گمشدہ کہانیاں


کس شخص کا درد تمہیں بتائیں۔ سمجھائیں کیونکہ تم سے ہمارا رشتہ صرف درد دینے کا ہے۔ اور میرے وہ سب لوگ جن سے درد سہنے کا رشتہ ہے میں آج ان کی بات کروں گا۔ آج میں تمہیں بتاؤں گا کہ لوہے کی سلاخ سے پیٹے جانے کے باوجود ان کال کوٹھریوں میں شدید گرمی یا سردی میں بھی وہ کتنے خوبصورت خواب دیکھتے ہیں۔ وہ خواب اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ وہ اپنے سارے درد بھلا دیتے ہیں۔ تم ان کو اپنی پوری طاقت سے پیٹتے ہو ان کے جسموں کو سگریٹوں سے جلاتے ہو۔ ان کے ناخن نکالتے ہو۔ پھران کو بتاتے ہو کہ یہ کتنی ”عظیم دیوار“ ہے اور ان کو سمجھاتے ہو کہ اس ”دیوار“ کی تمہیں تعظیم کرنی ہے۔ اور سینہ تان کے کہتے ہو کہ ہم اس دیوار کے داروغے ہیں۔ اور یہ خداداد دیوار کتنی مقدس ہے۔ اس دیوار کے اندر قید رہنا اور اپنی یاداشت کھو دینا کتنا اہم ہے۔

یاد رکھو یہ کوئی ”دیوارگریہ“ بھی نہیں جہاں رویا جائے اور اپنے گناہوں کو یاد کرکے ندامت سے اپنے آپ کو شک کی نگاھ سے دیکھا جائے بلکہ یہ تو آگ اور خون کے کھیل کے میدان اور اس کے گرد کھینچی گئی دیوار ہے اور تم سب چاہتے ہو کہ یہ آگ جلتی رہے تا ابد۔ اور کسی ابابیل کو اپنی چونچ میں پانی بھر کے اس آگ کو ختم کرنے کی اجازت نہیں ان کو سانڈے چاہیں جو اس آگ کو پھونکتے رہیں اور بڑھاتے رہیں۔

ان کے جسموں کو لوہے سے داغ کر ان کو جتاتے ہو کہ تم ان کے خیالات کو قید کر پاؤ گے۔

مگر یاد رکھو ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ ان کے خیالات کو قابو کرنا قید کرنا تو دور کی بات ہے شاید تم جان ہی نہیں پاؤ گے کہ ان کے خواب کتنے آزاد اور خوبصورت ہیں تم تو ان کے جاگ کے سپنے بھی جان نہ پاؤ گے نہ ہی قید کر پاؤ گے۔

اچھا۔ تم نے اپنے تئیں سمجھ لیا ہے کہ وہ ”عبادتوں“ کو برابھلا کہتے ہیں۔ مگر ان کی بندگی کا کیا عالم ہے تم اس سے نا آشنا ہو تم کال کوٹھڑیوں کا کاروبار کرتے ہو۔ تم آزاد انسانوں کو آزاد انسانوں کو آزاد فضا میں سے اٹھا کر ان کو بے آبرو کرکے ان کو سکھانے کی کوشش کرتے ہو۔ کہ وہ جھک جائیں ان کی دیکھنے والی آنکھیں اور بولنے والی زبانیں بند ہو جائیں اور پھر تم ان کو حکم دوگے کہ وہ بندگی کریں۔ ”شریف النفس“ بنیں اور جیتے جی ہی مرجائیں۔ مگر ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔ ایسا تو کہیں نہیں ہوا۔ کہیں بھی نہیں ہوا کہ کوئی روشنی کو قید کر پایا ہو؟

تم ان کو واعظ۔ نصیحت سناتے جو ان کے کانوں سے ٹکرا کر واپس لوٹ جاتی ہیں۔ وہ واعظ وہ نصیحت وہ رٹے رٹائے جملے کتنے زہرآلود ہوتے ہیں۔ کتنا بیزار کرتے ہیں۔ یہ زومبی نہیں ہیں۔ جو تم نے بنائے ہیں جو آدم بو آدم بو کرتے ہوئے دانت نکال کر معصوم انسانوں کا خون پینے کے لیے نکل پڑیں اور کہیں ”پھٹ“ جائیں۔

یہ آزاد انسان۔ چونچ میں پانی بھر کر تمہاری لگائی گئی آگ بجھانے کی کوشش میں لگے پنچھی۔ جب تمہاری مار سے ادھ موئے ہوکر فرش پر گر بڑتے ہیں اور ان کے ہوش و ہواس کمزور پڑ جاتے ہیں۔ تب بھی ان کے دماغ میں تمہارے واعظ، نصیحت نہیں پہنچ پاتی۔ بلکہ اس لمحے میں ان کو لگتا ہے کہ رات کے آخری پہر دور سے کچی اینٹوں کی بنی ہوئی مسجد کے محراب سے اٹھتی ہوئی رقعت آمیز آواز کے بول ان کے کانوں کو ٹکراتے ہیں۔

اڑ جاؤ کانگا جاؤ مدینے

کہو سردار محمدﷺ سے

اڑ جاؤ کانگا جاؤ مدینے

کہو سردار محمدﷺ سے

عاشق درد فراق سے بھرتا ہے آہیں

عاشق درد فراق سے بھرتا ہے آہیں

کہو سردار محمد ﷺ سے۔

تو اس وقت نیم بیہوشی کے عالم میں بھی ان کی پلکیں بھیگ جاتی ہیں ان کے دل میں ٹھنڈک کا احساس ہونے لگتا ہے اور ان کو کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ ان کو یقین ہوتا ہے کہ کانگا ان کا یہ دکھ اور درد ضرور مدینے لے کے جائے گا اورروضہ اقدس پر فریاد کرے گا کہ کوئی کتنا دکھ اور درد سہتا ہے۔

اور یہ دکھ اور درد اس نے خود چنا ہے صرف اس لیے کہ اس کے باقی لوگ سکھی ہوں اور وہ اس دکھ کی دیوار کو گرانا چاہتا ہے۔ تاکہ سب آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ ان کو یقین ہے کہ کانگا کوفیوں کی کرتوتوں کا مدینے میں ضرور ذکر کرتا ہوگا روضہ رسول پے یہ دکھ اور درد لیے اس دھرتی کا جہاں سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آپﷺ تک پہنچتی ہے۔

پھر اس رقعت آمیز آواز کے ساتھ اٹھنے کی کوشش کرتے مگر اٹھ نہیں پاتے وہ بھی ماروی کی طرح قید ہیں اور پھر خود سے گن گنانے لگتے ہیں۔

آؤ کانگا کرو بات

مجھ سے میرے اپنوں کی

مجھے ہے ان کی آس

تمہارے ریشم میں کبھی نہیں پہنوں گی

آؤ کانگا

آؤ کانگا

ان کے پاؤں میں پڑی بیڑیاں گھنگھرو ہیں، پازیب ہیں

ان کو بجانے لگتے ہیں اور گانے لگتے ہیں

وہ یہ عہد اور پکا کرتے ہیں کہ ان کی دل وجاں اپنے لوگوں کے ساتھ جڑ چکی ہے۔ تم محض ایک لمحہ ہو۔ ایک لمحہ جو پل میں گزر جائے گا۔

تمہارا وجود بھی اس دیوار کی طرح ہی ہے جس کو ایک زوردار دھکے کی ضرورت ہے۔ پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری تم خاکی ہو خاک ہو جاؤگے خاکستر ہو جاؤگے۔

تمہیں ویسے بھی مٹی کی خوشبو نہیں آتی وہ کتنی بھینی بھینی ہوتی ہے۔ تمہاری گردن میں لوہے کی سلاخ ڈالی جاتی ہے۔ جس وجہ سے تم اپنے پیروں کی طرف دیکھ نہیں پاتے تبھی تو تم مٹی کے ساتھ جڑنے میں نابلد ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ تم چنے گئے فقط حکمرانی کے لیے مگر تم بھول گئے کہ تم تو ”کوتوال ہو فقط کوتوال“۔

میں تم سے صرف ”باون اکھری“ والوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ میں تمہیں وہاں کا درد بھی سناؤں گا جن کی زبان تم بھی سمجھتے ہو۔ جہاں شیر دریا پہاڑوں سے نیچے اترتا ہے۔ تب وہ دس سال کا بچہ تھا اپنے ابا کے ساتھ اس پہاڑ کے دامن میں آگیا تھا۔ اور تم نے اس بچے کے سامنے اس بچے کی کل کائنات اس کے ابا جان کو ٹھنڈے مارنا شروع کیے تھے اور گالیاں دیتے ہوئے کہا تھا نہ یہ ”ممنوعہ علاقہ“ ہے تمہیں سمجھ نہیں آتی۔ پھر فرمان جاری ہوا تھا۔

اوئے ڈڈو چال اوئے ڈڈو چال!

اس بچے کی آنکھوں کے سامنے اس کا باپ ڈڈو چال چلا تھا وہ بچہ کیسے بھول سکتا ہے کہ اس کے باپ نے ڈڈو چال چلتے ہوئے اپنی سفید پگڑی کو کس طرح گرنے سے بچایا تھا اب وہ بچہ جوانی کی دہلیز بھی پار کر چکا ہے۔ لیکن جب بھی پورب کی ہوا چلتی ہے تو اس پے عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے ابا جان کی بندوق کو تیل دینے لگتا ہے اور فرانز فینون کی ’افتادگان خاک‘ کو پڑھنے لگتا ہے وہ بچہ اور اس کا باپ جانتا ہے کہ تم نے اس سے کیا چھینا ہے۔

لیکن میں وہاں کی بات تم سے نہیں کروں گا وہاں تمہارے اثاثے رہتے ہیں۔ کیونکہ ان کا دکھ بیان کرنے سے بڑا ہے۔ جہاں کی زمینوں کے جنگلی پھول بارود پے اگتے ہیں۔ اور ان پھولوں پر تتلیاں اور جگنوں بھی بیٹھنے سے ڈرتے ہیں لوگوں کے گھروں میں اب چمگادڑوں کا بسیرا ہے۔ اور جس بستی کے نکڑ پر الو منحوسیت بکھیرتے ہوں اور موت کا پیغام لے کر آتے ہوں وہاں کی بات کرنا میرے بس میں نہیں ہے لیکن کراچی کے اس شخص کا اشارہ ضرور دوں گا جواب لالوکھیت کے چوک پے صبح سے آکر بیٹھ جاتا ہے جس کے بھائی کو ڈاکٹر بننا تھا اور وہ موت کا سوداگربن گیا اور آج قریب کے قبرستان میں سینے میں زخم کھائے آسودہ خاک ہے۔

مگر اب اس کا یہ بکھرے ہوئے بالوں والا بھائی چوک پے چلتی ہوئی گاڑیوں کو خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہتا ہے وہ اب رنگوں اور موسموں کی پہچان کھو چکا ہے۔ لیکن جب بھی ایک ”مخصوص گاڑی“ گزرتی ہے تو وہ اس پر ہاتھوں میں خیالی پسٹل بنا کر نشان لگاتا ہے۔ اور پھر انگلیوں سے بنی پسٹل کو منہ کے قریب لاکر پھونک مارتا ہے اور پھر خالی خالی آنکھوں سے دوسری مخصوص گاڑیوں کا انتظار کرنے لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).