سید وقاص علی شاہ سے آخری ملاقات


دبلا پتلا درمیانے قد کے 24 سالہ نوجوان کو میں نے ویڈیوز میں تقاریر کرتے دیکھا اس کا لہجہ ایسا تھا کہ پنڈال میں بیٹھے شرکاء کہیں کھو جاتے تھے، کبھی سر پر پٹی باندھے تو کبھی کیپ پہنے وقاص شاہ اپنی گرج والی آواز کے ساتھ نہایت ہی جوشیلے انداز میں لوگوں کے جذبات کو محو کرلیتا تھا۔

سنہ 2015، یہ منگل کا روز تھا جب میری وقاص شاہ سے ملاقات ہوئی، اس سے قبل اُس سے کبھی اس طرح گفتگو نہیں ہوئی تھی، چونکہ اُن دنوں میں باصلاحیت نوجوانوں کی کھوج میں تھا تو اس لیے وقاص کا بھی انتخاب کیا جو تقریر اور الفاظ کی ادائیگی پر مہارت رکھتا تھا۔

آپ کو اس تحریر کے ذریعے ملاقات کا وہی منظر دکھانے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ معلوم ہو کہ کیسا باصلاحیت نوجوان کھو گیا اور اُس کے قاتل چار سال گزرنے کے باوجود انجام تک نہ پہنچے۔

وقاص شاہ ایم کیو ایم کے مرکزی میڈیا سیل میں اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے، اس سے قبل انہوں نے متحدہ کی طلبہ تنظیم آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں کام کیا تھا اور بہت ہی کم عرصے میں وہ مقام حاصل کیا جو پانے کی خواہش ایم کیو ایم کے ہر نظریاتی کارکن کی ہوتی تھی۔

وقاص شاہ کے ساتھ ایک اور نوجوان احسن غوری بھی ہوتا تھا جو اُس کا بہت اچھا دوست اور تنظیمی ساتھی بھی تھا، اہل خانہ کے بعد اگر وقاص کے انتقال پر کوئی بہت زیادہ رنجیدہ ہوا تو وہ احسن ہی تھا۔

یہ منگل 10 مارچ 2015 کا روز تھا، وقاص سے ملاقات ہوئی تو اُس نے ساتھ کھانا کھانے کی پیش کش کی، میں نے پہلے تو انکار کیا مگر اُس کی ضد کے آگے مجبور ہوکررضامندی ظاہر کرنا پڑی۔ نیلے رنگ کی چینز کی پینٹ اور لائنگ والی سفید شرٹ میں ملبوس وقاص شاہ ٹیبل پر میرے مقابل تھا اور میں اُس سے مختلف سوالات کررہا تھا۔

دورانِ گفتگو میں نے ازراہِ مذاقاً کہا کہ ”آپ مستقبل کے رہنما ہیں“ کیونکہ مجھے اُس کے اندر ایسی صلاحیت نظر آئی جس سے اندازہ ہوا کہ آئندہ برسوں میں متحدہ اُسے صوبائی یا قومی اسمبلی کا ممبر بنادے گی۔ سید وقاص علی شاہ نے میری بات سنی اور مسکراتے ہوئے جواب دیا ”مجھے کسی چیز یا پذیرائی کا کوئی شوق نہیں، ہاں خواہش بس ایک ہے کہ جس پر کھڑا ہوں اُسی پر رخصت ہوجاؤں ٗ۔

یہاں وقاص نظریاتی وابستگی کی بات کررہا تھا کیونکہ اُن دنوں کراچی آپریشن اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری تھا اور ایم کیو ایم کے کئی لڑکے لاپتہ یا زیر حراست تھے۔

بات چیت اچھے انداز میں ہوئی، ملاقات ختم ہوئی اور پھر میں اپنے دوسرے کام سے روانہ ہوگیا، رات گھر پہنچ کر سویا 11 مارچ کی صبح اٹھ کر معمول کے مطابق واٹس ایپ پر ایک صحافی دوست کا میسج دیکھا کہ ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپہ پڑا ہے، ٹی وی کھولا تو دیکھا کچھ لوگ مکا چوک کے باہر کھڑے احتجاج کررہے ہیں کیونکہ ساری گلیوں میں داخلہ ممنوع تھا اور سیکیورٹی بہت سخت تھی جبکہ کئی چیلنز نے یہ بھی دکھایا کہ بہت سارے لوگوں کو آنکھوں پر پٹی باندھے جناح گراؤنڈ کی دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھایا ہوا ہے۔

اسی دوران ایک اور اطلاع موصول ہوئی کہ وقاص کو گولی لگ گئی، کچھ دیر بعد ویڈیو سامنے آئی تو دیکھا وقاص شاہ زمین پر لیٹا ہوا تھا اور جسم اُس کا ٹھنڈا ہوچکا تھا تسلی کے لیے اُسے عباسی شہید لے جایا گیا مگر بہت دیر ہوچکی تھی ڈاکٹر نے صرف سوری کا لفظ کہہ کر دونوں پیروں کے انگوٹھے باندھے اور منہ پر کپڑا ڈھک دیا، پھر تو ایک کہرام مچ گیا کوئی مقتول کو جھنجھوڑ رہا کہ اٹھ جاؤ، تو کوئی دھاڑیں مار کر یہ کہتا سنائی دیا ایسا نہیں ہوسکتا۔

موت اٹل حقیقت ہے جسے کوئی نہیں ٹال سکتا مگر میری نظر میں کامیاب زندگی وہ ہے جس کا اختتام انسان کے طے کردہ ضابطے پر ہو جیسا وقاص نے دوران ملاقات کہا تھا کہ ”جس پر کھڑا ہوں اُسی پر رخصت ہوجاؤں“۔

وقاص کی شہادت (موت) کو چار سال کا عرصہ بیت گیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک شخص آصف علی کو سندھ کے شہری علاقے سے حراست میں لیا، دعویٰ کیا گیا کہ وہی قاتل ہے کیونکہ وہ پستول لے کر آیا تھا اور موقع ملتے ہی گولی چلا دی، انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 8 اگست 2016 کو ملزم کو پھانسی اور 7 برس قید کی سزا سنائی مگر مقتول کے اہل خانہ نے اس سزا کو انصاف قرار نہیں دیا۔

آصف نے اے ٹی سی کے فیصلے پر صحت جرم سے انکار کیا اور سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

وقاص ایک کہانی ختم ہوئی، باصلاحیت نوجوان دنیا سے رخصت ہوا، اُس کا اختتام اپنے عہد پر ہوا، اب کوئی ذکر کرے یا چھپائے مگر یہ دستور اور قانون ہے کہ عہد سے جڑ کر رخصت ہونے والے لوگ مرتے نہیں امر ہوجاتے ہیں اور رہتی دنیا تک کسی نہ کسی صورت اُن کا نام زندہ رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).