میثاق جمہوریت کی اہمیت کا ادراک جلد تحریک انصاف کو بھی ہو جائے گا


پچھلے دنوں کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیراعظم نواز شریف سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے عیادت کے لیے ملاقات کی۔ اس ملاقات سے قبل بلاول بھٹو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوئی سیاسی ایجنڈا لے کر میاں صاحب سے ملنے نہیں جا رہے بلکہ ان کا مقصد فقط عیادت ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا، میاں صاحب کی طبیعت واقعتا خراب ہے اور وہ دل کے سنگین عارضے میں مبتلا ہیں، اس حالت میں انہیں دباؤ میں رکھنا تشدد کے مترادف ہے۔

مزید برآں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس حالت میں بھی میاں صاحب کا عزم غیر متزلزل ہے اور وہ اپنے بیانیے پر قائم ہیں۔ ان کے موقف میں کوئی لچک نہیں اور نہ ہی محسوس ہوتا ہے وہ کسی سمجھوتے یا رو رعایت کے متقاضی ہیں۔ دونوں کے درمیان ملاقات کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ عیادت تو ویسے بھی رسم دنیا ہے اور ہماری مذہبی تعلیم میں ایک مسلمان کا حق ہے کہ جب وہ بیمار ہو تو شناسا اس کی عیادت کو پہنچے۔ دو ہزار تیرہ کی الیکشن کمپین میں جب عمران خان اسٹیج سے گر کر زخمی ہوئے تو نہ صرف میاں صاحب نے اپنی الیکشن مصروفیات موقف کی۔ بلکہ ان سے ملنے ہسپتال بھی پہنچے۔

اسی طرح محترمہ بینظیر جب خودکش حملے میں قتل ہوئیں اسی دورانیے میں میاں صاحب کے قافلے پر فائرنگ ہوئی جس سے ان کے چار کارکن جاں بحق ہوئے مگر، قوم کے حافظے میں یہ بات محفوظ ہو گی۔ جیسے ہی میاں صاحب کو اس حادثے کی اطلاع ملی تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے اور ان کے جیالوں کو دلاسہ دینے کی مقدور بھر سعی کی۔ لہذا بلاول بھٹو کا ہسپتال جا کر میاں صاحب کی عیادت کرنا، ایسے وقت میں جب سیاسی اقدار معاشرے سے رخصت ہوتی جا رہی ہیں، اور اس کی جگہ باہم کدورت اور نفرتوں کی خلیج دلوں میں روز بروز بڑھ رہی۔

ایک تازہ ہوا کہ جھونکا ہے، امید ہے اس سے ملکی سیاست کو دوبارہ اس ٹریک پر لانے میں کامیابی ملے گی جہاں نظریاتی اختلاف ہوا کرتا تھا، مگر سیاستدان شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے اور ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوا کرتے تھے۔ حکومتی کیمپ سے اس ملاقات پر حسب توقع تبصرے جاری ہیں۔ کہا جا رہا عیادت فقط ایک بہانہ دونوں اپنی جاں بخشی کے لیے گٹھ جوڑ کرنا چاہ رہے ہیں۔ ٹھٹا اڑایا جا رہا، کل تلک ایک دوسرے کو سڑک پر گھسیٹنے اور دھرتی کا نا سور کہنے والے ”مال، آل، اولاد“ بچانے کو اکٹھے ہونے کی کوشش میں ہیں۔

یہ بات سیاست کا ادنی طالب علم جانتا ہے، نہ کوئی اتحاد حتمی ہوتا ہے اور نہ کوئی دشمنی دائمی۔ باہمی مفاد جب تک موجود ہو اتحاد، جب مفاد ختم تو کون میں کون والا معاملہ۔ ایسا اگر نہ ہوتا تو یہ واویلا کرنے والے کو جو شخص ماضی میں چپڑاسی رکھنے کا روادار نہ تھا وزیر ریلوے مقرر نہ کرتا اور نہ ہی پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو اسپیکر پنجاب اسمبلی کا منصب اور ڈی فیکٹو وزیراعلی کا اختیار ملتا۔ ماضی میں جس ایم کیو ایم پر زہرہ شاہد کے قتل کا الزام لگایا جاتا رہا، آج وہ حکومتی بنچوں پر بھی نہ ہوتی۔ کوئی شک نہیں، سیاست سے تعلق رکھنے والے دو فرد ملے ہیں، باہم دلچسپی کے امور پر بھی لازمی گفتگو ہوئی ہو گی۔

مذکورہ ملاقات کے بعد دونوں جانب سے کچھ ایسے اشارے ملے ہیں، جن کی بنیاد پر ایک بار پھر یہ بحث شروع ہے کہیں اپوزیشن جماعتوں کے درمیان کوئی میثاق ہونے جا رہا ہے۔ یادش بخیر اس سے قبل بھی محترمہ بینظیر اور میاں صاحب کے درمیان ایک میثاق ہوا تھا۔ نوے کی دہائی کے تلخ تجربات کے بعد جب اقتدار کے ایوان میوزیکل چیئر بنے رہے۔ یہ اتفاق ہوا تھا آئندہ کوئی دوسرے کی ٹانگ نہیں کھینچے گا۔ سویلین اقتدار پر شب خون مارنے والے 58۔ 2 b جیسے چور راستے پہلی فرصت میں بند کیے جائیں گے۔ ہوا مگر کیا؟ سویلین اقتدار بحال ہوا۔ ڈکٹیٹر مشرف کو رخصت کیا گیا۔ اٹھارویں ترمیم میں 58۔ 2 b کی شق نکال دی، نجانے کیا مصلحت تھی۔ 62، 63 اور 184 / 3 کی لٹکتی تلوار جوں کی توں چھوڑ دی گئی۔ ان آرٹیکلز پر اگر تولا جائے تو عزت مآب سپریم کورٹ کے ریمارکس تھے کہ سراج الحق کے سوا شاید ہی کوئی پارلیمینٹیرین باقی رہے، درویش کا ذاتی خیال مگر یہ پورے ملک میں شاید ہی کوئی ان پیمانوں پر اترے۔

پہلے والے میثاق جمہوریت پر اگر اس کی اصل روح کے مطابق عمل کیا ہوتا آج یہ نوبت نہ ہوتی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں اس سے بری الذمہ نہیں۔ پیپلز پارٹی پر مشکل وقت آیا، میاں صاحب کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ وعدے وعید ہوئے، سرونگ جرنیلز سے کوئی میٹنگ نہیں کرے گا، راتوں کو شہباز شریف اور چوہدری نثار جنرل کیانی سے ملتے رہے۔ مسلم لیگ کی حکومت آئی کراچی آپریشن کی آڑ میں پیپلز پارٹی پر عرصہ حیات تنگ ہونا شروع، تب میثاق کہیں فائلوں میں پڑا رہا۔

اس کے بعد پیپلز پارٹی کو چانس ملا، بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت گرائی۔ تاکہ ن لیگ کو سینیٹ کی اکثریت سے محروم رکھا جائے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بھی زرداری صاحب نے پیٹھ دکھائی۔ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر بھی پی پی نے اپوزیشن اتحاد کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ دونوں جماعتوں کے رویے کی وجہ صرف یہ تھی شاید یہ تابعداری ہمارے لیے چین لکھے گی۔

تاریخ کا سبق ہے صاحبان اقتدار کی ناؤ اس وقت تک بھری رہتی ہے، جب تک اقتدار کا تختہ پر سکون ہو۔ جونہی یہ ناؤ ہچکولے لینا شروع ہو، ایک ایک کر کے تمام ابن الوقت چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ ہمہ یاراں جنت، ہمہ یاراں دوزخ پر یقین رکھنے والے بہت کم ہوتے ہیں جو گرم و سرد میں ساتھ نبھائیں۔ جو اقتدار و اختیار کے دنوں میں یمین و یسار بنے رہتے ہیں ان میں سے بیشتر باد مخالف دیکھ کر پتلی گلی سے نکلنے کی کرتے ہیں۔ اس بار بہت کم لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنی جماعتوں کو چھوڑا، الا ان مفاد پرستوں کے جن کا کام ہر ڈال پر رال ٹپکانا ہے۔

یہ حقیقت ہے اس وقت ملک میں میاں صاحب کے بیانیے کے سوا کوئی بیانیہ موجود نہیں۔ کیونکہ مسئلہ اگر واقعتا بد عنوانی کا ہوتا تو پھر اسے صرف مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے اس نظریے کے نام لیواؤں سے مخصوص نہ کیا جاتا۔ جو لوگ اب تک اس بیانیے کے مخالف ہیں انہیں بھی جلد یا بدیر اس پر ایمان لانا ہو گا۔ ویسے بھی اس مملکت کے قیام سے لے کر تاحال بد عنوانی کے خاتمے کے نام پر کئی بار نظام سیاست کے کنویں سے ڈول بھر کر نکالے جاتے رہے، لیکن کنواں بدستور ناپاک ہے۔

اس ناپاکی کے قائم رہنے کی وجہ یہ ہے اختیارات سے تجاوز کا کتا جو بد عنوانی کے تعفن کی اصل بنیاد ہے اسے کبھی کنویں سے نہیں نکالا گیا۔ سمجھنا چاہیے اختیارات سے تجاوز خواہ سیاسی ہو یا ادارہ جاتی، کسی بھی صورت میں ہو۔ جب تک اسے ختم نہیں کیا جائے گا بد عنوانی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ پیپلز پارٹی خود تاریخ میں جبر کا شکار رہی مگر، لمحہ موجود میں اس کا کردار بھی شرمندہ کن رہا۔ اس کی اعلی قیادت جانتے بوجھتے کہ وہ تاریخ کے غلط موڑ پر کھڑی ہے چین کی بنسری بجاتی رہی۔

لیکن اب جبکہ شعلوں نے اس کے آنگن کا رخ بھی کر لیا تو اسے احساس ہوا اتنی محنت سے جو کھیر بنائی جا رہی تھی وہ کسی دوسرے کے لیے تھی اور اس میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ شاید یہی احساس پیپلز پارٹی کو پھر سے اس کے اصل ٹریک پر واپس لے آئے۔ اور جتنا جلد اسے یہ احساس ہو جائے، اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ثابت ہو گا۔ کیونکہ تاریخ کے اس موڑ پر جو قوتیں عوامی بالادستی پر یقین رکھتی ہیں وہی امر ہوں گی۔ جو لمحہ موجود اور وقتی مفادات کی اسیر رہ کر جینا پسند کریں گی وقت ان کی داستان تک مٹا دے گا۔ میثاق جمہوریت لازم مگر، زبانی کلامی نہیں اور یہ صرف سیاسی جماعتوں کی ضرورت نہیں ملک و قوم کا مفاد بھی اس سے وابستہ ہے۔ وگرنہ چند ذہنوں کی خواہش پر اقتدار کے مکیں بدلتے رہے تو ملک بھی دائرے میں گھومتا رہے گا، لکھ رکھیں وہ وقت دور نہیں جب تحریک انصاف کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).