غیرت کے نام پر بلیدان


اس سے پہلے قارئین مجھ پر کوئی فتوی لگائیں میں انہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ سال 2012 ءہے اور جگہ کا نام ہے گاؤں گدار پالس۔ گدار کوہستان کے ضلع پالس کوہلی کے علاقے پالس کا ایک دور افتادہ گاؤں ہے۔ قراقرم ہائی وئے سے دو دن پیدل مسافت پر واقع گدار گاؤں میں آج شادی ہے۔ پانچ لڑکیاں جنہوں نے اپنے آپ کو چادروں میں چھپایا ہے مقامی لوک گیت گا رہی ہیں اور ان کے قریب دو لڑکے رقص کر رہے ہیں۔ ایک لڑکا موبائل سے ویڈیو بنا رہا ہے۔

شادی کا موقع ہے اور ان بے چاروں کے پاس خوشی منانے کا ایک معمولی بہانہ ہے۔ وہ اپنے انجام سے بے خبر تھوڑی سی خوشی کا اظہار گا کر اور رقص کر کرتے ہیں۔ دن گزر جاتے ہیں۔ جس نے موبائل پہ ویڈیو بنائی ہے اس کے موبائل سے یہ ویڈیو چارج کرتے وقت چوری ہوجاتی ہے اور پھر پورے گاؤں میں پھیل جاتی ہے۔ پورے گاؤں کی ”غیرت“ داؤ پر لگ جاتی ہے۔ غیرت کے رکھوالے بزرگ غصے میں ہیں۔ ان کی غیرت کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ان کی آن گھائل ہوجاتی ہے۔

غیرت کو عام نیلام کرنے والی لڑکیوں کو کمرے میں بند کیا جاتا ہے۔ ایک گھر ہے گاؤں کے مکھیا کا۔ اس پر واچ ٹاور تعمیر کیا گیا ہے۔ جس گھر پر یہ واچ ٹاور ہو وہ زیادہ مقدّم مانا جاتا ہے کہ اس کے مکین گاؤں میں مقام رکھتے ہیں اور اپنے اوپر ”بدل“ کبھی نہیں چھوڑتے۔ بلکہ بدل ائندہ نسلوں سے بھی لیا جاتا ہے۔ اسی گھر کے اندر ایک چارپائی پر مکھیا صاحب براجمان ہے دوسری طرف مولوی صاحب تشریف فرما ہیں۔ دونوں کے سامنے بہت سارے لوگ بیٹھے ہیں۔

ملک اور مولوی صاحب دونوں تھوڑی دیر تک کھسر پسر کرتے ہیں پھر ملک صیب سر اٹھا کر کہتا ہے ٕ، ”گاؤں والو، اس بے غیرتی کے لیے قربانی لازمی ہے۔ انا اور غیرت کے دیوتا کے سامنے انسانی قربانی لازمی ہے ورنہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے“ گھر میں موجود خواتین بے زبان ہوکر دیوار سے لگ کر یہ سب احکامات سن رہی ہیں۔ وہ غیرت کے ان سپوتوں کے سامنے آنسو نہیں بہا سکتیں۔ مگر انہیں معلوم ہے کہ غیرت کا یہ دیوتا کتنوں کو کھا گیا ہے۔

انہیں معلوم ہے کہ اب انا اور غیرت کے دیوتا کے سامنے ویڈیو والی لڑکیوں کا بلیدان ہوگا۔ انیں معلوم ہے کیونکہ صدیوں سے ہندوکش کے اس برف زاروں میں حوا کی بیٹی بلیدان دیتی آرہی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کا معاشرہ انسانوں کو کھا رہا ہے۔ کبھی انا کے دیوتا کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے تو کبھی غیرت کے دیوتا کو خوش کرنے کے لئے انہیں مار دیا جاتا ہے۔ رات کا وقت ہے رسیوں سے بندھی پانچوں لڑکیاں لائی جاتی ہیں۔ سہمی ہوئی لڑکیاں کبھی باپ کی طرف دیکھتی ہیں، تو کبھی بھائی کی طرف لیکن کہیں رحم کی جھلک نظر نہیں آتی۔

لڑکیاں مجبور ہوکر ماں کی طرف دیکھتی ہیں تو ماں آنکھیں چرا لیتی ہے اور کر بھی کیا سکتی ہے بے چاری ماں۔ مولوی صاحب کے اشارے پر ملک صیب حکم دیتا ہے کہ لڑکیوں کو ذبح کیا جائے۔ ذبح سمجھ گئے ناں؟ جس طرح ہم قربانی میں بھیڑ بکری ذبح کرتے ہیں ٹھیک اسی طریقے سے ذبح کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ اب تک تو سب کچھ پلان کے مطابق چلتا ہے کہ اچانک کہیں سے ایک بے غیرت کھڑا ہوتا ہے اور ظلم ظلم ظلم پکارتا جاتا ہے۔

وہ در در جا کر لوگوں کو سمجھاتا ہے کہ یہ ظلم ہے، زیادتی ہے، عورت بھی انسان ہے۔ کوئی بولتا ہے بے غیرت ہے، کوئی بولتا ہے پاگل ہے ورنہ ایسی باتیں کوئی تھوڑی کرتا ہے۔ عورت کب سے انسان ہوئی کہ اس پر ہونے والے ظلم کو ظلم کہا جائے؟ وہ اس ظلم کو جدید داروغوں کے ذریعے ریاست کے اداروں تک پہنچاتا ہے تو گاؤں والوں کی غیرت مزید شدّت اختیار کرتی ہے کیوں کہ ظلم پر جب سب اکٹھے ہوجائے تو وہ ظلم ظلم نہیں رہتا روایت بن جاتا ہے۔

یہ ہماری ریت روایت ہے کہ انا اور غیرت کے دیوتا کو ٹھیس پہنچے تو عورت کا بلیدان دو (حالانکہ یہ کہتے ہوئے یہ لوگ بھول جاتے ہیں کچھ زمانے پہلے تک ان پر ایک عورت ملکہ جواری خاتون حکمران تھیں ) ۔ لیکن وہ پاگل پھر بھی چیختا ہے۔ نیشنل میڈیا سے لے کر انٹرنیشنل میڈیا تک ہر جگہ پہنچ کر بس یہی رٹ لگاتا رہتا ہے کہ یہ ظلم ہے، یہ ظلم ہے۔ عدالت، قانون اور ریاست کے کرتا دھرتا معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے سارے افسر نوکر مل کر حکومت کی ناک بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک مشن عدالت کے حکم پر وہاں جاتا ہے مگر ان کے سامنے دوسری لڑکیاں لائی جاتی ہیں۔ مشن کا ایک ممبر شکوک کا اظہار کرتا ہے لیکن پورا مشن لڑکیوں کے زندہ ہونے کی دستاویز پر دستخط کردیتا ہے۔ انصاف کو وقت کے حکمران کی بدنامی کے سامنے کچل دیا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ سادہ لوح ہیں۔ ہنسی آتی ہے جب یہ جان کر کہ یہ لوگ کس طرح مشن کے سامنے ایسی لڑکیاں پیش کرتے ہیں جن کے انگوٹھے جلے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ انگلیوں کے نشانات کے ذریعے کہیں معلوم نہ کیا جاسکے۔

عدالت کیس کو خارج کر دیتی ہے کیوں کہ جس ممبر نے شکوک کا اظہار کیا تھا اس گواہی آدھی ہوگی کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے لڑتی اور اس معاشرے میں کب سے بے غیرت تصوّر کی جاچکی ہے۔ بعض احباب کی سوچ ہے کہ ان لوگوں کو انگوٹھے جلانے کا طریقہ ضرور کسی اعلی دماغ افسر نے سکھایا ہوگا۔ یوں افضل کا پاگل پن ثابت ہوجاتا ہے۔ اور ملک کے بڑے شہروں میں ”غیرت“ کے اکثر دانشور افضل کو بھی حسب معمول کسی ”غیر ملکی“ سازش کا کارندہ تصور کرتے ہیں۔

افضل کوہستانی پھر بھی ہمت نہیں ہارتا اور جنوری 2013 ء کو سپریم کورٹ میں ایک بار پھر دہائی دیتا ہے کہ کیس کو دوبارہ کھولا جائے اور مظلوم کو انصاف دیا جائے۔ ایک بار پھر اہل علاقہ جمع ہیں۔ مولوی صیب کے بغل میں بیٹھے ملک صیب افضل کوہستانی کے قتل کا فتوی جاری کرتا ہے۔ افضل کے خاندان کے 100 افراد اپنا گھر، اپنی زمین چھوڑ کر علاقے سے دور بھاگ جاتے ہیں، افضل تو نہیں ملتا لیکن اس کے تین معصوم بھائیوں کی قربانی لی جاتی ہے۔

ایک بار پھر ریاست اور میڈیا میں شور مچ جاتا ہے جیسے پہلے ہوا تھا۔ افضل خوش ہوجاتا ہے کہ اب اسے انصاف مل جائے گا لیکن ایک بار پھر ریاست بے وفا یار کی طرح جھلک دکھا کر غائب ہوجاتی ہے۔ افضل ڈرا سہما کبھی اس کے در پر تو کبھی اُس کے در پر دستک دیتا ہے لیکن اسے کہیں پناہ نہیں ملتی۔ وہ اس سماج اس ریاست کا باغی ہے تو پناہ اور ساتھ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ڈر کے مارے وہ روپوش ہوجاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ جو بات افضل 2012 ء میں کہتا اس کی تصدیق کرنے میں ریاست کو چھ سال لگ جاتے ہیں۔

جنوری 2019 ء میں حکومتی رپورٹ میں لڑکیوں کے قتل کی تصدیق کی جاتی ہے۔ افضل کی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر گشت کر رہی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اس کے جان کو خطرہ ہے لیکن پولیس انہیں تحفظ دینے کے بجائے ملک صاحبان اور مولوی صاحبان کا ساتھ دے رہی ہے۔ وہ چیخ چیخ کہ کہتا ہے مجھے بچاؤ لیکن کوئی اس کی مدد نہیں کرتا۔ کیسے کریں گے وہ انا اور غیرت کے دیوتا کا منکر جو ہے، کافر ہے، مشرک ہے۔ دن اسی طرح گزر رہے ہیں، پھر اچانک ایک دن خبر ملتی ہے کہ افضل کوہستانی کو مار دیا گیا ہے، ایک بار پھر شور و غوغا ہے، میڈیا سے لے کر ریاست تک سب چیخ رہے ہیں، وزیروں سے لے کر کمشنر تک سب مذمت کرتے ہیں، پولیس بھاگ دوڑ شروع کرتی ہے، ادھر ادھر سے دو چار لوگوں کو گرفتار بھی کرتی ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ کمیشن بنے گا جو تحقیقات کرے گی پھر فیصلہ کیا جائے گا۔

منظر بدلتا ہے۔ یہ افضل کا گاؤں ہے۔ ملک صاحب آ کر مولوی صاحب کے کان میں کچھ کہتا ہے۔ جسے سن کر مولوی صاحب سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں سے مسکراکر کہتا ہے مبارک ہو افضل مارا گیا۔ سور کی اولاد ہمارے انا اور غیرت کے دیوتا کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔ سامنے بیٹھے ہوئے لوگ خیر مبارک خیر مبارک کہہ کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک معزز ملک اپنی گھنی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر پوچھتا ہے مولوی صاحب پولیس کا کیا کریں گے۔ یہ سن کر مولوی صاحب کے گلے سے ایک قہقہہ بلند ہوتا ہے اور کہتا ہے وہی ہوگا جو اس سے پہلے ہوا تھا۔ کچھ دن ہمارے غازی ان کے مہمان ہوں گے اور پھر چپ چاپ چھوڑ دیں گے۔ ہمیں معلوم ہے ایسا ہی ہوگا کیونکہ اس سے پہلے ہزار بار ایسا ہی ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).