کچھ ادبی ناقدین کے بارے میں


جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ حضور والا مجھے کچھ عرصے سے لاہور میں بسنے والے ہر اس ذی روح سے الجھن ہو چلی ہے جو بنا کسی جواز کے ادب کو پرکھنے میں جڑ گیا ہے۔ یہ تو سننے میں بہت آتا ہے کہ اردو زبان میں اچھا لکھنے والے اب نہیں رہے مگر جو لکھ رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی تو دور اِن کی ٹانگیں کھینچنے کی باقاعدہ گروپ بندی کی جا رہی ہے۔ معاف کیجیے میں کسی بھی لحاظ سے ان سورماؤں پر تنقید نہیں کر رہی لیکن میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں اس مقام پر لانے والا اور کوئی نہیں بلکہ یہی باپ دادا ہیں۔

میں سمجھا کرتی تھی کہ پڑھنے والے پڑھتے ہیں اور بھونکنے والے بھونکتے ہیں۔ مگر ایک عرصے سے دیکھ رہی ہوں کہ بھونکنے والوں کا اثر زیادہ ہے، قاری کا اپنا کوئی خیال، کوئی پسند نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قاری تو فکشن کی کتاب ہی وہ اُٹھا رہا ہے جس میں مذہب کا تڑکا لگا کر ڈرامائی انداز میں کچھ پیش کیا گیا ہو یا جس ناول یا افسانے پر فلم یا ڈرامہ بنایا گیا ہو۔ میں وثوق سے تو نہیں کہہ سکتی مگر ایک خام خیالی سہی کہ ’’غلام باغ‘‘ خریدنے والوں کی تعداد کو تین یا شاید چار سے ضرب دی جائے تو وہ تعداد سامنے آتی ہے جس نے نمرہ و عمیرہ احمد کے ’’جنت کے پتوں‘‘ اور ’’پیر کامل‘‘ پر وقت ضائع کیا۔ جو بہت اچھا پڑھا ہے تو سوال کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ فریحہ نقوی کو پڑھ رکھا ہے اور علی اکبر ناطق کو پڑھا ہے۔ علی اکبر ناطق تو چلو ’’نولکھی کوٹھی‘‘ لکھا اور مشہور ہو گیا پر فریحہ نقوی تو شاعرہ ہے۔ بھلا فریحہ کا نام کیوں کر لیا جائے۔

تو یہ حادثہ یوں ہوا کرتا ہے کہ فریحہ کی شاعری سے زیادہ فریحہ کی خوب صورتی مشہور ہے یوں ہر شاعر، افسانہ نویس خصوصاً ناقد جب نام لیتا ہے تو وہ کام پر بات کرنا بھول جاتا ہے یا یہ واضح کرنا بھول جاتا ہے کہ فریحہ نقوی شاعرہ ہے۔ معاف کیجیے علی اکبر ناطق اور فریحہ، میرا مقصد صرف اور صرف مثال کے ذریعے یہ واضح کرنا تھا کہ یہاں کس بے طرح کے ناقدین موجود ہیں۔ اور ان کے قارئین تک کتنی پہنچ اور اثرات ہیں۔

ناقدین کسی زمانے میں واقعی اچھے تھے اور صحیح بات کہا کرتے تھے۔ مجھے وارث علوی پڑھتے ہوئے ہر طرح سے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ کبھی یوں نہیں لگا کہ یہ لکھاری پر اُسترا پھیر گئے ہیں یا لکھت پر قلم کی جگہ معاذ اللہ پیر جما رکھا ہے۔ کام پر بات کی اور دلیل دی۔ یہی وجہ ہے کہ وارث علوی تنقید کی دنیا میں میرے لیے اہم رہیں گے (باقیوں کی اپنی رائے ہے )۔ ناقد کا وجود کسی بھی معاشرے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ہمارے ہاں تنقید کرنے کا یا تو طریقہ نہیں سیکھا گیا یا سکھایا گیا اور جو سکھایا یا سیکھا گیا وہ ایسا عجیب ہے کہ بے اختیار دو چار کتابیں پڑھنے کامشورہ دینا پڑتا ہے۔

تازہ حال احوال کا ذکر کرتے ہیں کہ مشہور زمانہ پاک ٹی ہاؤس میں عرصہ 4 ماہ میں دو جلسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ دونوں بار عزیزوں کا افسانہ رہا۔ اتفاق ایسا رہا کہ ایک افسانے کا غنچہ دل میری ذات رہا اور دوسرا میری دوسری محبت۔ پہلے افسانے کا لب لباب ایک پینٹر کے شاہکار اور قلب کی دیوی کی مہربانی رہا اور افسانے کی طوالت کو نشانہ بنا کر تنقید کی گئی۔ اور دوسری مرتبہ عالی جاہ ظہیر عباس کے افسانہ ”اعمال نامہ“ رہا جس کا خیال ”کتاب مر گئی“ ”اعمال نامہ خریدنے والے کے نام“ یا ”اعمال نامہ پہلے قاری کے نام“ ہر گز نہیں تھا۔ لیکن افسانے سننے پڑھنے والوں نے اس کے خوب چیتھڑے اُڑائے۔ یہ دوسری بار ایسا موقع تھا جب زبان کے تلفظ پر تنقید پنجابی اور اردو اچاریہ جی کا شور مچا کرکی گئی نیز افسانے کی طوالت پر بحث کی گئی اور بعضوں کے لیے تو افسانہ سننا ہی خوفناک امتحان ٹھہرا۔

یہ سارے وہ رویے ہیں جنہیں میں نے اپنی کم علمی کے باوجود دیکھا، سوچا اور پرکھا ہے۔ میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں درجن بھر افسانے اور مٹھی بھر ناول پڑھے ہیں۔ کم علم ہونے کا اعتراف بھی ہے اور شاید زندگیاں ملتیں تو اس زندگی میں مصورہ اور اگلی زندگی میں صرف اور صرف ریڈر ہوتی اور مجھے اس پر ناز ہوتا۔ سب سے زیادہ ہنسی مجھے اس وقت آئی جن اردو کے زبان ہونے پر سوال اُٹھایا گیا اور اس کے الفاظ کی ادائیگی کو درست تلفظ کے ساتھ پہلی شرط رکھا گیا اور وہ ناقد یہ بھول گیا کہ کالج میں اردو پڑھانے والا لیکچرار بھی ادب کا طالب علم ہو سکتا ہے، یونیورسٹی میں اردو پڑھانے والا بھی آخر کار طالب علم ہو سکتا ہے اور اردو زبان میں ناول، افسانہ، شاعری یا کسی اور صنف پر خامہ فرسائی کرنے والا بھی طالب علم۔

تلفظ کی بات تو لکھنؤ اور دہلی سکول آف تھاٹ پر بھی نہیں کی جا سکتی کہ یہ براڈکاسٹنگ نہیں ہے، نہ ہی افسانہ یا نظم پڑھنے والا تاج یا ضیاء محی الدین۔ اور جانے کتنے ہی لفظ ہیں جن کا تلفظ اور معنی اب بدل چکا ہے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ مجھے ان رویوں میں ایسا کیا پرکشش روپ دکھائی دیا کہ میں اپنی سی بصارت و بصیرت صرف اسی موضوع پر صرف کرنے پر مجبور ہوئی؟

مجھے ایسا لگتا ہے کہ مولوی کو طاقت دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ یہی وہ ناقدین ہیں جنہوں نے بات کو کبھی ڈھنگ سے سمجھنے کا اصول نہیں اپنایا۔ اگر مذہب کا تقابلی جائزہ لیا جاتا یا سماجی جائزہ لیا جاتا اور انہیں ناقدین نے اپنی یہ ذمہ داری پوری کی ہوتی تو مولویت ہماری جڑوں میں نہ بیٹھتی۔ سیاست کا ہم نے تقابلی یا سماجی یا اقتصادی جائزہ لیا ہوتا تو ہمیں آج سیاسی کمزوریاں نہ جھیلنی پڑتیں۔ سماجیات کا اقتصادی و سیاسی مطالعہ فرمایا ہوتا تو ہم ایک دونی دونی، دو دونی چار کے دائرے میں نہ گھومتے۔ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔

اگر یہ محنت کر لی جاتی تو میرا خیال ہے کہ حالات مختلف ہوتے۔ 7 سالہ بچے گلیوں میں گرم انڈے نہ بیچ رہے ہوتے، زینب و اسما کیسز یوں ہماری آنکھوں میں نمی نہ لاتے، شاید ہم وہ غیرت مند قوم تخلیق کرنے میں کامیاب ہو جاتے جو اپنا دفاع کرنا بھی جانتی اور ناچنے اور گانے والے کے ساتھ لفظ ’کنجر‘ یا ’مراثی‘ جوڑنے سے پہلے سوچنے والی ہوتی۔ کم از کم ماضی کا مزار نہ ہوتی۔ میں تو کہے دیتی ہوں اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ صرف اردو ادب ہی کے نہیں بلکہ تمام قسم کے ناقدین اپنی سمت درست فرما لیں تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ ناقدین اپنی رائے ضرور دیں مگر دوسروں کی رائے کا احترام از حد ضروری ہے۔ کہ دلیل کے ساتھ تنقید مکالمے کا حسن ہے۔ اور ہم عرصہ دراز سے یہی فرماتے آ رہے ہیں کہ مکالمہ جاری رہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).