عورتیں تو ظلم نہ کریں


ہندوستان کی تہذیب و ثقافت صدیوں سے ایک کام تواتر کے ساتھ کرتی چلی آئی ہے اور وہ کام ہے عورت کی تذلیل۔ عورت کو ستی کرنے کی رسم سے لے کر ساری ساری عمر بیوگی میں گزارنے کی روح فرسا روایات برصغیر کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ روایات آج بھی اس ظالم، بدمعاش اور بدکردار معاشرے کا منفی چہرہ ہیں۔ اسلام، بدھ ازم اور بابا گرونانک ان رسومات کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ یہ معاشرہ جو ہندو، بدھ، سکھ اور دیگر مذاہب میں تقسیم ہے لیکن عورت کی تذلیل میں یکجا ہے۔ حالانکہ برصغیر میں ان مذاہب کے جانکاروں نے ان رسومات کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی ہے لیکن یہ بدمزاجی اور بدمزگی شاید ہمارے ڈی این اے تک سرائیت کر چکی ہے۔

اسلام کی آمد سے قبل گلف میں عورت کا کردار مرد کا بستر گرم کرنے تک محدود تھا۔ بیٹی کی پیدائیش پر باپ کی غیرت یہ تقاضا کرتی تھی کہ اسے قتل کردیا جائے۔ اسے قتل کردیا جاتا تھا۔ اس بدفعلی پر کسی کو شرمندگی نہیں ہوتی تھی۔ اسی معاشرے نے جب کروٹ بدلی تو فاطمہؑ جنت کی عورتوں کی سردار بنی۔ ماں کے قدم جنت کے پھول بن گئے۔ بیوی کو شوہر کے متوازی اختیارات ملے۔ بیوہ کی شادی مقدم ٹھری۔ آج کی عورت کا نعرہ ”ماروگے تو مار کھاؤ گے“ اس وقت جائیز قرار پایا۔

عورت پر ہاتھ اٹھانا قطعی طور پر پسندیدہ فعل نہ ٹھرا۔ ایک روایت کے مطابق ام المومنین حضرت حفصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برابر کا جواب دیا کرتی تھیں اور آپ خندہ پیشانی سے برداشت فرماتے۔ حضرت عمر کو علم ہوا تو حفصہ ؛جو آپ کی بیٹی تھیں، کو ڈانٹا۔ عورت کو ورانثت کا حق سب سے پہلے اسلام نے دیا۔ ”میرا جسم میرا ہے“ کا نعرہ لگانے والوں کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ مغرب کا آزاد معاشرہ بھی اس نعرے کو من و عن قبول نہیں کرتا۔

ایک سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات یورپ کے کسی ملک میں قانونی حیثئیت نہیں بنا پائے۔ اس طرح کی عورت کو سیکس ورکر کہا جاتا ہے اور اس کے لئے لائسنس لینا پڑتا ہے۔ تمام عورتیں چاہے وہ مارلن منرو یا مونالیزا ہی کیوں نہ ہوں، سیکس ورکر بھی نہیں بن سکتیں۔ سیکس ورکر کو ہیپاٹائٹس اور ایڈز کے علاوہ کئی اور جنسی بیماریوں سے پاکیزگی کا سرٹیفکیٹ دینا پڑتا ہے تب کہیں سیکس ورکر کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے۔ یورپ میں اس سرٹیفکیٹ کے بغیر ”میرا جسم میرا ہے“ نہیں چل سکتا۔

شخصی آزادیاں بھی قانون کے دائرے میں مقئید ہوتی ہیں۔ مجھے اختیار ہے کہ میں اپنی مرضی کا میوزک سنوں۔ کلاسیکی سر تال پر سر پٹکوں یا انگلش میوزک پر ڈانس کروں لیکن یہ حق مجھے نہیں کہ میں ایسا غل غپاڑہ کروں کہ دوسروں کی نیند حرام ہو جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وصلم کے پاس ایک عورت نے اقرار گناہ کیا تو آپ نے درگزر فرمانے کی کوشش کی۔ عورت نے اصرار کیا اور اقبال جرم کرتے ہوئے سزا کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم حاملہ ہو۔ اس حالت میں سزا نہیں دی جا سکتی۔ اس بچے کو جنم دو پھر آنا۔ وہ عورت چلی گئی۔ کئی مہینے بعد پھر آئی اور سزا کا مطالبہ دہرایا۔ آپ نے پھر سزا دینے سے انکار فرمایا۔ آپ نے اس عورت کو حکم دیا کہ ابھی اس بچے کا آپ پر حق ہے۔ اسے دودھ پلاؤ۔ ابھی اس بچے کی وجہ سے آپ کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ جب اس بچے کو دوددھ چھڑاؤ تو پھر آنا۔ یہ حقوق عورت کو ہمارے دین اسلام نے چودہ سو سال پہلے دیے ہیں۔ اس سے زیادہ حقوق اور کون دے سکتا ہے۔ لیکن برصغیر کا معاشرہ کسی بھی مذہب کو ماننے کی بجائے صدیوں پرانی رسومات کی غلامی کرتا نظر آتا ہے۔

آج کی عورت کہیں مظلوم ہے تو کہیں خود اپنی ہی ہم جنس پر ظالم۔ لاہور میں عظمے ٰ کا قتل ایک عورت نے ہی کیا۔ سویرا اور سمیرا بھی عورت کے تشدد کا شکار ہوئیں۔ ایک عورت نے اپنی ہی بہن کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔ آج اسقاط حمل کی سب سے بڑی وجہ الٹراساونڈ ہے جو بیٹی کی پیدائیش سے پہلے ہی حاملہ کو بتا دیتا ہے کہ لڑکی پیدا ہو گی۔ اسقاط، عورت خاندان کی مرضی سے یا صرف اپنی مرضی سے غیر قانونی طور پر کرواتی ہے۔ بیٹی کا پیدائیش سے پہلے ہی قتل؛ عام ہوتا جارہا ہے۔ اس عمل میں کئی مائیں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی جہالت کے خلاف آواز اٹھائی جائے جو عورت کے حقوق کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ یاد رکھیں مادر پدر آزادی نہ کوئی مذہب برداشت کرتا ہے نہ ہی قانون۔ کوئی مہذب معاشرہ اس طرح کی آزادی کا حامی نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).