قومی بیانیہ اور دہشت گردی کی جنگ


پاکستان بنیادی طور پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ حالیہ برسوں میں یقینی طور پر پاکستان نے عملی طور پر انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹ کر کافی حد تک اہم کامیابیا ں بھی حاصل کی ہیں۔ اس کا اعتراف داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر کیا بھی جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ جنگ بدستور جاری ہے او راس میں ابھی ریاستی، حکومتی او رمعاشرتی محاذ پر بہت کچھ کرکے دکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ اس لیے بھی کرنا ضروری ہے کہ اول یہ ہماری ریاست او رمعاشرہ کی کی بقا کی جنگ ہے اور دوئم ہمیں دنیا میں بھی اس تصور کو بھی ایک مضبوط بنیاد فراہم کرنی ہے کہ ہم دیانت داری، سنجیدگی اور اپنی مضبوط سیاسی، سماجی، انتظامی او رریاستی کمٹمنٹ کے ساتھ اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔

اس جنگ سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے ریاستی سطح پر دو اہم دستاویز جاری کی۔ اول نیشنل ایکشن پلان اور دوئم پیغام پاکستان جیسے اہم اور فکری دستاویز تھے۔ ریاست کے بقول انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ محض عسکری طاقت یا انتظامی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہی نہیں لڑی جائے گی بلکہ علمی اور فکری محاذ پر شعور کی تبدیلی کی جنگ بھی لڑی جائے گی۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے تناظر میں وفاقی اور صوبائی سطح پراپیکس کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جو وفاقی سطح پر وزیر اعظم اور صوبائی سطح پر وزرائے اعلی کی نگرانی میں کام کرے گی او را س میں عسکری قیادت سمیت مختلف انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان بھی حصہ دار ہوں گے۔

بیس نکات پر مبنی نیشنل ایکشن پلان بنیاد ی طو رپر ریاست کا انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے ایک جامع نصاب کی حیثیت رکھتا ہے اور اس پر سیاسی و عسکری قیادت سمیت قومی پارلیمنٹ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ پیغام پاکستان جو فرقہ وارریت سے نمٹنے کا دستاویز ہے او رتمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کا اس پر مجموعی اتفاق اور مل کر مذہبی اہم اہنگی کو تقویت دینا غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے۔

اگرچہ ہم نے ان اہم دستاویزات کے مختلف نکات پر سنجیدگی سے کام بھی کیا او راس کے بہت سے اچھے او رمثبت عملی نتائج بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب اس ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے وہ مناظر نہیں جو ماضی میں بدترین حالات کی نشاندہی کرتے تھے۔ ہمیں ان تمام سول اور فوجی جوانوں او ران بہادروں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جنہوں نے عملی طو رپر میدان میں نہ صرف یہ جنگ لڑی بلکہ 70 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔

لیکن یہ اعتراف بھی کیا جانا چاہیے کہ ریاستی، حکومتی اور معاشرہ کی سطح پر ان اہم دستاویز پر عملدرآمد کے نظام میں وہ مضبوط کمٹمنٹ اور شفافیت کا نظام دیکھنے میں نہیں ملاجو قومی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔ بلاوجہ کی سیاسی اور عسکری ٹکراؤ او رباہمی چپقلش، کمزور سیاسی حکمت عملی اور سیاسی محاز آرائی کے ماحول نے معاملات میں بگاڑ پیدا کیا۔ حتی تک کہ سیاسی اور عسکری قیادت کی باہمی مشاورت سے طے ہونے والی اہم وفاقی اور صوبائی اپیکس کمیٹیاں بھی عملی طور پر سیاست

کی نذر ہوگئی او راس کا عملی نتیجہ عملدرآمد کے نظام میں کمزوری کا سبب بنا۔

حال ہی میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے تناظر میں ایک جائزہ رپورٹ وزارت داخلہ کو پیش کی گئی ہے۔ اس کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات میں سے چھ نکات پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ جبکہ نو نکات پر مکمل اور پانچ نکات پر جزوی عملدرآمد ہوسکا۔ اس جائزہ رپورٹ میں جن اہم امور کی خامیوں کے تناظر میں نشاندہی کی گئی ہے ان میں اول دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت روکنے کا کام غیر تسلی بخش رہا۔ دوئم کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر کام سے روکنے کے لیے بہتر اقدامات نہیں کیے گئے۔

سوئم مدارس کی رجسٹریشن کے کام میں سست روی کا مظاہرہ کیا گیا۔ چہارم فوجداری نظام انصاف کی تشکیل نو اور اصلاحات کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ پنجم انسداد دہشت گردی کے تحت قائم اداروں کو مضبوط نہیں کیا گیا۔ ششم افغان مہاجرین کی واپسی کے تناظر میں دو وزارتوں کے درمیان محاز آرائیء کی وجہ سے کام مکمل نہیں کیا جاسکا۔

جبکہ مسائل کے ساتھ ساتھ اس جائزہ رپورٹ میں کچھ مثبت پہلو بھی اجاگر کیے گئے ہیں۔ ان میں نفرت انگیز مواد کی تشہیر او راشاعت کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات، مذہبی فسادات روکنے کے اقدامات، سوشل میڈیا پر انتہا پسندی او رنفرت انگیز مواد کی تشہیر کے لیے قانون سازی او رعملدرآمد کا نظام، فوجی عدالتوں کی کارکردگی، دہشت گردوں کو سزاوں کا ملنا، فرقہ واریت او رمسلح گروپوں کے خلاف موثر کارروائی، بعض صوبوں میں دہشت گردی سے نمٹنے لیے فورس کا قیام، میڈیا کی جانب سے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش نہ کرنا، فاٹا اصلاحات او رمتاثرین کی واپسی، کراچی میں فوجی آپریشن، بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ مفاہمتی عمل اور دہشت گردی کے مراکز کا خاتمہ جیسے اقدامات میں موثر کارکردگی قابل تعریف ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ عالمی مالیاتی ٹاسک فورس کے اجلاس جو پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے کافی اہمیت رکھتا تھا اس میں اگرچہ ہم پہلے سے عائد پابندی ختم نہیں کی گئی لیکن یہ اعتراف ضرور کیا گیا ہے کہ پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے سمیت مالیاتی شفاف عمل میں مثبت انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ جو حکومت پاکستان نے حالیہ دنوں میں مختلف تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جس میں جیش محمد سمیت جماعت الدعواہ اور فلاح انسانیت فاونڈیشن شامل ہے۔

اسی طرح ان کالعدم تنظیموں کی مدد سے چلنے والے دینی مداراس، مساجد سمیت ان کی مختلف سروسز کو ریاستی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ یہ کام اب قومی سطح پر شروع کیا گیا ہے او رحکومت کے بقول اس پر کوئی سیاسی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور یہ سب کچھ کسی عالمی دباؤ نہیں بلکہ قومی مفاد کے تحت کیا جارہا ہے۔ اسی طرح جب ہم کسی تنظیم کو کالعدم قرار دیتے ہیں تو یہ عمل مصنوعی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کی مستقبل کے تناظر میں کڑی نگرانی ہونی چاہیے۔

اچھی بات ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے تناظر میں جو بھی مسائل بدستور موجود ہیں ان کے خلاف ہر سطح پر موثر کام ہونا چاہیے اور یہ عمل سب کو صاف اور شفاف طو رپر نظر بھی آنا چاہیے۔ اگرعالمی دبا وبھی ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں کیونکہ ہم نے عالمی دنیا میں بھی اس تصور کی نفی کرنی ہے کہ پاکستان بطور ریاست کسی نہ کسی شکل میں انتہا پسندی او ردہشت گردی میں کمز و ری دکھا رہا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ دنیا میں ہمارے مخالفین بلاوجہ ہمیں بدنام کرنے کے لیے بھی ایک مخالفانہ مہم چلائے ہوئے ہیں کہ ہم بطور ریاست انتہاپسندی سمیت دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔

بنیادی طور پر ہمیں فکری اور علمی محاذ پر بہت کچھ کرنا ہوگا اور خاص طو رپر اس بیانیہ کی ترویج عملی طو رپر کرنی ہوگی کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے او روہ ماضی کی غلطیوں یا غلط حکمت عملیوں سے درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ کام محض فوج یا انتظامی ادارے نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے پوری ریاست او رمعاشرہ کو اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا اور اس سوچ اور فکر کو ختم کرنا ہوگا کہ مسائل کا حل طاقت کے یا مسلح جدوجہد کے ساتھ جڑا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کے نیشنل ایکش پلان پر موثر عملدرآمد کے لیے پارلیمانی راہنماؤں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی، جو بہتر فیصلہ ہے۔ اس کمیٹی کی سربراہی وزیر اعظم یا وزیر خارجہ خود کریں گے۔ وزیر اعظم کو سمجھنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ پہلے سے موجود اپیکس کمیٹیاں کیونکر موثر انداز میں کام نہیں کرسکیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان موثر رابطہ کاری اور نگرانی کے نظام کا نہ ہونا او رقائم کی گئی کمیٹیوں کا تسلسل سے نہ ملنا جیسے امور کی موجودگی میں بہتری ممکن نہ تھی۔

اپیکس کمیٹیوں کی وفاقی اور صوبائی سطح پر فعالیت ضروری ہے۔ اسی طرح پیغام پاکستان جیسے اہم دستاویز پر بھی وفاقی اور صوبائی سطح پر موثر کام کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام محض حکومتی سطح سے باہر نکال کر سو ل سوسائٹی کی مدد سے اس کام کے پھیلاؤ اور موثر انداز میں اس کام کو آگے بڑھانے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے امکانات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ کیونکہ نیشنل ایکشن پلان اور پیغام پاکستان پر موثر انداز میں عملدرآمد کے نظام سے ہی ریاست کی بقا اور امن کی ضمانت ممکن ہوسکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).