یہ آگ صرف لبرل آنٹیوں نے لگائی ہے


غضب خدا کا، اِن لبرل آنٹیوں نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جس بے حیائی کا مظاہرہ کیا۔ ہم مَردوں کی غیرت کو للکارتے ہوئے ایسے ایسے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس نے ہمارے غم و غصے کو بہت بڑھاوا دیا ہے۔

آخر ایسی کون سی آفت آ گئی ہے جو اِن گمراہ خواتین نے آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے؟ یہ ”عورت مارچ“ و دیگر خرافات اِن کی کوتاہ فہمی کا نتیجہ ہیں ورنہ حالات بھی نارمل ہیں اور ہم مَردوں کے عورتوں پر احسانات بھی بے شمار ہیں۔

سب سے پہلے تو ”عورت مارچ“ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی پست کردار خواتین کو اس بات پر ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہم نے اِن کی جنس، قبل پیدائش جانتے بوجھتے ہوئے بھی اِن کو پیدا ہونے دیا۔ ہم مرد چاہتے تو الٹراساؤنڈ رپورٹ میں ”لڑکی“ کا پتہ چلتے ہی اِن کی ماؤں کا ابارشن بھی کروا سکتے تھے۔ نہ رہتا بانس، نہ بجتی بانسری۔ اور یہ امر ہمارے واسطے کوئی مشکل بھی نہیں تھا۔ عالمی ادارہ صحت کی 2017 کی رپورٹ پڑھ کے دیکھ لیں۔ ہم پاکستانی برِاعظم ایشیاء میں لڑکیوں کی پیدائش سے قبل اموات (prenatal deaths) میں پہلے نمبر پر ہیں۔ ہماری اعلٰی ظرفی ہے کہ ہم نے اِن لڑکیوں کو پیدا ہونے دیا۔

اس کے بعد اِن بے لگام، آزاد خیال خواتین کو ہمارا شکرگزار ہونا چاہیے کہ ہم نے اِنہیں تعلیم جیسے زیور سے آراستہ ہونے کا موقع دیا۔ اگر ہم نے اس اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو یہ بھی ارضِ پاک کی اُن باون فیصد خواتین میں سے ہو سکتی تھیں جو اپنا نام تک لکھنا نہیں جانتی ہیں۔

اِن تیز آوازوں والی خواتین کی ناعاقبت اندیشی ہے جو خواہش رکھتی ہیں کہ انہیں ملازمت اور فیصلہ سازی کے برابر مواقع ملیں۔ یعنی کہ اب ”پاؤں کی جوتی“ سر پہ آنا چاہتی ہے؟ ایسے مطالبات کرتے ہوئے یہ خواتین کیوں بھول جاتی ہیں کہ ہم نے انہیں مالی فوائد والی ملازمت دے کر کبھی نہ اُترنے والا احسان کیا ہے۔ اگر اِن مُٹھی بھر خواتین پر یہ نظرِ کرم نہ کرتے تو یہ بھی اپنی صنف کی باقی 84 فیصد کی طرح ہوتیں جو بغیر کسی معاوضے کے سارا دن گھر کے کام کاج کرتی ہیں اور رات بھر شوہروں کی تھکان اتارتی ہیں۔

اِن میں لاتعداد خواتین ایسی بھی ہیں جو گھر کے کام کاج، بچوں کی پیدائش، نگہداشت وغیرہ کے علاوہ اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ اینٹوں کے بھٹوں یا کھیتوں میں سخت مشقت والا کام کرتی ہیں۔ ہم نے تو اُن کو کبھی پُھوٹی کوڑی نہیں دی اور یہ پُرسکون دفتروں میں بیٹھ کر کام کرنے والیاں برابر کی تنخواہ مانگ رہی ہیں۔ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر برابر کے مواقع چاہ رہی ہیں۔ اور حد تو یہ ہے، مطالبہ ہے کہ انہیں میٹھی میٹھی نظروں سے نہ دیکھیں، ذو معنی، رنگین ذوق والے جُملے نہ کہیں۔

شام کی چائے یا رات کے کھانے کی آفر نہ کریں۔ ہماری دریا دلی اور چوری چُھپے کے اِس دل گداز رویے کو ”ہراسمنٹ“ کا نام دیتی ہیں۔ اِن ناعاقبت اندیش خواتین کو چاہیے کہ اگر قسمت کی یاوری سے انہیں ہمارے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے تو نہ صرف صبر شکر سے میسر تنخواہ کو زیادہ جانیں بلکہ ساتھی مرد حضرات کی ”چھوٹی موٹی“ باتوں اور حرکتوں کو ہنسی میں اُڑا دیا کریں۔ آخر کو عورت کا اصل کام مرد کو سکون پہنچانا ہی تو ہے۔

اِن خراب دماغ والی خواتین کو ہمارے پاؤں دھو دھو پینے چاہیے کہ ہم نے اِن کا نکاح قُرآن سے نہیں کر دیا۔ یا پھر ونی، سوارہ، کاروکاری جیسی اعلٰی اقدار والی روایتوں میں استعمال نہیں ہونے دیا جب کہ ہم مَرد الحمدللہ ایسا کرتے آئے ہیں اور اگر اِن آزاد خیال بدکردار خواتین نے ہمارا راستہ نہ روکا تو آئندہ بھی ایسا کرتے رہیں گے۔ اِن بدتمیز عورتوں کی مزید خواہش ہے کہ انہیں وراثت میں قانونی حصہ درکار ہے۔ یہ کیوں نہیں سمجھ رہیں کہ جب ہم نے اِن کی پرورش اور بیاہ پر لاکھوں خرچ کر دیے تو جائیداد میں حصے کی باقی رہ گئی؟ اگر اِن زبان دراز خواتین کی دلیل یہ ہے کہ پرورش اور شادیوں پر خرچ تو ہم مردوں کے بھی ہوتے ہیں تو کان کھول کر سُن لیں کہ ہم تو خاندان کے نام کے وارث ہیں، یہ عورتیں تو پرایا دھن ہے۔ بس جو مل گیا، صبر شُکر کے ساتھ قبول کریں۔

یہ ”عورت مارچ“ والی اخلاق باختہ عورتیں مرضی کی شادی، ازدواجی تعلقات میں رضامندی، اور خلع کا قانونی حق بھی چاہتی ہیں۔ ایسے مطالبات کرتے ہوئے یہ بھول جاتی ہیں کہ ہم مرد تو وہ شجاع مخلوق ہیں جو رشتہ دینے سے انکار کرنے پر لڑکیوں کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا کرتے ہیں۔ اِن کے چہرے سلامت ہیں تو ہر ہر سانس کے ساتھ ہمارا دم بھریں۔

یہ دُنیا آج سے نہیں ہے، ہزاروں برس سے چلتی آئی ہے اور چلتی رہے گی۔ معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اصل مسئلہ صرف لبرل آنٹیوں کا ہے جنہیں اس دُنیا میں آنے کا موقع ملا، اچھی تعلیم میسر آ گئی، معاشی خودمختاری مل گئی، اور انگریزوں کی تہذیب سے آشنا ہو گئیں تو اب ہم انا پرست، عزت دار، اونچے شِملے والے مردوں کو للکار رہی ہیں ورنہ لڑکیوں کی پیدائش روکنا، تعلیم نہ دینا، ملازمت نہ کرنے دینا، ملازمت کے برابر مواقع نہ ملنا، تنخواہ کم ملنا، ساتھی کولیگز کا تھوڑی بہت ”رنگبازی“ کرنا، وراثت میں حصہ نہ ملنا، شادی بیاہ کے معاملات اور بعد ازاں ازدواجی تعلقات میں رضامندی شامل نہ ہونا ایسے بڑے مسائل بھی نہیں ہیں جن کے لیے اِن گمراہ خواتین کو اکٹھے ہو کر ”عورت مارچ“ کرنا پڑے۔

محبتیں، عقیدتیں،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).