فیمینزم! عورت کے حقوق کی جنگ یا آزادی کی؟


8مارچ آیا اور آ کر چلا گیا مگر اس کی باز گشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ عورتوں نے اپنا عالمی دن کچھ اس ادا سے منایا کہ مجھ جیسے نو آموز قلم کار جو پی ایس ایل کی ہوشربائیوں سے نکل کر بھارتی میڈیا کی جنگی گیدڑبھبھکیوں میں گم تھے وہ بھی اپنے اپنے قلم دوات لے کر اس موضوع پر طبع آزمائی کرنے کے منصوبے بنانے لگ گئے۔

اس موضوع پر کچھ لکھنے سے پہلے میں چند ایک سوالات سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہماری یہ بحث کسی منطقی نتیجہ تک راہنمائی کر سکے۔ پہلا سوال یہ کہ پاکستان میں عورتوں کا عالمی دن کیا فیمینزم کی کوئی کڑی ہے؟ آیا فیمینزم عورت کے حقوق کی جنگ ہے یا آزادی کی؟ آزادی کی صورت میں کس سے آزادی چاہیے مرد سے یا فرسودہ رسومات سے؟ اور آخری مگر اہم ترین سوال کیا منعقدہ عورت مارچ ہماری کثیرالجماعتی عورتوں کی جائز نمائندگی کرنے میں کامیاب بھی رہا یا نہیں؟

مندرجہ بالا سوالات کے جواب ذہن میں لے آنے کے بعدملے جلے تاثرات کے ساتھ ہو سکتا ہے کہ زیادہ تر حلقے خود کو فیمینزم میں شمار کرنے پر آمادہ نہ ہوں

اور خود کو صرف عورت کے حقوق کی جنگ کے علمبردار کہنے کی اجازت دیں۔ گزشتہ عورت مارچ کے بارے میں اکثریتی رائے یہی ہے کہ یہ مارچ غیر سنجیدہ طبقے کی فیمینزم کے حق میں ایک بھونڈی کاوش تھی جس سے پاکستان کی زیادہ تر خواتین نے بیزاری کا اظہار کیا۔

لیکن بہرحال عورت کے حقوق کی جنگ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ عورت کی حق تلفی کوئی آج کا المیہ نہیں ہے۔ انسان نے مہذب ہونے کے طور طریقے سیکھنے کے لئے جو اصول بنائے بدقسمتی سے ان میں عورتوں کو یکسر نظر انداز کر دیاگیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ عورتوں کی اہمیت اور افادیت کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے یہ نسل انسانی محض ایک جنسی ضرورت ہی بن کر رہ گئی۔ اسی فراموشی کا جواب فیمینزم کی شکل میں مغربی دنیا کواتنا شدید ملا کہ وہاں پر مردوں کے خلاف باقاعدہ عورت نفرت کا اظہار کرنے لگ گئی اور عورت نے بھی مرد کو فقط ایک جنسی ضرورت ہی سمجھ لیا۔

مذہب۔ ہماری زندگیوں میں رچی بسی وہ نعمت جس نے مسلمانوں کو اس شدت سے آج تک محفوظ رکھا۔ مگرانفرادی اور گروہی طور پر کچھ بیمار ذہنیت مردوں نے اپنی حاکمیت کو خطرہ سمجھتے ہوئے عورت کو بے جا دبانے کی کوششیں ضرور کیں جس کے نتیجے میں مغربی فیمینسٹس کو ہماری طرف رخ کرنے کا موقع ملا۔ آپ حقائق کا غیر جانبدار تجزیہ کریں تو یہ امر واضح ہو جائے گا کہ عورت مارچ کی شرکاء اور نام نہاد عورت حقوق کی علمبردار خود ایک بھرپور اور دبنگ زندگیاں گزار رہی ہوتیں ہیں اور وہ شکاری کی طرح معاشرے میں ایسی عورتوں کی تلاش کرتی ہیں جن کو بلا شبہ مردوں نے اپنی جھوٹی مردانگی کا نشانہ بنایا ہوتا ہے۔ ان خواتین کو سامنے لا کر تمام عورتوں کی نمائندگی کا ڈنڈھورا پیٹا جاتا ہے اور معاشرے کو بالآخر مردوں کا معاشرہ قرار دے کر ایک گھٹن زدہ ماحول بنا دیا جاتا ہے۔

درحقیقت اسلام نے اس قسم کی کسی بھی تحریک کا جواز آج سے چودہ سو سال پہلے ہی ختم کر دیا تھا جب عورتوں کے حقوق کو مردوں کے فرائض میں شامل کر دیا تھا اوریہ واضح کر دیا تھاکسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں۔ مرد اور عورت کی جگہ خوبصورت اور متوازن عائلی رشتے ایک دوسرے کی تکریم اور مساوات کے پابند کردیے۔ ماں، بہن، بیٹی جیسے رشتے باپ بھائی اور بیٹے کی ذمہ داری بن گئے۔ میاں اور بیوی کے حقوق باقاعدہ متناسب انداز میں مزین کردیئے گئے تاکہ کسی کی بھی حق تلفی ہو تو لمحے کی تاخیر کے بغیر مجرم کا تعین بھی ہوجائے۔

ظاہر سی بات ہے کہ اگر کسی عورت کے حق پر کوئی نقب زنی ہو گی تو فوری طور اس عورت کے رشتہ کا تعین کر کے مجرم کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یعنی اگر شکایت لانے والی عورت ماں ہے تو اس کا بیٹا قصور وار ہوگا، بہن ہے تو بھائی، بیٹی ہے تو باپ اور اسی طرح بیوی کا مجرم اور کوئی نہیں اس کا شوہر ہی ہوگا۔ ایسی صورت میں کسی بھی ظلم کی صورت میں مکمل معاشرے کو غیر متوازن یا ظالم ثابت کرنے کی بجائے صرف اسی رشتے کو مورد الزام ٹھہرایا جائے تو معاملہ حل ہوگا نہ کہ اس مسئلہ کو معاشرتی برائی بنا کر خوب اچھالا جائے اور مردوں کے خلاف نفرت کا اعلان کیا جائے۔

مغرب نے چونکہ عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا تھا اسی لئے وہاں مردوں سے نفرت اور خاندانی نظام کی ناکامی روز روشن کی طرح عیاں تھی۔ جس معاشرے میں عورت کو بھیڑ بکریوں کی طرح خریدا بیچا جائے، ان کی رائے کی کوئی وقعت نہ ہو، ووٹ کا حق نہ ملے، جائیداد میں کوئی حصہ نہ ہو حتیٰ کہ اس کو خوراک تک نہ پوری دی جاتی ہو وہاں پر فیمینزم کی تحریک کا آنا کوئی حیرانگی کی بات نہیں۔ ایسے معاشرے میں مردوں سے نفرت بھی بجا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج وہاں بدقسمتی سے خاندانی نظام کا تصور تک نہیں ہے بچے اپنے باپ کا صرف نام ہی ماں کے منہ سے سنتے ہیں اور اکیلی ماں کو ہی بچے کی پرورش کرنی پڑتی ہے جس کے لئے اسے مردانہ وار باہر نکل کر حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ شومئی قسمت مغرب زدہ مکار اور عیاش مرد نے اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لئے بدقسمت عورت کو آزادی کے نام پرذمہ داریوں کا وہ طوق پہنا دیا جس سے نجات اب ممکن نہیں۔ مردوں سے اس جنگ نے عورت کو پھر شکست دے دی کیونکہ مرد نے ذمہ داریوں سے جان چھڑوا لی اور ہر روز ڈال ڈال منڈلا نے والے بھنورے کی سی زندگی گزارنے لگاجبکہ یہ ہی طرز عورت نے مجبوراً اختیار کر تولیا مگر اس طریقے کی بدصورتی نے عورت کے وقار اور نسوانیت کو مسل کر رکھ دیا۔ ایسے میں اگر مشرق کی عورت بھی اگر مغرب کی اس چال کی پیروی کرے گی تو سوائے پچھتاوں کے کچھ حاصل نہیں ہونا۔

اس کے برعکس مسلم اور مشرقی معاشرہ آج بھی خاندانی نظام کی خوبصورتیوں سے مالا مال ہے یہاں پر گھر کے مرد اپنی خواتین کے حقوق اور ان کی ہر ضرورت کے ذمہ دار اور جوابدہ ہیں۔ انفرادی نا اہلی اور لاپرواہی کو معاشرتی بگاڑ بنا کر آج مغرب ہمارے خاندانی نظام اورمذہبی اساس کو بھی اسی طرح تباہ کرنا چاہتا ہے جیسا وہ خود کو کر بیٹھا ہے۔ ہمارے معاشرے کی عورت کو بھی اس سازش کو سمجھنا ہے کہ حقوق کے نام پر آزادی کی اس جنگ میں وہ اپنا وقار اور جائز حقوق سے بھی نہ ہاتھ دھو بیٹھے کیونکہ مرد کے لئے بہت آسان ہے کہ وہ عورت کی آزادی کے نام پر اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑوا لے۔ متوازن معاشرے میں مرد اور عورت تکریم اور احترام کے رشتوں میں پابند ہی اچھے لگتے ہیں۔

دل خوش فہم کا دعویٰ ہے کہ مغرب کی عورت آج رشک بھری نظروں سے مشرق کی خوش باش اور پر سکون عورت کو دیکھتی ہوگی اوراپنے اجداد کے ان مردوں اور عورتوں سے شکوہ کناں ہوگی جن کی نا عاقبت اندیشیوں سے آج مرد اور عورت ایک دوسرے کا احترام کرنے سے قاصر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).