”عورت مارچ“ عام عورت کے لیے تضحیک کا سامان ہے


گزشتہ برس 8 مارچ کو پاکستان کی خواتین نے انٹرنیشنل ویمن ڈے کی مناسبت سے عورت مارچ کا انعقاد کر کے اپنی طرز کی اچھوتی اور منفرد تاریخ رقم کر دی۔ پاکستان کے چند بڑے شہروں میں عورت مارچ کے نام سے چند منظم اجتماعات ہوئے اور خواتین نے اپنے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا۔ پاکستان جیسے معاشرے میں رہتے ہوئے قابل حیرت چیز یہ مطالبات نہیں تھے بلکہ خواتین کے وہ پلے کارڈز تھے جو مارچ کے دوران انہوں نے تھام رکھے تھے۔

ان میں سے چند پلے کارڈز جو تقریباً پورا سال ہی مذاق اور تضحیک کا نشانہ بنتے رہے ان پر درج تحریر کچھ یوں تھی۔ ”میرا جسم میری مرضی“، ”اپنا کھانا خود گرم کر لو“، ”خواتین تمہارے باپ کی جاگیر نہیں“ وغیرہ وغیرہ۔ نتیجتاً پاکستانی معاشرے کا ہر فرد جو ہر معاملے میں اپنی رائے دینا انتہائی ضروری سمجھتا ہے نے اس ایشو پر بھی خوب کھل کے ریمارکس دیے۔

کسی نے عورت مارچ میں شریک خواتین کو آوارہ، بدچلن اور بے راہ روی کا شکار کہا تو کوئی بولا مذہب سے دوری نے ان کو حقیقت سے کہیں دور لا کھڑا کیا ہے۔ وہ جو خود کو کچھ زیادہ ہی باخبر گردانتے تھے گویا ہوئے یہ تو ہمیشہ کے جیسے یورپ کی سوچی سمجھی سازش ہے، یہ سب خواتین این جی او مافیا سے ہیں جن کے اپنے درینہ مقاصد ہیں جو ایسے الٹے سیدھے مظاہروں سے ہی حاصل ہوں گے۔ کچھ کہنے لگے اس مارچ میں اکثر شریک لوگ معصوم ہیں وہ جانتے ہی نہیں مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے ان کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس بار جوں جوں 8 مارچ قریب آ رہا تھا چند کولیگز اور دوستوں کی جانب سے تواتر سے چند میسجیز ملنے لگے جن کا لب لباب یہ تھا کہ عورت مارچ میں بھرپور شرکت کیجیے اور یہ میسج آگے پھیلائیے تاکہ مارچ میں زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھا ہو سکیں۔

میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں فیمنزم بہت خوبصورت سکول آف تھاٹ ہے۔ پاکستان ایسے معاشرے میں جہاں خواتین آج پہلے کی نسبت زیادہ تعداد میں باہر نکل کر کام کر رہی ہیں ان کے حقوق کی آگاہی اور تحفظ کے لیے بھی زیادہ آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مگر اس بار پھر عورت مارچ کے نام پر چند مخصوص لوگوں نے مل جل کر خوب پکنک منائی، باعث تشویش ضرور تھا مگر باعث حیرت نہیں کہ اس بار مارچ کے شرکاء کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز گزشتہ برس کی نسبت زیادہ ترش و تلخ تھے۔

8 مارچ کا سارا دن سوشل میڈیا پر عورت مارچ کے شرکاء کے نام رہا۔ لوگ ایک ایک کر کے عورت مارچ سے لی گئی تصویر اپلوڈ کرتے رہے اور اس کا پوسٹمارٹم بھی جاری رکھا۔ چند لوگ تواتر سے مذاق اڑاتے رہے اکثریت غم و غصّے کا اظہار کرتی رہی۔ یقیناً تبصروں کا یہ سلسلہ ایک دن پر موقوف نہیں ہے عورت مارچ پر چھڑنے والی یہ بحث کئی دن جاری رہے گی۔

اس ساری کھینچا تانی میں اصل ایشو کہیں دب کر رہ جائے گا۔ غیرجانبدار ہو کر دیکھا جائے تو عورت مارچ میں شریک خواتین کے حلیے ان کے پلے کارڈز سے میل نہیں کھاتے۔ ظاہر ہے ان کو مساوی حقوق حاصل ہیں تو ایسے پلے کارڈ لیے لیے پھرنے کی اجازت ہے۔ ممکن ہے یہ کلاس کا فرق بھی ہو۔ مگر اس مارچ کا اصل مقصد تو وہ خواتین تھیں نا جو سہمی گھروں میں بیٹھی ہیں، جن کو بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں، یا وہ خواتین جو کسی نہ کسی مجبوری کے تحت جاب کرنے نکلتی ہیں مگر ان کا استحصال ہوتا ہے یا ان کو ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عورت مارچ کے شرکاء حقوق کا مطالبہ کرتے اس قدر انتہا پر چلے جاتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں حقوق اور فرائض ایک ہی سکے کے دو روخ ہیں۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں ”رشتے“ اور ”حقوق“ پاکستانی معاشرے میں الگ الگ نہیں ہیں۔ وہ کیسے خواتین کو ترغیب دیتے ہیں کہ اپنے لیے تو حقوق مانگو مگر فرائض کے طور پر دیگر رشتوں کے حقوق سے ڈٹ کر انکاری ہو جائیں؟

عورت مارچ کے شرکاء شاید یہ حقیقت بھی جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں کہ تبدیلی لانے کے لیے کسی معاشرے کے نظریات اور عقائد کو یکسر بھلایا نہیں جا سکتا، لوگوں کے معاملات اور اطوار سے متصادم قوانین اسمبلی سے پاس ہو کر بھی نافذ نہیں ہو پاتے کیونکہ لوگوں کے رویے اس کو قبول نہیں کرتے، معاشرتی روایات سے بغاوت کر کے عورت مارچ تو منعقد ہو سکتا ہے مگر اس کے مثبت نتائج ملنا دیوانے کے خواب جیسا معاملہ ہے۔

مارچ کے شرکاء شاید یہ بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ عام گھریلو خواتین جن کے حقوق کے نام پر وہ مارچ کر کے انٹرنیشنل میڈیا تک کی کوریج لے لیتے ہیں عام خواتین جو گھروں میں اس مارچ کے طعنے دیے جاتے ہیں، لوگ مذاق اڑاتے ہیں، کوئی ذرا بھی اپنے حق کے لیے بولنے کی کوشیش کرے تو اس کی آواز یہ کہہ کر دبا دی جاتی ہے تم کر کیا سکتی ہو؟ زیادہ سے زیادہ اگلے سال کسی مارچ میں پلے کارڈ اٹھائے کھڑی ہو جاؤ گی۔ کوئی مانے یا نا مانے ان مارچ کو لے کر عمومی تاثر یہ بنتا جا رہا ہے کہ اگر حقوق اور آزادی کا مطلب ویسٹرن ڈریس میں ملبوس ہو کے بے ڈھنگے پلے کارڈ کے ساتھ کسی چوک میں کھڑے ہونا ہے تو بہتر ہے حقوق سلب کر لیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).