مودی کی شدت پسندی گجرات سے پلوامہ تک


نریندری مودی ہمیشہ سے انڈیا کی شدت پسند تنظیم راشتٹریہ سویم سویک سنگ (RSS) کا ایک متحرک ممبر رہا ہے۔ اس تنظیم کا بالخصو ص مسلمانوں اور بالعموم دوسری اقلیتوں کا انڈیا سے خاتمہ ایک بنیادی ایجنڈا ہے۔ یہ تنظیم ہندوستان کو صرف ہندؤں کی ذاتی ملکیت سمجھتی ہے، اس لیے مسلمان یا تو ہندو بن جائیں یا انڈیا سے ہجرت کر جائیں۔ بصورت دیگر مسلمان کو قتل کر دیا جائے، یہی اس تنظیم کی بنیادی آئیڈیالوجی ہے۔

نریند ر مودی 2001 ئسے 2014 ئتک گجرات کا وزیر اعلی رہا۔ اسی کے دور حکومت میں گجرات میں 2002 میں ہندو مسلم فسادات برپا ہوئے جس میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، مسلمان لڑکیوں کے سرعام ریپ ہوئے اور ان کے گھر بار کو لوٹا گیا۔ اس شدت پسندی میں تقریبا دو ہزار مسلمان قتل کیے گئے، جس کی مثال ماڈرن انڈیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مودی کی گجرات حکومت اور پولیس نے براہ راست ہندو شدت پسند تنظیموں کا ساتھ دیا اورانسانیت پر اس ظلم کی وجہ سے امریکہ نے مودی کی اپنے ملک میں داخلہ پر پابندی عائد کر دی تھی۔

مودی نے گجرات میں سرمایہ دار طبقہ کو فری ہینڈ دیا ہوا تھا۔ اس لیے سرما یہ دار طبقہ نے مودی کی 2014 کی الیکشن کمپین میں کروڑوں روپے خرچ کیے۔ مودی سیکولر انڈیا کا وزیر اعظم تو بن گیا لیکن اس کی انتہاپسند سوچ میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ ہندو توا ہی اس کا نصب العین رہا۔ اس نے انڈیا میں جس تنگ نظر قومیت کی بنیاد رکھی ہے، اس کا نقصان آگے چل کر صرف اور صرف انڈیا ہی کو ہو گا۔ آج انڈیا میں سرعام پڑھے لکھے اور حق کی بات کرنے والوں کو غداری کے ٹائیٹل دیے جا رہے ہیں۔

گائے کی بے حرمتی کے الزام میں مسلمان اور عیسائی ہندو شدت پسند وں کے ہاتھوں قتل کر دیے جاتے ہیں۔ تین طلاق کا مسئلہ مسلمانوں کو اطمینان میں لئے بغیر ان پر ٹھونس دیاگیا۔ انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی اور اسلامک کلچرکی مر کزی اسٹیٹ اتر پردیش پر مشہور زمانہ ہندو شدت پسند اور دہشت گرد یوگی ادتیا ناتھ کو بطور وزیر اعلی بٹھا دیا گیا۔ مگر مودی اور ان کی شدت پسند تنظیم یہ بھول رہی ہے کہ تقریبا بیس کروڑ مسلمان انڈیا میں مقیم ہیں جو کہ انڈیا کی سب سے بڑی اقلیت ہے۔ جس دن اس اقلیت نے تنگ آ کر ہتھیار اٹھا لئے تو انڈیا کو ٹوٹنے سے دس مودی بھی نہیں روک سکیں گے۔ مودی اور اس کی شدت پسند تنظیم کو اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ سیکولر زم سے ہی انڈیا کی بقا ہے۔

مشہور زمانہ شد ت پسند، ا سٹرٹیجک وار فیر کا ماہر اور سابقہ انٹیلی جینس ایجنسی کے ہیڈا جیت دول کو اپنا سیکورٹی ایڈوائزر لگانے سے ہی نریند ر مودی کی ذہنیت کھل کر سامنے آگئی تھی۔ ان لوگوں نے انڈیا کو جنگ جوئی کے راستے پر گامزن کر رکھا ہے۔ پچھلے سال انڈیا نے اس وقت چین کے ساتھ چھیڑ خانی کی جب چین نے

بھوٹان بارڈر کے قریب اپنے علاقے میں ایک روڈ تعمیر کرنا شروع کیا۔ چین نے پوری دنیا میں ثابت کیا کہ انڈیا اس کے اندورنی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے، جس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ انڈیا نے منہ کی کھائی اور چین کی بڑی جنگی طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے یک طرفہ طور پر فوجی انخلاء پر آمادہ ہوگیا۔

مزیدبراں مودی سرکار جس میں زیادہ تر BJP کے وہ ممبر شامل ہیں جو مودی کی طرح ماضی میں ہندؤ دہشت گرد جماعت RSSکے ممبر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو نقصان پہنچانا ا س حکومتی ٹیم کے دھرم کا حصہ ہے۔ وہ ہر فورم، چاہے وہ نیشنل ہو یا انٹر نیشنل پر پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کبھی پاکستان میں اجیت دول کے ذہن کی تخلیق کر دہ سرجیکل اسٹرائیک اور ائیر اسٹرئیک کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے تو کبھی دہلی میں طعینات پاکستانی سفارتکاروں کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے۔

پاکستان میں علٰیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دینے کے لئے انڈیا اپنی خفیہ ایجنسی را کے ذریعے افغانستان کی مٹی کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی اور بغاوت کو پروان چڑھانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان میں شر پھیلانے والے عناصر کو افغانستا ن میں مالی معاونت اور ٹریننگ دینے میں را اور افغان خفیہ ایجنسی NDSکے گٹھ جوڑ کے واضع ثبوت موجو دہیں اور ان حقائق سے حال ہی میں دہشت گردی سے توبہ کرنے والے تحریک طالبان کے سابقہ ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ اس ضمن میں امریکی جنرل جوزف نے بھی کل بیان دیا ہے کہ افغانستان میں موجود دہشتگرد تنظیمیں پاکستان کے اندر حملہ کرتی ہیں۔

ان سازشوں کو روکنے کے لیے پاکستان نے فاٹا کے ساتھ افغان بارڈر پر اپنی دو لاکھ فوج کو تعینات کر رکھا ہے۔ افغان بارڈر سے پاکستان کی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت پاکستان کے مشرقی بارڈر لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں شروع کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2017 میں انڈیا نے لائن آف کنٹرول پر ریکارڈ 1900 دفعہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی ہے، جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ لیکن مودی سرکار اس بات کو بھول رہی ہے کہ پاکستان ایک اٹامک پاور ہے اور اگر پاکستان کی امن پسند پالیسیوں کو غلط سمجھا گیا تو انسانیت کا بہت زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔

مودی حکومت نے کشمیر میں بھی ظلم و زیادتی کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے جس کی وجہ سے کشمیریوں کے اندر آزادی کی ایک نئی جہت نے جنم لیا ہے۔ سابقہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی کشمیریوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم کا مودی کو ہی ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کیا برہان وانی کشمیری تھا یا پاکستانی؟ کیا پلوامہ حملے میں ملوث عادل احمد ڈارکشمیر کا مقامی رہاشی نہیں تھا، جس نے انڈین آرمی کی دہشت گردی اور مضالم سے تنگ آ کرشدت کا راستہ اختیار کیا؟

دہشت گردی اور تحریک آزادی دو مختلف چیزیں ہیں۔ جب انڈین انگریز تسلط کے خلاف تحریک آزادی چلانے والے مہاتما گاندھی اور نہرو جیسے لوگوں کی آج پوجا کرتے ہیں اور انگریز سامراج کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے بھگت سنگھ کو شہید اور اپنا قومی ہیرو گردانتے ہیں توکشمیرمیں بھارتی تسلط کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے برہان وانی اور عادل احمد ڈار جیسے کشمیری نوجوان دہشت گرد کیسے ٹھہرے؟ آزادی کی جنگ کے یہ دہرے معیار کیوں؟ 1990 ء سے آج تک بھارتی فوج کے ہاتھوں ستر ہزارمرنے والے اور پیلٹ گنوں سے زخمی اور اپاہج ہونیوالے نہتے کشمیری دہشت گرد ہیں یا انہیں مارنے والی بھارتی فوج، حکومت اور ان کے مظالم کا ساتھ دینے والی بھارتی عوام اور میڈیا دہشت گرد ہیں؟

یہاں پر افسوس اس بات کا ہے کہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کے ٹھکیدار امریکہ اور عالمی براد ری کو کشمیر میں ظلم ڈھاتی سات لاکھ انڈین آرمی نظر نہیں آتی۔ معاشی اور سیاسی مفادات کی خاطر اس ظلم کے خلاف ایک بیان تک نہیں دیتے۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر منافقانہ خاموشی جبکہ شام میں اپنی مرضی کا سیٹ اپ لانے کے لئے انسانی حقوق کا ڈھونگ رچاکر مزائل حملے عالمی برادری کی منافقت کو عیاں کرتے ہیں۔ کیا کشمیر ی انسان نہیں ہیں؟ کیا کشمیر اس دنیا کا حصہ نہیں ہے؟ مجھے تو لگتا ہے کہ عالمی طاقتوں کو نہتے کشمیریوں کے سرعام قتل کرنے اور بھارتی سامراج کی مضبوطی میں ہی انسانی حقوق کی سربلندی نظر آتی ہے۔

مودی سرکار پاکستان مخالف ایجنڈا بھارتی عوام کو صرف بیوقوف بنا کر ووٹ بٹورنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ حال ہی میں جب گجرات کے ا سٹیٹ الیکشن میں بی جے پی ہارتی ہوئی نظر آئی تو مودی نے وہاں پر بھی پاکستان مخالف ایجنڈے سے عوام کو بلیک میل کر کے الیکشن جیتا ہے۔

اب ہم پلوامہ حملہ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ کشمیر ٹائمز کی 10 ستمبر 2017 ء کی رپورٹ کے مطابق کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں کے گاؤں باربغ کے ایک گھر میں پولیس نے تین دہشت گردوں کا محاصرہ کیا، فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں دو دہشت گرد مارے گئے جبکہ ایک دہشت گرد عادل احمد ڈا ر کو اسلحہ سمیت پکڑے جانے کا دعوا کیا گیا اور انوسٹیگیشن کے بعد جنوبی کشمیر کے ڈی آئی جی پولیس ایس پی پنی (S P Pani) نے عادل احمد ڈار کا تعلق حزب المجاہدین سے بتایا۔ کیا یہ وہی عادل احمد ڈار نہیں ہے جسے مودی جیسے تنگ نظر سیاستدان نے اپنی الیکشن مہم کو مضبوط کرنے کے لئے پلوامہ حملے میں استعمال کیا؟ اور اگر ایسا نہیں تو پھر بتایا جائے کہ 10 ستمبر 2017 ء کو پکڑا جانے والا عادل احمد ڈار کہاں ہے اور اسے میڈیا کے سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا؟

اس ضمن میں مزید آج انڈیاکی سیاسی پارٹی ایم این ایس کے راہنما راج ٹھاکرے نے بھی کہا ہے کہ 14 فروری کو ہونے والا پلوامہ حملہ مودی کے قریبی ساتھی اور سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دول کے مکار ذہن کی تخلیق تھا اور الیکشن سے پہلے BJPپلوامہ جیسا ایک اور حملہ بھی کروا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر قابل فہم بات کی جائے تو جس علاقے میں لاکھوں کی تعداد میں انڈین آرمی، پولیس اور ہر قسم کی انڈین انٹیلیجنس کے ایجنٹس اور ان کے انفارمر کی بھرمار ہو اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ بارڈر بھی سیل ہو تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اتنا زیادہ RDX بارڈر سے دور جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے رہائشی 20 سالہ لڑکے تک پہنچ گیا۔ اور اب جب حملہ آور کا پتا چل گیا ہے تویہ کیوں پتا نہیں چل رہا کہ اس کے پاس بارود کیسے اور کہاں سے پہنچا اور اس کے سہولت کار کون تھے؟

یہاں پر مودی سرکار کو ایک بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ امریکہ عصر حاضر کی سپر پاور ہونے کے باوجود اپنے حریف شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ جنگ کی بجائے ٹیبل ٹاکس کو ترجیح د ے رہا ہے۔ اس لیے انڈیا کو آج کے زما نے کے نئے تقاضوں کو مد نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان شمالی کوریا اور ایران سے ایک بڑی جنگی طاقت ہونے کے ساتھ ایک اعلانیہ ایٹمی طاقت بھی ہے اور نہ ہی انڈیا امریکہ کی طرح کوئی سپر پاور ہے۔

اس تناظر میں مودی سرکار کی سیاسی مفادات کے لئے کم عقلی اور شدت پسندی پاک و ہند کو ایک بہت بڑی تباہی سے دو چار کر سکتی ہے۔ صرف ووٹ کی خاطر اپنی سوسائٹی کو شدت پسندی کا درس دینے، کشمیر یوں کو آزادی دینے کی بجائے ان پر مظالم ڈھانے، پڑو سیوں ممالک کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے اور اقلیتوں پر دائر ہ تنگ کرنیوالی حرکتیں، مودی سرکار کے انڈیا کو تاریخ کی غلط سائیڈ پر لاکھڑی کرتیں ہیں، جس کا نقصان آگے چل کر صرف اور صرف انڈیا ہی کو بھگتنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).