نیوزی لینڈ میں گزرنے والی قیامتِ صغریٰ


نیوزی لینڈ کی مساجد میں ہونے والے قتل و غارت گری کے واقعات نہایت افسوسناک، اندوہناک اور سفاکیت سے معمور ہیں۔ دو فیصد سے بھی کم مسلم آبادی کے چند پر امن لوگوں پر عین حالت نماز میں اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل عام کا اقدام انتہائی بزدلانہ، سنگدلانہ اور بے رحمانہ ہے۔ شہدا نے یقیناً میدان کربلا میں سجدے کی حالت میں مظلومانہ انداز سے جا ن جانِ آفریں کے سپرد کردینے والے ایمان افروز اور روح پرور سانحے کی یاد تازہ کر دی۔

مسلم امت کے ساتھ تمام انسانیت اس سفاک واقعے پر خون کے آنسو رو رہی ہے۔ نیوزی لینڈ میں 1990 کے بعد ہونے والا قتل و غارت گری کا یہ سب سے بڑا اور کرب انگیز واقعہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک اور میڈیا نے اس سانحے کے حوالے سے وہ سرگرمی اور گرم جوشی نہیں دکھائی جو دنیا میں ایسے واقعات کے بعد عام طور پر دکھائی جاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم، حکومت، سکیورٹی اداروں کے کارکنان اور درد دل رکھنے والے شہریوں نے مسلمانوں سے بھرپور یکجہتی دکھائی۔

وزیر اعظم تو سیاہ لباس پہن کر مسلم خواتین کا غم بانٹنے ان کے پاس پہنچ گئیں۔ اس واقعے میں ملوث انتہا پسند حملہ آور نے بربریت کی نئی سیاہ تاریخ رقم کی ہے۔ حملہ آور یقیناً دائیں بازو کا ایک جنونی ہے جس نے اپنی گن پر ان لوگوں کے نام لکھے تھے جو مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے جرم کی پاداش میں سزا یافتہ تھے۔ حملے کے لیے آتے وقت اس کی گاڑی میں وہ نغمہ بج رہا تھا جو جنگ بوسنیا میں سرب قوم پرست جنگی ترانے کے طور پر بجایا کرتے تھے۔ ایسے جنگی ترانوں میں سرب شدت پسند لیڈر رودووان کاراجچ کی بہادری کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے تھے۔ یاد رہے کہ مذکورہ جنگجو لیڈر جنگی جرائم کی پاداش میں پس دیوار زنداں ڈال دیا گیا تھا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ سفاک قاتل کے پاس لائسنس یافتہ بندوق تھی اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کی واچ لسٹ میں بھی شامل نہیں تھا۔ فی الحال وہ پولیس کی تحویل میں ہے اور تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بحث بھی بے وقت کی راگنی ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے یا قتلِ عام کا؟ قاتل کی ذہنی حالت، مذہبی جنونیت، وقوعے کا طریقہء کار، عینی شاہدین کے بیانات، شواہد و ثبوت;یہ تمام چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے۔

دہشت گردی کی ایک تعریف یہ ہے ”خوف اور ہراس پیدا کرکے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ایسا نپا تلا طریقہء کار یا حکمت عملی اختیار کرنا جس سے قصور وار اور بے قصور کی تمیز کے بغیر ہر ممکنہ ہدف کو ملوث کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر دہشت و تکلیف اور رعب و اضطراب پھیلا دیا جائے“ دہشت پھیلانے والوں کا مقصد مارنے سے زیادہ ہراس اور دہشت پھیلانا ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حملہ آور اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہے۔

جہاں تک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس سانحے کو براہ راست نہ دکھائے جانے کا تعلق ہے تو نیوزی لینڈ کی حکومت کا یہ اقدام خوش آئند ہے۔ کیونکہ اسے دکھانے سے خوف و ہراس کے علاوہ مسلمانوں کے دلوں میں غیر مسلموں کے خلاف نفرت اور خوں ریزی کے جذبات پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اس واقعے کی سفاکی اپنی جگہ مگر ڈھائی کروڑ آبادی والے آسٹریلیا اور پچاس لاکھ آبادی کے حامل نیوزی لینڈ میں محض چند لوگوں نے مذہب کے نام پر مسلمانوں کے خلاف یہ انسانیت سوز کارروائی کی مگر باقی تین کروڑ نفوس تو مسلمانوں کے غم میں برابرشریک ہیں۔

زخمیوں کو اٹھا کر ہسپتالوں میں پہنچانے والے، حملہ آور کو گرفتار کرنے والے، شہید ہونے والوں کے لواحقین کی دلجوئی کرنے والے پوری دنیا میں اربوں کی تعداد میں ہیں۔ حملہ آور نے اپنے ملک آسٹریلیا کو چھوڑ کر پڑوسی ملک نیوزی لینڈ میں خون مسلم سے ہولی کیوں کھیلنا چاہی، یہ مسئلہ بھی ابھی لاینحل ہے۔ پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک میں مذہب کے ٹھیکداروں کو اس واقعے کی آڑ میں شدت پسند جذبات کو انگیخت نہیں کرنا چاہیے اور بے قصور و پر امن غیر مسلم ہم وطنوں کی زندگی اجیرن نہیں کرنا چاہیے۔

مقام افسوس ہے کہ کچھ لوگ اس سانحے کو دیسی لبرلز اور مذہبی طبقوں میں تقسیم کے لیے استعمال کرنے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کسی ایک گروہ کا نہیں پوری انسانیت کا نقصان عظیم ہے۔ خاص طور پر مذہب کے ان فدایان اور پر جوش مجاہدین کو تو اس واقعے کے جملہ حقوق اپنے نام کرنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے جو خود مسلکی فرق کو بنیاد بنا کر فلاں کافر ہے کی رٹ لگا کر مسجدوں اور عبادت گاہوں میں خود کش حملے کرتے پھرتے ہیں۔

اس دل فگار سانحے کا جواز پیش کرنا مقصود نہیں صرف ریکارڈ کی درستی اور یورپی ممالک کے شہریوں کے پر امن بقائے باہمی کے رویے کو سامنے لانے کے لیے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ برطانیہ، فرانس، بلجئیم، ناروے، ترکی، جرمنی اور سویڈن کے بڑے شہروں میں مسلمان دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے نائن الیون کے بعد درجنوں فدائی حملے، دھماکے اور فائرنگ کے واقعات میں ہزاروں شہری قتل اور زخمی کیے جاچکے ہیں، اس کے باوجود آج بھی مسلمان پر امن طور پر وہاں پوری مذہبی آزادی کے ساتھ پر آسائش زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں نیوزی لینڈ کی حکومت اور اداروں پر اعتماد رکھنا چاہیے کہ وہ اس اندوہ ناک سانحے کے پس پردہ سازش کو بے نقاب کرکے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).