ففتھ جنریشن وار


وہ دن گئے کہ جب جنگیں میدانِ جنگ میں روایتی ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھیں۔ تین عظیم جنگوں میں 10 کروڑ انسانوں کو لقمہ اجل بنانے کے بعد بھی دنیا پر حکمرانی کی خواہش مند طاقتیں اپنے مقاصد میں جب کامیاب نہ ہو سکیں تو ان کے بڑے سر جوڑ کر بیٹھے اور کوئی ایسی ترکیب ڈھونڈنے لگے کہ ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ انہیں میں سے کسی نے ففتھ جنریشن وار فیئر کا تصور دیا۔ یہ غیر روایتی طرزِ جنگ کا ایک ایسا طریقہ ہے جس میں بغیر ہتھیار اٹھائے لاکھوں میل دور بیٹھی کسی قوم کو اپنا تابع بنایا جاسکتا ہے اور بجا طور پر اب تک ایجاد کردہ جنگ کے تمام تر طریقوں میں یہ سب سے مہلک ہے۔

اس جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار میڈیا ہے جس کی مدد سے کسی قوم کو ذہنی طور پر اپنے من پسند نظریات اور خیالات ماننے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ ایک پاکستانی محقق کے بقول ”اس قسم کے طرزِ جنگ میں میڈیا ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم سے بھی زیادہ افادیت و اہمیت رکھتا ہے۔ جسے جمہوریت کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے دراصل وہی دشمن کا اہم ترین ہتھیار بن جاتا ہے“ اس میں جسموں کو تسخیر کرنے کی بجائے ذہنوں کو تسخیر کیا جاتا ہے اور پھر جسم خود بخود تسخیر ہو جاتے ہیں۔

اس وقت جنگوں میں نان سٹیٹ ایکٹرز، سفارتکاری، معیشت اور پروپیگنڈے کے ہتھیار بھی شامل ہو چکے ہیں اور ریاستی افواج کے ساتھ ساتھ پراکسیز کا کردار بھی اہم ہو چکا ہے۔ یہ طریقہ روس اور امریکہ گزشتہ ایک صدی سے استعمال کررہے ہیں اور تیسری دنیا کی تین چوتھائی آبادی اس ففتھ جنریشن وار فیئر کا شکار ہو چکی ہے۔ آج ہماری تین چوتھائی میڈیا انڈسٹری تفریح کے نام پر جو کچھ عوام کو دکھا رہی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم بری طرح اس جنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔

معاشرے میں آئے روز لسانی، علاقائی اور مسلکی بنیادوں پر نفرت کا جو بازار گرم کیا جاتا ہے وہ سب اسی کا شاخسانہ ہے۔ ہمیں چھوٹے چھوٹے گروہی اختلافات میں الجھا کر ہماری توجہ عالمی منظرنامے سے ہٹا دی جاتی ہے اور پھر یہ غاصب قوتیں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرتی ہیں۔ روشن خیالی، لبرلزم اور سیکولرزم کے نام پر ہماری مذہبی، ملی اور قومی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جارہا ہے۔ ذہنی طور پر ہم اس وقت اپنی روایات و اقدار اور تہذیب سے کوسوں دور جاچکے ہیں۔

ہمارے اسلاف کہ علم اور حکمت جن کی میراث تھی آج ہماری حالت دیکھ کر عالم ارواح میں شدید دکھی ہوتے ہوں گے۔ وہ قوم جو ترکیب میں خاص تھی اور سائنس جن کی ایجاد تھی آج علمی میدان میں مغرب کی تقلید پر مجبور ہوچکی ہے اور یہ ففتھ جنریشن وار کے سبب ہے۔ گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھیثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارایہ ففتھ جنریشن وار اپنی شدت اور نتائج کے اعتبار سے جنگ کی خطرناک ترین قسم ہے۔ اس میں کسی قوم کی نظریاتی سرحدوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس قوم کی جوان نسل کے ذہنوں میں شدت، عدم برداشت، بیزاری، فحاشی، بے راہروی اور ایسے کئی دقیانوسی خیالات انڈیل دیے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں وہ قوم اخلاقیات و اقدار سے بے بہرہ ہوجاتی ہے اور ترقی کی دوڑ میں کہیں بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔

اس کی معیشت کو سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی قوتیں اس سے اپنی مرضی کے مطالبات منواتی ہیں اور ہر میدان میں وہ قوم ان کی غلام بن کر رہ جاتی ہے۔ برائے نام تو اس قوم کی مسند اقتدار اپنے ہی ہاتھوں میں ہوتی ہے مگر حقیقت میں وہ ان طاقتوں کی پالتو غلام ہوتی ہے۔ اور بجا طور پر کسی بھی جنگ کا مقصد آخر کار یہی ہوتا ہے۔ کسی مشہور تاریخ دان نے کہا تھا ”جب کوئی قوم اپنی روایات سے بیزاری کا اظہار کرنا شروع کردے تو جان لو کہ اس کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں اور محض ایک دھکا اسے نیست و نابود کرسکتا ہے“ پاکستان کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پوری دنیا میں جو ملک سب سے زیادہ پراکسی وار اور ففتھ جنریشن وار کا نشانہ بنا ہے وہ مملکت خداداد ہے۔

گزشتہ سات دہائیوں سے دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف مختلف منصوبے بنائے جاتے رہے۔ ہم تین جنگیں لڑ چکے مگر جب یہ دیکھا گیا کہ کہ اس قوم کو جنگ کے میدان میں شکست دینا بہت مشکل ہے تو پھر ففتھ جنریشن وار فیئر کا جال پھینکا گیا جس میں آج ہم بری طرح پھنس چکے ہیں۔ آج ہمارا نوجوان اپنی روایات اور اقدار سے بیزاری کا اظہار کررہا ہے اور ذہنی طور پر مکمل طور پر مغرب کا غلام بن چکا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔

اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ تو اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے ہمیں اٹھ کھڑے ہونا ہوگا اور اس ففتھ جنریشن وار کے خلاف اپنی حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی تاکہ ہم اپنی روایات و اقدار کی نہ صرف حفاظت کرسکیں بلکہ ان پر چلتے ہوئے اپنے آنے والی نسلوں کو ایک شاندار مستقبل دے سکیں۔ ظلم چپ چاپ سہے جاؤ گے آخر کب تکاے اسیران قفس منہ میں زباں ہے کہ نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).