قانون کی تبدیلی اپنی جگہ، عملدرآمد اصل مسئلہ


پہلے زمانے میں بھی ایک بادشاہ گزرا، جسے یقین کی حد تک گمان تھا کہ اس کی رعایا بہت ایماندار اور پارسا ہے۔ بادشاہ کی اس بات سے اس کے وزیر کو اختلاف تھا۔ وہ سمجھتا تھا بادشاہ جیسا سوچتا ہے رعایا ویسی نہیں ہے۔ ایک دن بادشاہ کو جانے کیا سوجھی، اس نے سوچا رعایا کا امتحان لے کر دیکھتے ہیں۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا شہر کے بیچ درمیان ایک وسیع و عریض تالاب تعمیر کرائے۔ حکم کی جب تعمیل ہو گئی تو وزیر نے اطلاع دی، حضور تالاب تو بن چکا۔

اب کیا حکم ہے؟ بادشاہ نے کہا! شہر میں منادی کرائی جائے کہ آج رات ہر شہری اس تالاب میں ایک گلاس دودھ لا کر ڈالے گا۔ صبح یہ تالاب مجھے دودھ سے بھرا ہوا چاہیے۔ سورج ڈھلا، اندھیرے نے پر پھیلائے تو شہری ایک ایک کر کے گلاس اٹھا کر آتے گئے اور اپنے حصے کا گلاس تالاب میں خالی کر کے واپس لوٹتے گئے۔ غرض رات پوری یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ صبح پو پھوٹتے بادشاہ تالاب کی طرف نکلا کہ جا کر دیکھے رعایا نے اس کے حکم پر کتنا عمل کیا۔

جب تالاب کے کنارے پر پہنچ کر اس نے جھانک کر دیکھا تو بہت حیران ہوا کہ تالاب تو سارا پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے اعتماد کو بہت دھچکا پہنچا کہ اس کی رعایا ساری بے ایمان نکلی۔ ہر شخص نے یہ سوچا کہ رات کی تاریکی میں مجھے کون دیکھ رہا ہے۔ میں دودھ کے بجائے پانی کا گلاس بھی ڈال دوں تو اتنے بڑے دودھ سے بھرے تالاب کو کیا فرق پڑے گا۔ اسی باعث صبح پانی سے بھرا تالاب بادشاہ کو ملا۔

عمران خان صاحب بھی مزاجا بادشاہ آدمی ہیں۔ صرف مزاج ہی نہیں بلکہ ان کے افکار و خیالات بھی شاہانہ ہیں۔ لیلائے اقتدار کے وصال سے قبل ان کی سوچ بھی یہ تھی اور فرمودات بھی۔ کہا کرتے تھے آج تک پاکستانی قوم اس لیے ٹیکس نہیں دیتی رہی کہ انہیں خبر ہے ان کے خون پسینے کی کمائی چند بڑے خاندان ڈکار جائیں گے۔ جس دن ملک کی باگ ڈور کسی ایماندار شخص کے ہاتھ آئی اتنا ٹیکس اکٹھا ہو گا مملکت خداداد کے لیے کاسہ گدائی کی حاجت نہ رہے گی۔

حکمرانوں کے اللوں تللوں اور عیاشیوں کے واسطے کون اپنی حلال کمائی دینے کو تیار ہو گا۔ وہ حکومت ملنے کے بعد آٹھ ہزار ارب ٹیکس اکٹھا کر کے دکھائیں گے۔ دو سو ارب ڈالرز کی جائیدادیں کرپشن کے ذریعے ملک سے باہر گذشتہ حکمران اور ان کے کاسہ لیس خرید چکے۔ وہ دنوں میں واگزار ہوں گی اور پیسہ قومی خزانے میں جمع ہو گا۔ سالانہ دس ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے اس پر تو پہلے مہینے میں قابو پا لیا جائے گا، ہمارا آدھا بجٹ خسارہ اسی سے پورا ہو سکتا ہے۔ سات آٹھ مہینے ہو چکے۔ آخری بات جو کہی، یہی اگر پوری کر دکھاتے اتنی رقم تو روک سکتے تھے جتنی ”دوست ممالک“ کے در پر کشکول لے جا کر استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی اور ہزار ہا منت ترلوں کے بعد حاصل کی۔

انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد خوش گمانی یا شوکت خانم کے ضمن میں ہوئی کامیابی کے زعم میں ایک سے زاید مرتبہ عوام سے مالی تعاون کی اپیل کی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور عمران خان دونوں نے ترغیب، تحریص، دھونس، دھمکی، لالچ غرضیکہ تمام حیلے استعمال کر لیے۔ ٹی وی چینلز اور میڈیا کو بھی کہا اشتہارات کے ذریعے ہماری اپیل عوام تک پہنچائیں۔ دلچسپ بات یہ تمام تر کوشش کے بعد اتنی رقم بھی جمع نہ ہو سکی، جتنی رقم کے اشتہارات میڈیا ہاؤسز نے حکم حاکم کی تعمیل میں خدا واسطے چلائے۔

جو قلیل رقم جمع ہوئی اس میں بھی بڑا حصہ سرکاری ملازمین کی جبری تنخواہ کٹوتی اور کورٹ جرمانوں کا ہے۔ لگتا ہے کہ اب عمران خان بھی اس بادشاہ کی طرح خیالی دنیا سے باہر آ کر زمینی حقائق سے آشنا ہونا شروع ہوئے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے تسلیم کیا کہ FBR کے نظام میں بہت سی خرابیاں ہیں اور وہ اپنا ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ کئی بار اس سے قبل بھی درویش توجہ دلا چکا ہے کہ ہمارا ٹیکس نظام بہت گنجلک ہے اور اس میں کافی پیچیدگیاں ہیں۔ جب تک اسے آسان اور عام فہم نہیں بنایا جاتا ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ممکن نہیں۔

خیر دیر آید درست آید۔ شکر ہے کہ انہوں نے اب FBR نظام کو یا پورے FBR کو ہی بدلنے کا احساس کرلیا۔ قوانین بدلنے سے بھی مگر کام نہیں چلے گا ان کا سختی سے اور بالاتفاق نفاذ اصل مسئلہ ہے۔ لہذا انہیں یہ بھی احساس ہونا چاہیے کہ قوانین بدلنے کے لیے انہیں اپوزیشن کے ساتھ کی ضرورت ہو گی، جس طرح وہ خود اور ان کے وزرا نواز شریف کی بیماری اور بلاول پر ذاتی نوعیت کے تضحیک آمیز جملے اچھال رہے ہیں، اس کے بعد اپوزیشن کی طرف سے با آسانی تعاون کی امید مشکل ہے۔

انہیں یہ بھی تلخ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے ہمارے عوام کی اکثریت بھی ایماندار نہیں۔ نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہ چکے، انہیں صحت کی سہولیات جیل میں بہم پہنچانے سے کیا افتاد ٹوٹ پڑنی تھی؟ ہمارے علاقے کا بلدیہ چیئرمین دہشت گردی کیس میں جیل میں بند ہے، اس کی سہولت کے لیے بلدیہ کے فنڈ سے پوری جیل میں سولر پینلز کی تنصیب کی گئی ہے۔ اسی بلدیہ کا معمولی مالی جو چند سال قبل تک کچھ نہیں تھا۔ نوکری لگنے کے بعد چند سال میں ڈیڑھ کروڑ کا بنگلہ بنا کر بیٹھا ہے۔

صوبائی اور ضلعی حکومت کی کشمکش میں شہر میں گٹر ابل رہے ہیں، پینے کا پانی ڈیڑھ سال سے دستیاب نہیں۔ ایک گروپ ساٹھ خاکروب بھرتی کرتا ہے، دوسرا نکال باہر کرتا ہے، جواز یہ تنخواہ کون دے گا۔ کسی کو خوف نہیں، شکایت کا کہو! دھڑلے سے کہتے ہیں۔ جاؤ اینٹی کرپشن یا نیب کو درخواست دے دو۔ بلدیہ اکاؤنٹ فریز ہو گا پچاس ہزار دے کر پھر کھلوا لیں گے۔ یہاں تک دیدہ دلیری کا عالم بلدیہ والے کہتے ہیں سب مل بانٹ کر کھاتے ہیں، ٹریژری سے لے کر آئی ایس آئی تک سب ہم سے ”مال“ لے کر جاتے ہیں۔

دوریش نے تنگ آ کر درجن سے زائد بار وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کو کال کی۔ لا تعداد میسجز کیے۔ جواب ندارد۔ مایوس ہوکر ان کے پی آر او زبیر میمن کو کال کی انہوں نے صاحب سے بات کرانے کا وعدہ کیا، اب وہ بھی فون نہیں اٹھاتے۔ جو کہتا ہے عوام گنگا نہائے ہیں وہ احمقوں کا سردار ہے یا پھر ابو المنافقین۔ الا چند ایک اچھے بھی ہوں گے مگر اکثریت ٹھگ اور بے ایمان۔ یا پھر جس کے ہاتھ کچھ نہیں لگتا وہ کہہ سکتا ہے کہ میں کرپٹ نہیں۔

بجلی کے کنڈے کون ڈالتا ہے؟ جعلی بلوں کے سوا کوئی مائی کا لعل اپنی محنت کی اصل کمائی ہی وصول کر کے دکھائے۔ کوئی طبقاتی تقسیم نہیں۔ پڑھا لکھا طبقہ بھی ایسا اور اجڈ گنوار بھی یونہی۔ صاحبان جبہ و دستار کا بھی یہ طرز عمل اور دین بیزاروں کا بھی یہی چلن۔ کچھ عرصہ قبل انکروچمنٹ کے خلاف آپریشن ہوا، کافی گھر مسمار ہوئے۔ ایک دوست لیکچرار اس کے بعد گھر بنوا رہا تھا، اسے مشورہ دیا آپ اپنی حد تک رہیں۔ گھر کے سامنے جو جگہ ہو گی وہ بھی آپ کے استعمال کی ہے۔ اس بندے نے جس کا کام بچوں کی تربیت کرنا، مشورہ نہیں مانا اور پلاٹ سے ڈیڑھ فٹ آگے تجاوز کیا۔ شرم دلائی ہنس کر کہنے لگا، دوبارہ کوئی مسمار کرنے آیا تو سفارش یا خرچی دے کر کام چلا لیں گے۔

یہ ایک تحصیل کی حالت نہیں، ملک کی مجموعی تصویر ہے۔ سوال پھر یہ ہے افاقہ کس طرح ہو۔ عمران خان کو نہیں بھولنا چاہیے وہ ریاست مدینہ کے خواب بھی دکھایا کرتے تھے۔ بنیادی قوانین میں تبدیلی تو نا گزیر ہے، تمام نظام بوسیدہ اور زائدالمیعاد ہو چکا۔ یہ مگر کافی نہیں۔ برصغیر کے عوام میں قانون کی ازخود پاسداری کے جراثیم موجود ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔ قانون پر عمل اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک تعزیرات پاکستان میں ہر ممکن حد تک اسلامی سزاؤں کو شامل نہیں کیا جائے گا۔

اس کے نفاذ کا آغاز بھی حکومت کو اپنے گھر سے کرنا چاہیے۔ عبرت کا نمونہ دکھانے کو ایک کیس اٹھالیں، پشاور میٹرو کی لاگت کئی گنا کیوں بڑھی؟ کھوج لگا کر ذمہ دار کو کڑی سزا سنائیں۔ ایاک نعبد کے بعد صراط مستقیم کا ذکر آتا ہے، یہ قوم ڈنڈے کے بغیر سیدھی چل ہی نہیں سکتی۔ ایک سال محظ اپنی انتقامی شاہانہ نفسیات کو لگام دیں، سیاسی حدت کم، اپوزیشن کو ساتھ ملائیں قانون پر سختی سے عمل کر کے دیکھیں معاشی و سیاسی تمام مسائل درست ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).