چھوٹی سی رشوت


گذشتہ دنوں پاسپورٹ بنوانے کی ضرورت پیش آئی۔ تو مجھے بھی وہی کام کرنا پڑا جس کام کی ہمیشہ مخالفت کی۔ دل سے برا جانا بلکہ شجر ممنوعہ سمجھا۔ اتنا برا سمجھا کہ اس کی مخالفت میں بول بول کر تھک گئی۔ کئی بار اس کے خلاف لکھا، دوسروں کو تلقین کی کہ اس پہ خاک ڈالئے، یہ غلط کام ہے، ایسا مت کریں۔ شارٹ کٹ مت ڈھونڈیں۔ لیکن سچ ہے کہ جس تن لاگے سو تن جاگے۔ جی تو قصہ کچھ یوں ہے کہ پاسپورٹ بنوانے جب پاسپورٹ دفتر پہنچے تو دفتر کے باہر مرد و زن کی لمبی قطار دیکھ کر حواس جاتے رہے۔

یوں لگا ہمارے پاسپورٹ بنوانے کی مخالفت میں سارا شہر اکٹھا کیا گیا ہے تا کہ ہم بیرون ملک نہ جا سکیں۔ کہ ہو سکتا ہے شہر کی رونق ہم ہی سے ہو۔ اتنی لمبی قطار میں بھلا ہم۔ جیسے کہاں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ کہ اب اقبال کے شاہینوں کے کرنے کے کیا یہ ہی چھوٹے کام رہ گیاہے۔ سو ہم شاہینوں کی لاج رکھتے واپس آگئے۔ واپسی پہ اپنے کسی جاننے والے سے رابطہ کیا کہ ہماری مشکل آسان کرنے میں مدد کی جائے۔ کہ لمبی قطار میں کھڑے ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن۔

بھی ہے اور ہم جیسے سہل پسند کہاں کٹھنائیوں سے آشنا ہوتے پھریں۔ اب اس دوست کا بھلا ہو جس نے بھروسے کے پاسپورٹ ایجنٹ کا رابطہ نمبر دیا۔ اس سے فون پر ہی ساری بات طے ہوگئی۔ ہم طے کردہ دن اس کے پاس پہنچے۔ شناختی کارڈ نمبر دیا اور کچھ رقم۔ جس میں سے کچھ رقم۔ اس نے بینک میں جمع کروائی اور باقی کی اپنی جیب میں جمع کرلی۔ جو بعد میں پانچ لوگوں میں تقسیم کی گئی۔ ضرب تقسیم تو سنا تھا۔ جمع تقسیم۔ پہلی دفعہ دیکھا۔

اب وہ مرحلہ بھی آن پہنچا جو ہمیں جان لیوا لگا تھا۔ لیکن حہرت کی بات کہ جان کنی کا عالم۔ آیا ہی نہیں اور ہم اس سارے عمل سے بخریت و عافیت گزر گئے۔ پاسپورٹ کی فیس شاید تین ہزار تھی اور ہم نے دو پاسپورٹ بنوانے کے کل آٹھ ہزار چارسو دیے۔ فی پاسپورٹ اس ایجنٹ کو بارہ سو روپے ملے۔ میرے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ ہم پانچ لوگ حصہ دار ہیں۔ جن میں یہ رقم بٹے گی۔ جس میں اس کے علاوہ پاسپورٹ دفتر کے اندر کے لوگ بھی شامل ہیں اب ایک پاسپورٹ پر فی شخص کتنا کما سکتا ہے۔

میرے حساب سے تو دو ڈھائی سو سے زائد حصہ میں نہیں آسکتے۔ تو اوپر کی کمائی سے کتنا کما لیا۔ اسی طرح کا ایک چھوٹا سا نظارہ بڑے شہر کے سرکاری ہسپتال میں بھی دیکھنے کو ملا۔ جہاں مریضوں کی پرچی کے حصول کے لئے لمبی قطاریں تھیں۔ ان میں ہر کوئی جلدی میں تھا۔ کہ ہم۔ سب کو جلدی ہوتی ہے کہ ہم سب اکثر بہت ضروری کام چھوڑ کے آتے ہیں۔ یہ جلد بازی اکثر ریلوے پھاٹک کے بند ہونے پر بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ جب پھاٹک بند ہو گاڑی آرہی ہو اور ہم جان پہ کھیل کے ریلوے لائن کراس کرتے ہیں کہ ہمارے ادھر کھڑا رہ جانے سے ریلوے پھاٹک کے پار آم کی ریڑھی والا آگے نہ چلا جائے جو سستے آم فروخت کر رہا ہے۔

اب ہم۔ منیر نیازی تو ہیں نہیں جو ہمیشہ دیر کردیں اور اس پر شرمندہ بھی نہ ہوں۔ بلکہ دیر کرنے پر سینہ تان کے اعلان کرتے پھریں ہاں میں ”ہمیشہ دیر کردیتا ہوں“ اور اپنی کاہلی کو شعری اصطلاح میں ڈھال کر عوام الناس کو بالخصوص نوجوانوں کو تاخیر کرنے کا درس دیتے پھریں۔ اور پھر کوئی دوسرا شاعر انھیں اس دیر کے جواز بتاتا پھرے کہ کہہ دیں ”ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ میرے خیال میں ایسے شعروں بلکہ شاعروں پر بھی پابندی لگنی چاہیے جو نوجوانوں میں کاہلی کی امنگ جگاتے پھریں۔

ہم تو اقبال کھ شاہین ہیں۔ سو ہم دیر کی بجائے جلدی کے چکر میں رہتے ہیں۔ اور ایسے ہی جلد بازوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ایسی ہی کئی۔ جلد باز خواتین ہسپتال میں پرچی کے جلد حصول کے لئے لائن۔ توڑنے میں مصروف تھیں۔ اور سیکورٹی سٹاف دبنگ آواز میں بار بار ان کو ڈانٹ کر لائن میں کھڑا کرتی۔ ایک خاتون منمنائی اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولی باجی میری طبیعت خراب ہے لیکن آپ کہو تو میں پیچھے ہو جاتی ہوں۔

سیکورٹی سٹاف بھی خاصی نرم دل ثابت ہوئی۔ جھٹ سے اس پر ترس کھایا اور اس کو پیچھے بٹھادیا۔ اب کی بار اس سیورٹی سٹاف کے ماتھے کے بل۔ بھی غائب ہو چکے تھے ان دو وقتوں میں ہمیں رشوت کے اصل اور ضروری فوائد و حقائق پتہ چلے کہ کچھ جگہوں پر رشوت لینا اور دینا کیوں ضروری ہے۔ بھئی ظاہر ہے کسی کا کام جلد ہو جاتا ہے اور کسی کے گھر کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ یقین کیجیئے اس دن سمجھ آیا کہ رشوت کے خلاف باتیں کرنا، ڈسپلن کے لئے دوسرے ملکوں کی مثالیں دینا بہت آسان ہے۔کہ جی فلاں ملک مین رشوت نہیں لی جاتی۔ فلاں ملک میں اتنا ڈسپلن ہے کہ لوگ گھنٹون قطاروں میں کھڑا رہتے ہیں۔ کوئی رشوت نہیں لیتا، سب باری کا انتظار کرتے ہیں۔ دھکم۔ پیل ہوتی ہے، سفارش چلتی ہے نہ رشوت۔ یہ سب باتیں سننے میں تو بہت اچھی لگتی ہیں۔ اور یوں لگتا ہے کہ جانے وہ کیسے ممالک ہوتے ہوں گے جہاں یہ خوبصورت نظارے ملتے ہیں۔ جہاں کے شہری اتنے مہذب ہیں۔ لیکن۔ حقیقت میں جن ممالک۔ کے بارے ایسی باتیں کی جاتی ہیں ان ممالک اور اپنے پیارے وطن کا تقابلی۔

جائزہ لیا جائے تو بہت سے در وا ہوتے ہیں۔ ان۔ ممالک میں کام کرنگ والوں کی تنخواہیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ انھیں رشوت لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ دوسرا ان ممالک میں بچوں کی ساری کفالت حکومت کے ذمہ ہوتی ہے۔ جس کی۔ وجہ سے والدین بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے پریشان۔ نہیں ہوتے۔ گویا سرکاری سطح پر ان۔ لوگوں مالی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ جہاں تک قطار کا تعلق ہے تو ان ممالک میں ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جنھیں وہ لوگ اپنی جگہ قطار میں کھڑا کر دیتے ہیں۔

جو معاوضہ لے کر ان۔ کی۔ جگہ لائن میں لگ جاتے ہیں۔ اور باری انے کے قریب وہ ان افراد کو کال کر کے بلا لیتے ہیں جن کے لئے وہ لائن میں لگے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو لوگ اپنا کام۔ نکلوانے کے لئے رشوت یا سفارش کو ترجیح دیتے ہیں ان۔ کی اصل وجوہات اور ان وجوہات کا حل ڈھونڈنے کج ضرورت ہے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر یا اخبارات میں اس کے خلاف لکھنا یا ویسے اس پر بات کرنا بڑا آسان ہے۔ ایسے خوبصورت اعتراضات کرنے میں ہم مہارت رکھتے ہیں۔

لیکن ان اعتراضات کے حل ڈھونڈنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ جیسا کہ رشوت کے لئے بدنام تو پولیس ہے۔ لیکن کیا باقی محکموں کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں۔ بلکہ پولیس والوں کو تو اس زیادتی کے خلاف آواز ا ٹھانی چاہیے جو ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ کہ رشوت تو ہرمحکمہ لیتا ہے۔ لیکن بدنام صرف وہ اکیلے۔ انھیں اس نا انصافی کے لئے میڈیا پر آواز اٹھانی چاہیے کہ اس حمام میں وۂ اکیلے ننگے نہیں۔ انکم ٹیکس والے بھی کچھ کم۔ نہیں۔

بلکہ اینٹی کرپشن کا ادارہ بھی اس معاملے میں خاصا متحرک ہے۔ تو پھر بدنامی کا یہ طوق صرف پولیس کے گلے کیوں۔ پولیس والوں کو تو ہر اس محکمے ہر اسبندے پرنظر رکھ کر انھیں دنیا کے سامنے ایکسپوز کرنا چاہیے جو ان کے علاوہ رشوت تو لیتا لیکن بدنام نہیں۔ انھیں بتانا چاہیے کہ ہر کوئی حسب توفیق، حسب حال اس سہولت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ دیکھیں صاگبات ہے کہ۔ گزر بسر ے و کرنی ہے نا اب لازم۔ تونہیں کہایڑیاں رگڑ رگڑ کرزندگی گذاری جائے، سسک سسک کرمرجائیں۔

یہ کیا بات ہوئی کہ اکیسویں گریڈ کے افسر کو تو ہر سہولت مل گئی۔ پٹرول سے لے کر گھر کے بلوں تک اس کا حکومت ادا کرے اس کا اور اس کے خاندان کا اے سی کے بنا گذارا نہ ہو اور نویں یا چوٹھے گریڈ کا ملازم بجلی کا بل ادا کرنی سکت نہ۔ رکھنے کی وجہ سے پنکھے کی ہوا کو بھی ترس جائے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کائن میں لگنے کی۔ بات ے و سبھی کریں کہ ڈسپلن ہونا چاہیے لیکن صاحب کے دوست یاعزیز و اقارب کے لئے قانون کی دھجیاں بکھیر دی جائیں۔

جب صاحب کے عزیز و اقارب کے  لئے قانون توڑا جز سکتا ہے تو پھر قانون شکنی کا یہ اصول سب کے لئے ہونا چاہیے کہ انصاف تو پھر سب کے لئے ہونا چاہیے۔ ورنہ انصاف کی۔ بات مت کریں۔ لیکن سچ پوچھیے تو محکمہ کوئی بھی ہے رشوت کے بنا یہاں گذارہ نہیں۔ یہ اصل میں ہم۔ لوگوں کا حق ہی جو ہم وصول کرتے ہیں بس حق کی وصولی کے لئے انگلی ذرا ٹیرہی کر لیتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).