عورت یا طوائف۔ مرد یا ۔ ۔ ۔


مرد ہوں مجھے کیا فرق پڑے گا
مرد ہوں سب کر سکتا ہوں
مرد ہوں چار کی اجازت ہے
یہ وہ الفاظ ہیں جو اکثر سننے کو ملتے ہیں۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مرد و عورت میں بالاتر یا بدترکی تفریق کب اور کیسے پیدا ہوئی جب کہ بنانے والی ذات نے تو فرمایا مرد و عورت برابر ہیں۔ ہاں کچھ عوامل ایسے ہیں جہاں مرد کو ایک درجہ اونچا عطا کیا گیا ہے جیسا کے مرد کی پوری گواہی اور عورت کی آدھی۔ وراثت میں دو حصے مرد کے اور ایک عورت کا۔ لیکن اللہ پاک نے مرد کو صرف وراثت میں برتری دی ہے گناہ کی چھوٹ میں نہیں۔ گناہ اور ثواب کا اجر برابر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مرد کو گناہ پر کم سزا اور عورت کو زیادہ ملے گی۔ پھر مرد کیسے کہ سکتا ہے کہ مرد ہوں سب کر سکتا ہوں۔

ہمارے معاشرے میں سیگرٹ کے استمال سے مرد کے پھیپھڑے اور عورت کا کردار خراب ہو جاتا ہے۔ اب پتا نہیں مرد کا کردار نہیں ہے یا عورت کے پھیپھڑے۔ شراب مرد پیے تو اس کا سٹائل ہے اور اگرعورت پیے تو وہ سلٹ ہے۔ مینے تو اس کچھ نہیں سنا کہ کھانے پینے کی کچھ چیزیں مردوں کے لیے حلال ہیں اور خواتین کے لیے حرام۔

اگر بات مرد و عورت کے تعلق کی ہو تو ایک جملہ کچھ مردوں کے ذہنوں میں پیوست ہے۔ ”مرد ہوں چار کی اجازت ہے‘‘۔ کچھ مخصوص حالات میں چار نکاح کرنے کی اجازت ہے چار گرل فرینڈز کی نہیں۔ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کی ماڈرن اصطلاح جو انگریزوں سے امپورٹ کی گئی ہے اس کا اگر انگریزی میں مطلب دکھا جائے تووہ یہ ہے کے ایک ساتھی جس کے ساتھ رومانٹک یا جنسی تعلق رکھتے ہیں۔ جب کہ اسلام میں تو جنسی تعلق رکھنے کے لیے نکاح ضروری ہے۔

ہمارے معاشرے میں تو جوعورت نکاح کیے بغیر مرد کے ساتھ جسمانی تعلق رکھتی ہے اس کو رکھیل یا طوائف بولا جاتا ہے۔ یہ الفاظ اس عورت کے لیے ایک گالی بن جاتے ہیں۔ عزت کے لفظ سے اس کو نا آشنا سمجھا جاتا ہے۔ صرف نفرت اور حقارت ملتی ہے اس کو۔ عورت یا تو عورت ہے یا پھر طوائف۔ عورت کے رکھیل یا طوائف بننے میں مرد کی بھی توشراکت ہے۔ اس کا بھی تو ناجائز تعلق ہے۔ تو پھر اس کے لیے کوئی گالی یا طعنہ کیوں نہیں ہے؟ ہو سکتا ہے ایسے مردوں کے لیے کوئی اصطلاح ہو جو شاید میرے محدود علم میں نہیں ہے۔ مرد یا تو مرد ہے یا پھر؟

عورت اور مرد کو جانچنے کے پیمانے اس دنیا میں تو علاحدہ علاحدہ ہو سکتے ہیں مگر خدا کی عدالت میں سب برابر ہیں۔ وہ رحمان سب کی سنتا ہے۔ وہ سب کا اللہ ہے۔ اگر اس ذات سے سچے دل سے معافی مانگی جائے تو وہ توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے۔ اس نے ایسا نہیں کہا کہ توبہ صرف مرد کی قبول ہو گی پھر کیوں مرد ساری زندگی گناہ کے کیچڑ میں گزار کر بھی لوگوں کو پاک صاف نظر آتا ہے۔ جب کہ عورت کے کردار پے لگا ایک داغ اس کے مرتے دم تک ساتھ رہتا ہے۔ میں اس بات کو تسلیم کرتی ہوں کہ کچھ نوجوان خواتین وقتی خوشی یا بری صحبت کی وجہ سے گناہ کے رستے پے آ نکلتی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ زیادہ تر کسی مجبوری، غربت، جہالت اور بیروزگاری کی وجہ سے گناہ کی دلدل میں پھنس جاتی ہیں۔ کیا مرد بھی غربت اور بیروزگاری جیسے عوامل کی وجہ سے گرل فرینڈز رکھتے ہیں؟

ہمارے معاشرے میں ایسے مرد کثیر تعداد میں موجود ہیں جن کو اپنے مرد ہونے پے بہت ناز ہے۔ مرد خود کو عورت سے بالا تر کیا صرف جسمانی طور پر طاقتور ہونے کی وجہ سے سمجھتے ہیں۔ اس مخلوق کو بنانے والی ذات نے مرد کو جسمانی طاقت اس لیے عطا کی ہے کیونکہ اپنے اہل و عیال کے نان نفقے کی ذمہ داری اس کی ہے جس کے لیے اس کو محنت مشقت کرنی ہوتی ہے۔ عورت کو کمزور یا کمتر سمجھنے والے مرد اس ہمت کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے جس ہمت سے ماں ایک وجود کو نو ماہ اپنے پیٹ میں سنبھال کر رکھتی ہے اور نہ اس تکلیف کا جب وہ وجود اس دنیا میں پہلی سانس لاتا ہے۔

جذبات و احساسات کی بنیاد پر اگر دکھا جائے توکچھ مرد حضرات قوت برداشت اور حوصلے کو اپنی وراثت سمجھتے ہیں۔ ”اے مرد ہو کر رو رہا ہے، کیا عورتوں کے جیسے آنسو بہا رہے ہو‘‘۔ عورت اگر جذباتی طور پر مرد سے کمزور ہوتی تو کوئی بھی عورت کبھی کسی نا پسندیدہ مرد سے شادی نہ کرتی۔ ایسی لاتعداد لڑکیاں ہیں جن کی ان کے نکاح میں مرضی پوچھنا بھی گنوارا نہیں کیا جاتا۔ اپنے والدین کی خوشی کے لیے اپنی خوشی قربان کر دیتی ہیں۔ عورت اپنے جذبات و احساسات کو مار کر ایک ناپسندیدہ مرد کے ساتھ سوتی بھی ہے اور اس کے بچے بھی پیدا کرتی ہے۔ عورت اپنی محبت کے بار اپنے ماں باپ کی عزت کا بار بھی اٹھا کر ان چاہے مرد کے ساتھ ساری زندگی گزار دیتی ہے۔

میں نے سنا ہے محبت صرف عورت کرتی ہے مرد کی صرف پسندیدگی ہوتی ہے اور اگر کسی مرد کو محبت ہو جائے اور وہ نہ ملے تو مرد پاگل خانے میں نظر آتا ہے مطلب یہ ہوا کہ مرد جذباتی طور پر اتنا کمزور ہے کہ ایک محبت کا بار برداشت نہیں کر سکتا۔ میرا مقصد مردوں کو کمتر یا کمزور ثابت کرنا ہر گز نہیں ہے نا ہی میں biased gender ہوں۔ میرا مقصد صرف عورت کو کمتر سمجھنے والے اس معاشرے میں احساس اجاگر کرنا ہے کہ برتری کا معیار مرد یا عورت ہونا نہیں ہے اس کا معیار اللہ نے تقویٰ قرار دیا ہے۔ کون افضل ہے اور کون نہیں یہ فیصلہ اللہ نے کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).