پلیز مجھے خودکشی کا آسان طریقہ بتا دو
وہ ہنسنے لگی۔ اگر تم نے شادی نہ کی تو میں خود کشی کر لوں گی لیکن یہ روایتی طریقے بہت خوفناک ہیں جیسے ٹرین کے نیچے آ جانا، خود کو گولی مار لینا، گلے میں پھندہ ڈال کر لٹک جانا، مجھے ان سے بہت ڈر لگتا ہے مگر مجبوری میں تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ”اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
”دیکھو مجھے ڈراؤ مت۔ تم جیسا کہو گی میں کر لوں گا۔ “ میں نے فوراً کہا۔
”یہ مت سمجھنا کہ میں اب تم سے ملاقات کروں گی۔ میں اپنے خاوند کے ساتھ خوش ہوں۔ بس ایک خلش سی تھی، تم سے ایک بار ملنا چاہتی تھی سو مل لیا۔ اب میرے نمبر پر کال بھی کرو گے تو نمبر بند ملے گا۔ خدارا مجھے ڈھونڈنے کی کوشش مت کرنا، میں اب تمہیں نہیں ملوں گی۔ “ اس نے جانے سے پہلے کہا۔ میرا دل کٹ رہا تھا لیکن کیا کر سکتا تھا۔ وہ چلی گئی اور ہر طرف اندھیرا پھیل گیا۔
رات گئے میں گھر پہنچا۔ پھر نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔ صبح جلدی آنکھ نہ کھل سکی۔ پھر فون کی گھنٹی نے جگایا۔ میں نے موبائل فون کی سکرین پر دیکھا۔ رمشا کا نمبر تھا۔ ہیلو! میں نے فون کان کے قریب کیا۔ دوسری طرف سے رمشا کے رونے کی آواز رہی تھی۔ ”جلدی آ جاؤ۔ بہت بری خبر ہے۔ “ اس نے روتے ہوئے کہا۔ ”رمشا۔ رمشا۔ کچھ بتاؤ تو سہی، ہوا کیا ہے۔ “ میں نے چیختے ہوئے کہا لیکن اس نے فون بند کر دیا تھا۔ میں نے بار بار اس کا نمبر ملانے کی کوشش کی لیکن فون بند تھا۔
میں افراتفری کے عالم میں گھر سے نکلا۔ رمشا کا پتا معلوم تھا۔ اس کے گھر پہنچا تو وہ اور اس کا خاوند حمزہ سوگوار ماحول میں ملے۔ ”ہمیں جینا کے گھر جانا ہے۔ “ رمشا بولی۔ میں چپ رہا۔ دل ڈوب رہا تھا۔ گاڑی جینا کے گھر پہنچی۔ ہم اندر داخل ہوئے اور پھر میں نے سیاہ تابوت دیکھا۔ جنازہ اٹھایا جا رہا تھا۔ میرے جسم سے جیسے جان نکل گئی۔ میں اپنی جگہہ سے ہل بھی نہ سکا۔ خالی خالی آنکھوں سے ان ماتم کرتے لوگوں کے درمیان کھڑا تھا۔
بہت برا حادثہ تھا۔ بے چاری چھت سے کپڑے اتارنے گئی تھی نہ جانے کیسے گر پڑی۔ کسی نے تبصرہ کیا۔ اور پھر بھیا چوتھی منزل سے گر کر کون بچتا ہے۔ ایک آواز آئی۔ ساری ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں سر سے اتنا خون بہہ رہا تھا کہ صحن کا فرش لال ہو گیا تھا۔ ایک اور آواز آئی۔ اس سے زیادہ سننے کی تاب نہیں تھی۔ مجھے نارمل ہونے کے لئے کئی دن لگ گئے۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ جینا مر چکی ہے۔
میں نے اس کے گھر میں ایک تیرہ چودہ برس کی روتی ہوئی لڑکی کو دیکھا تھا۔ وہ بالکل جینا کی کاپی تھی۔ وہی چہرہ وہی خدو خال۔ پتا چلا تھا کہ وہی اس کی بیٹی خوشی ہے۔ میں اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اسے تسلی دینا چاہتا تھا۔ اپنی بیٹی کی طرح اسے پیار کرنا چاہتا تھا لیکن کسی سے کہہ نہیں پایا تھا۔ میری حالت کچھ سنبھلی تومیں نے رمشا سے کہا۔ ”پلیز رمشا مجھے جینا کے گھر لے چلو، مجھے اس کی بیٹی خوشی سے ملنا ہے۔ “
رمشا کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو گئیں۔ میں اس گھر میں کبھی نہیں جاؤں گی۔ جہاں وہ حیوان رہتا ہے۔ اچھا ہوا جینا مر گئی۔ کم از کم اس اذیت سے تو بچ گئی جس میں اس نے پندرہ سال کاٹ دیے۔
”رمشا کیا کہہ رہی ہو، ہوش میں تو ہو؟ “ میں نے حیرت سے کہا۔
”تم تو جینا سے ملے تھے نا، بہت باتیں کی تھیں، اس نے تمہیں نہیں بتایا کہ اس کا خاوند اس سے کیسا سلوک کرتا تھا۔ “ رمشا بولی۔
”بتایا تھا، وہ کہتی تھی میرا خاوند مجھ سے بہت پیار کرتا ہے، میرا بڑا خیال رکھتا ہے۔ “ میں نے کہا۔
”ہاں بہت خیال رکھتا تھا۔ “ رمشا طنزیہ انداز میں بولی۔ ”وہ حیوان پہلے دن سے اسے جوتے کی نوک پر رکھتا تھا۔ تم تو جینا سے پھر کبھی نہیں ملے لیکن اسے شادی سے پہلے پتا چل گیا تھا کہ جینا کسی کو پسند کرتی تھی۔ اس نے شادی کی پہلی رات سے مار پیٹ کا سلسلہ شروع کیا تھا جو جینا کی موت تک جاری رہا۔ ایسے برے طریقے سے جینا کو مارتا تھا کہ اس کے جسم پر نیل پڑ جاتے تھے۔ کئی بار میں نے وہ نشان اس کے جسم پر دیکھے تھے۔ اس پر اتنا شک کرتا تھا کہ وہ بے چاری کہیں باہر نہیں نکل سکتی تھی۔ مجھ سے ملنے کے لئے اسے نہ جانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ وہ بھی بھاری بھرکم برقعے میں لپٹ کر آتی تھی۔ خود وہ بازاری عورتوں سے دل بہلاتا تھا۔ ہر وقت اس کے منہ سے گھٹیا شراب کی بو آتی تھی، جوا وہ کھلیتا تھا۔ کون سی برائی تھی جو اس میں نہیں تھی۔ رمشا بولتی چلی گئی۔
”لیکن میں نے تو سنا تھا اس کا کروڑوں روپے کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس ہے پھر ایسی حرکتیں کیوں کرتا تھا۔ میرا مطلب ہے ایک کاروباری انسان۔ “
رمشا میری بات سن کر ہنسنے لگی۔ ”یہ کہہ کر تو اس کے والدین نے اس کی شادی کی تھی۔ اس کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس ضرور ہے لیکن وہ ہیروئن، کوکین، چرس اور افیون امپورٹ ایکسپورٹ کرتا ہے۔ سنا ہے انسانی سمگلنگ میں بھی ملوث ہے۔ “
”اس کا مطلب ہے جینا نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔ لیکن اگر ایسے برے حالات تھے تو اس نے طلاق کیوں نہیں لی۔ “ میں نے کہا۔
” گئی تھی بے چاری اپنے ماں باپ کے گھر۔ شادی کے دو تین مہینے بعد ہی چلی گئی تھی کہتی تھی اس گھر میں دوبارہ نہیں آئے گی مگر وہاں اس کے باپ نے گھر چھوڑ دیا تھا کہتا تھا کہ جب تک بیٹی اپنے گھر نہیں جاتی وہ بھی گھر نہیں آئے گا۔ جینا نے اپنی ماں کو بتایا، لاکھ سمجھایا لیکن وہ طلاق پر آمادہ ہی نہیں تھے۔ اسے پھر اس جہنم میں آنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ “
”اف! جینا اتنی تکلیفیں سہتی رہی ہے۔ “ میری آنکھوں میں چبھن ہونے لگی۔ ”ہاں ایک بات اور سنو، جینا اپنی بیٹی سے جتنی محبت کرتی تھی اس کا خاوند اس سے اتنی ہی نفرت کرتا ہے۔ وہ بالکل جینا جیسی ہے ناں۔ اسے ناجائز اولاد کہتا ہے۔ اور اس نے اس تیرہ چودہ سالہ لڑکی کی شادی اپنے کسی آوارہ دوست سے طے کر رکھی ہے۔ شاید جوئے میں ہارنے کی قیمت چکا رہی ہے وہ لڑکی۔ جینا اس کے لئے کتنا روئی اور گڑگڑائی ہے یہ مجھے پتا ہے لیکن اس کے خاوند کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس قدر سنگدل اور بے حس آدمی ہے۔ لڑکی کی ماں مر گئی ہے اور وہ ایک ہفتے بعد اس کی شادی کر رہا ہے۔ “
” بس کرو رمشا بس کرو! میں اور نہیں سن سکتا۔ میرا دل پھٹ جائے گا۔ میں آج سمجھا ہوں کہ جینا نے مجھ سے وہ سوال کیوں کیا تھا۔ “ میں چیخ اٹھا۔
” کیا پوچھا تھا اس نے؟ “ رمشا نے چونک کر کہا۔ ”اس نے کہا تھا کہ پلیز مجھے خود کشی کا آسان طریقہ بتا دو۔ “
- ٹیبل لیمپ - 12/09/2023
- آخر مہنگائی کا توڑ مل گیا - 02/09/2023
- عورت مارچ: یہ تو ہو گا - 10/03/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).