو ڈیلیٹ کر کے اسے نوکری سے فارغ کر دیا۔ پوش علاقوں میں عام طور پر کئی کئی کنال کے رقبے پربڑے گھر واقع ہوتے ہیں اور وہاں کہیں نہ کہیں خواتین ملازماؤں کو ہراساں کیا جاتا ہے لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔

خواتین کی ہراسانی کی روک تھام پر کام کرنے والی ٹرینر قراۃ العین کا کہنا ہے ”بد قسمتی سے پاکستان کے آئین میں جنسی ہراسانی کی سخت سزا کا قانون موجود ہے لیکن اس پر صحیح طرح سے عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور معاشرے کے مختلف طبقوں میں خواتین مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ جنسی ہراس کا نشانہ بننے والی خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ انھیں ہی مورد الزام ٹھہراتا ہے اورکسی جنسی زیادتی یا ہراسانی کا نشانہ بننے کے بعد کوئی فرد اس کی حمایت میں کھڑا ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتا‘‘۔

ہمارا معاشرہ مکمل طور پر ایک male chauvanist society ہے اور مرد کو عورت پر بے جا برتری حاصل ہے۔ خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں سوشل میڈیا کا بھی آج کل بہت استعمال ہوتا ہے۔ ہماری نوجوان لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر کسی انجان شخص سے رابطہ نہ کریں اور ان کی جانب سے ملنے والے پیغامات اور فرینڈ ریکویسٹ مکمل طور پر نظرانداز کر کے اپنی حفاظت کو یقینی بنائیں، کیونکہ عام طور پر ایسے واقعات کا آغاز دوستی اور عام قسم کی ہلکی پھلکی گپ شپ ہی سے ہوتا ہے۔

(شناخت خفیہ رکھنے کی خاطر اسٹوری میں شامل اصلی نام تبدیل کردیے گئے ہیں)
(فیچر رپورٹ: فرخند اقبال)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).