ففتھ جنریشن وار اور میڈیا پر پابندیاں


انسان کی تاریخ جنگوں کی تا ریخ ہے۔ پہلے دو گروپ آمنے سامنے آجاتے تھے اور لڑتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آلات حرب تبدیل ہوتے گئے۔ لیکن ہمیشہ سے اپنے مخالف کو جھوٹا، کمزور، بے ایمان، مکاراوربزدل ثابت کرنا اور اپنے آپ کو بہادر، طاقت ور، سچا اور راہ راست پر کہناجنگ میں شامل رہا ہے۔ نیک نامی، تشہیر اور تبلیغ ہمیشہ سے جنگ کے ہتھیاررہے ہیں۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے، دوران اور بعد میں پروپیگنڈا انتہائی اہم ہے۔

اسلام سے قبل کے شاعر عرب معاشرہ میں مورخ، جوتشی، داعی اورصحافی کا کردار ادا کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں انوکھی سوچ کو فروغ دینا اور واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے والے اشعار ہوتے تھے۔ قبائل کے قصیدے اور مخالفین کی ہجو گوئی ان کی شاعری میں شامل تھی۔ مکہ کے قریب واقع ”عکاز“ کے بازارمیں شاعری کے سالانہ میلے ہوتے تھے جن میں تمام عرب کے شعرأ طبع آزمائی کرتے اور ان کے اشعار پورے عرب میں حفاظ سناتے۔ اس طرح رائے عامہ کے خیالات میں تبدیلی کا باعث بنتے۔

ہتھیاروں اور اتحادیوں کے بغیر کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ ان کا حصول سچے، قابل اعتبار، حق پر ہونے اور دشمن کو ناقابل اعتبار اورجھوٹا ثابت کرنے پر ہے۔ میکاولی کا قول ہے، ”ہرکوئی وہی دیکھتا ہے جوتم بظاہر دیکھانا چاہتے ہو، بہت کم کو ہی تمہاری اصل حقیقت کا پتا چلتا ہے۔ “

چھاپہ خانہ کی ایجاد کے ساتھ ہی پروپیگنڈا کی اہمیت اور بڑھ گئی۔ اس وقت پورے یورپ پر کلیسا کی حکومت تھی۔ رومن کیتھولک چرچ کی فتاوی میں غلطیوں اور زیادتیوں کی خلاف مارٹن لوتھرنے 1517 میں 95 مقالے لکھے۔ جن میں عوام الناس سے ہونے والی مذہبی زیادتیوں کے خلاف دلائل دیے۔ یورپ میں لڑی جانے والی تیس سالہ بو ہیما جنگ پاپائت کے خلاف تھی۔ پندرہویں سے اٹھارویں صدی کے نظریات کے ماہر جیبر الماسی اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں کہ اس جنگ یں 32۔1619 کے درمیان بوہیما میں 207 پمفلٹ بادشاہ کی حمائیت اور 154 اس کے خلاف لکھے گئے جن میں سے صرف سات پر لکھنے والے کا نام اور دو پر مونوگرام تھا، باقی سب کے لکھنے والے کا کوئی پتا نہیں۔ ان کا مقصد سیاسی مفادات کا تحفظ اوراپنے مقاصد کو صحیح ثابت کرنا تھا۔ اس سے بھی زیادہ اہم عوام کی آراٗپر اثر انداز ہونا اور بدلنا تھا۔

موجودہ دور میں میڈیا مملکت کا چہرہ ہوتا ہے۔ مملکت کے اندر یا باہر جو ہورہا ہوتا ہے یا آ ج کے گلوبل ویلج میں اگر کوئی اہم وقوعہ ہوتا ہے میڈیا اپنے ناظرین کو اس کی بروقت اطلاع دیتا ہے۔ ایک متحرک اور متحد معاشرہ کی تشکیل میں میڈیا کا کردار معلم کا ہے۔ منصفانہ سوسائٹی کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لئے میڈیا، ادارہ جات کی کارکردگی پر بھی نظر رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مملکت کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوے بیرونی دنیا میں ملک کی پالیسیوں کو صحیح طریقہ سے واضح کرتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق میڈیا ملک کی پہلی اور آخری دفاعی لائن ہے۔

آ ج کے دور میں روایتی جنگوں کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں اور نئی قسم کی جنگوں کا آغاز ہو گیا ہے چوتھی ( 4 GW) او ر پانچویں نسل کی جنگیں ( 5 GW) میدان جنگ کی بجاے زیادہ میڈیا پر لڑی جا رہی ہیں افواج اور جنگی ہتھیاروں کی اہمیت ابھی بھی مسلم ہے لیکن اب ان کا استعمال کم ہوتا جا رہا ہے۔ خصوصی طور پر جوہری ہتھیاروں کو صرف ڈرانے اور اپنی طاقت کے اظہار کے لئے رکھا جاتا ہے۔ چوتھی نسل کی جنگ نظریات کی جنگ تھی اس میں دشمن بظاہر چھپے ہونے کے باوجود صاف محسوس ہوتا تھا۔

داعش اور القائدہ کی تحریک اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ لیکن پانچویں نسل کی جنگ ( 5 GW) صرف میڈیا پرلڑی جا رہی ہے۔ یہ ایک انتہائی حیران کن خطرناک تبدیلی ہے جس میں غیر ریاستی عناصراور جنگجو سراسر مایوسی کی وجہ سے واضح سیاسی مقاصد کے بغیر ریاست کے خلاف لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کو سب سے پہلے امریکی میجر شانون بی بی نے ان الفاظ میں بیان کیا، ”اس قسم کی لڑاکے بغیر کسی خیال اور مفاد کے صرف مایوسی کے متاثرین ہوں گے۔

” اس جنگ میں محروم طبقہ طاقت کا استعمال کرتے ہوے امن اور انتظام کو تباہ کریگا۔ لڑنے والے معاشرہ کا حصہ ہوتے ہوے صاف پہچانے جانے کے باوجود نظر نہیں آئیں گے۔ اس جنگ میں لڑنے والا کوئی نظر نہیں آتا لیکن یہ اپنے اہداف کو تباہ کر دیتی ہے۔ یرمیاہ کی ایک آیت اس کو بہت اچھی طرح واضح کرتی ہے۔ “ تباہی آرہی ہے، میں نے زمیں کو دیکھا زمین خالی تھی۔ میں نے چاروں طرف دیکھا، لیکن وہا ں کوئی بھی نہ تھا، سارے پرندے اڑ چکے تھے۔ ”4 : 22۔ 25

دشمن اس جنگ میں شہریوں کو ملک کے حکمرانوں اور ادارہ جات کی پالیسیوں کے خلاف بھڑکانے کے لئے میڈیا پر صحیح اور غلط تشہیری مہم جاری رکھتا ہے۔ میڈیا اب مخصوص کمروں اور چھاپہ خا نوں سے نکل کر مملکت کے ہر شہری کے ہاتھ تک پہنچ چکا ہے۔ ہر ان پڑھ اور پڑھا لکھا انسان اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے بعد اس کو مشتہر کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ دشمن ایک مصنوعی چیز کو حقیقت بنا کر پیش کرتا ہے اور پھر اس کو عام بھی کر دیتا ہے۔

کیپٹن سلطان محمد حالی ڈیفنس جرنل میں شائع شدہ اپنے آرٹیکل ”جنگ میں میڈیا کا کردار“ میں کارگل جنگ میں ہندوستانی میڈیا کی کامیاب مہم کی تعریف کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ کس طرح انڈین میڈیا نے پروگرام، خبریں، تجزیات، مکالمے، وسیع کوریج اور مشہورپوسٹر ”Rogue army“ کی وجہ سے دنیا میں یہ ثابت کیا کہ پاکستان غلط مقام پر کھڑا ہے اور انڈیا متاثرہ فریق ہے۔ چانکیہ کے دھوکا اور جھوٹ کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوے انہوں نے اپنے عوام کوفریب دیے۔ (ان کا پروپیگنڈا اتنا کامیاب تھا کہ) ان کی مصنوعی، جھوٹی اور تبدیل شدہ اطلاعات (فلموں اور تصویروں ) کو بی بی سی اور سی این این بھی چلاتے رہے۔ اس جنگ کی کوریج یہ ثابت کرتی ہے کہ مصنوعی حقیقت کو پیدا کرنے کے بعد اس کو عام کرنا جدیدپروپیگنڈاکی بہتریں وضاحت ہے

اس جنگ کے دوران پاکستان میں آزاد میڈیا موجود نہ تھا اس سے سبق سیکھتے ہوے پرویز مشرف نے پرایؤیٹ چینلزکا آغاز کیا۔ پاکستان میں پی ٹی وی اور اخبارات موجود تھے لیکن ہندوستانی یلغار کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اب پھر میڈیا کو طرح طرح کی ہدایات اور پابندیوں کا سامنا ہے۔ اس طرح آزاد پرائیویٹ چینلز کو حکومتی آلہ کار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پی ٹی وی پرعوام کا کتنا اعتمادہے سب کو پتاہے اور بھگت بھی چکے ہیں ان پابندیوں کے بعد یہی حالات باقی سب کے بھی ہو جائیں گے۔ عوام خبروں کے لئے بیرونی چینلز پر انحصار کرنا شروع کر دئیں گے۔ ( 5 GW) کے دور میں آپ کس کس کو پابند کریں گے۔ خبروں کی ترسیل کے دوسرے ذرائع پر عوام کا اعتبار بڑھ جاے گا۔ صحافی برادری اس سنسر شپ کا مقابلہ کرے گی کدورتیں اور نفرتیں بڑہیں گی۔ حکومت ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ نپولین کے بقول،

”چار مخالف اخبارات ہزار ہا سنگینوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ “ ففتھ جنریشن وار کے اصل محرکات نا انصافی، بیروزگاری، دولت کی غیر مساوی تقسیم، مذہبی انتہاپسندی، علاقائی مفادات، ظلم اورمہنگائی ہیں۔ ان کا مقابلہ معاشی ترقی، انسانی مسائل کا حل اورروابط میں اضافے سے ممکن ہے۔ اس جنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے میڈیا کو تیار کرنا چاہیے۔ ان کو اس جنگ کے بارے میں معلومات اور تربیت فراہم کرنی چاہیے۔ نہ کہ پابندی، جو حکومت کوصحافیوں کے مقابلہ میں کھڑا کر دے۔ جن سے نفرتوں میں مزید اضافہ ہو اور ایک نئی جنگ شروع ہو جاے۔

خداوند کہتا ہے، ”کھیتوں میں ہل چلاؤ لیکن کانٹوں میں بیج نہ بویا کرو۔ “ یرمیاہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).