کلدیپ نائر کے خاکے۔ ٹیپو سلطان، بہادر شاہ ظفر اور عمران خان


مشہور و معروف بھارتی صحافی کلدیپ نائر 23 اگست 2018 کو وفات پا گئے تھے۔ انہوں نے تقریبا چھیانوے برس کی عمر پائی۔ وہ پاک بھارت تاریخ کے اہم واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔ انہوں نے 1950 ء میں ایک اردو اخبار کے رپوٹر کے طور پر اپنے صحافتی کیریر کا آغاز کیا۔ لیکن بعد میں انہوں نے یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا سے منسلک ہونے کے بعد انگریزی صحافت کو اختیار کیا۔ کلدیب نائر اسٹیٹس مین۔ دہلی کے ایڈیٹر رہے مگر ان کی طویل وابستگی انڈین ایکسپریس کے ساتھ رہی۔

اندار گاندھی پر جارحانہ تنقید کرنے کی پاداش میں 75۔ 77 کے عرصے میں اندرا گاندھی کی نافذ کی گئی ایمرجنسی میں پابند سلاسل بھی رہے۔ وہ انسانی حقوق کی جدوجہد کے ایک سرگرم رکن تھے اور 1996 ء میں اقوام متحدہ جانے والے بھارتی وفد میں بھی شامل تھے۔ 1990 ء میں برطانیہ میں بطور ہائی کمشنر تعینات ہوئے اور 1997 ء میں راجیہ سبھا کے رکن بھی نامزد ہوئے۔ ان کا ہفتہ وار کالم تقریبا اسّی اخبارات میں بیک وقت شائع ہوتا تھا جس میں ڈیکون ہیرالڈ، دی ڈیلی اسٹار، دی سنڈے گارڈین اور ڈان، پاکستان جیسے مؤقر اخبار شامل تھے۔ کلدیپ نائر نے پندرہ کتابیں تصنیف کیں جن میں ان کی خودنوشت Beyond the Lines بھی شامل ہے۔

ان کے انتقال کے بعد سیاسی، علمی اور فنی شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ان کی کتاب On Leaders and Icons from Jinnah to Modi شائع ہوئی۔ کتاب کا پیش لفظ بی بی سی کے سابق بیورو چیف مارک ٹیلی نے لکھا ہے۔ کتاب میں بانی پاکستان محمد علی جناح، مہاتما گاندھی، خان عبدالغفار خان، جواہر لعل نہرو، لعل بہادر شاستری، اندار گاندھی، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمٰن، شیخ عبداللہ، جے پرکاش نارائن، بی۔ پی، کوئرلا، جے۔ آر۔ ڈی۔ ٹاٹا، مینا کماری، نورجہاں، فیض احمد فیض، اٹل بہاری واجپائی، من موہن سنگھ اور نریندر مودی کے بارے میں تاثرات موجود ہیں۔

کتاب کے عنوان کے بارے میں کلدیپ نائر دیباچے میں لکھتے ہیں کہ اگر ان پر چھوڑا جاتا تو وہ اس کتاب کا عنوان Heroes، Neros and Zeroes رکھتے۔ کیونکہ تاریخ میں بطور ہیر وان شخصیات کو چننا بہت آسان ہیں جنھوں نے قومی جدو جہد میں اپنی زندگیاں وقف کیں۔ لیکن ان شخصیات اور کرداروں کا تعین کرنا مشکل ہیں جنھوں نے روم کے نیرو کی طرح عوام کو جلنے مرنے دیا اور اپنی بانسری بجانے اور راگ الاپنے میں مگن رہے۔

ممکن ہے کہ ان کی اپنے (غلط یا صحیح) نظریے سے وابستگی یا پھر شعلوں کے ڈرسے آگ میں کودنے سے ڈرتے تھے۔ لیکن ایسے کرداروں کو آنیوالی نسل موقع شناس اور موقع پرست کے طور پر یاد رکھے گی۔ لیکن زیرو کون ہیں اس کا ذکر انہوں نے نہیں کیا اور اس کیا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا ہے۔ کلدیپ نائر لکھتے ہیں کہ 997 1 ء میں انہوں نے بھارتی وزیراعظم گجرال کے ہمراہ کیپ ٹاؤن کا دورہ کیا۔ وہاں انہوں نے ساؤتھ افریقہ کے ہیرو نیلسن منڈیلا سے سوال کیا کہ انہوں نے کس طرح اکیس سال قید تنہائی کی جیل کاٹی؟ منڈیلا نے جواب دیا کہ کیپ ٹاؤن شہر کی روشنیوں نے ہمیشہ انھیں استقامت دیے رکھی اور یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ دن ضرور آئے گا جب ہم غلامی کی تاریکیوں کو دفن کرکے آزادی کی روشنیوں میں زندگیاں بسر کریں گے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بلاشبہ ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔ آج کل پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے بھی مودی کی مکاری اور عیاری کا ہر جگہ خوب تذکرہ ہے۔ مودی پر تحریر کیے خاکے میں کلدیپ نائر مودی کے ان تعریفی کلمات کو سراہتے ہیں جو مودی نے کلدیپ نائر کی ان پر تنقید کے باوجود ادا کیے تھے۔ 1975 ء کی اندرا گاندھی کی نافذ کی گئی ایمرجنسی میں نائر اور مودی کا نقطہ نظر ایک ہی تھا۔ لیکن کلدیپ نائر یہاں یہ وضاحت بھی کرتے ہیں کہ مودی ہندو قوم پرست آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔

آر ایس ایس ( راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ) جسے 1925 ء میں مہارا شٹر کے کیشوا بلی رام نے قائم کیا تھا ایک ہندو قوم پرست تنظیم ہے۔ جب کہ وہ کثیر الاقومی معاشرے پر یقین رکھتے ہیں۔ کلدیپ نائر گاندھی کے حوالے سے ایک خاص بات یہ لکھتے ہیں کہ ان کی دعائیہ تقریبات میں قرآن کی تلاوت کے ساتھ گیتا اور بائبل کو بھی پڑھا جاتا تھا۔ اگرچہ مودی گاندھی جی کی عزت کرتے ہیں لیکن ان کی جماعت کا سیاسی فلسفہ گاندھی کی سیاست کے برعکس ہے۔

کلدیپ نائر لکھتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کو ویسے تو پسند نہیں کرتے تھے لیکن وہ اس پر مسرور بھی تھے ْْکہ سرحد میں خان عبدالغفار خان کاگہرا اثر ہے، جو کانگریس کے کٹر حامی ہیں۔ کانگریس کے چوٹی کے رہنماؤں میں مولانا ابولکلام آزاد بھی تھے لیکن انہوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو ہندوں کے لیے وقف کردیا تھا۔  یہاں قائد اعظم کا ذکر کرتے ہوئے کلدیپ نائر لکھتے ہیں کہ جب وہ پنجاب لاء کالج کے آخری سال میں تھے تو وہاں قائد اعظم نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں لیکن میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ دونوں کو متحد ہوکر ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا چایئے۔

نائر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے قائد نے اس یقین کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان اچھے پڑوسی اور دوست ہوں گے۔ لیکن آج دونوں ممالک میں کشیدگی انتہا پر اور رابطوں کا شدید فقدان ہے۔ پاکستانیوں کے لیے ناممکنات میں سے ہے کہ وہ انڈیا کا ویزہ حاصل کرسکیں اور اسی طرح بھارتیوں کے لیے بھی مشکلات ہیں۔ کلدیپ نائر کا خیال ہے کہ مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے کوشش کی۔ اس کے لیے انہوں نے روس اور افغانستان سے واپسی پر لاہور رک کر اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو خیر سگالی کا پیغام بھی دیا جو رواں دہائی میں کسی بھارتی وزیر اعظم کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔ کلدیپ نائر کا دعویٰ ہے کہ دونوں سربراہوں نے اس ملاقات میں کشمیر کے معاملے پر بھی بات کی تھی۔ شخصیات کے خاکوں پر مشتمل اس کتاب کا مطالعہ سیاست اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے یقینا دلچسپی کا باعث ہوگا۔

چند روز قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں جب ہم پیچھے دیکھتے ہیں تو بہادر شاہ ظفر تھا اور ٹیپو سلطان۔ بہادر شاہ ظفر نے موت کی بجائے غلامی کو چنا ٹیپو سلطان نے غلامی کو نہیں چنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قوم کا ہیرو ٹیپو سلطان ہے۔ عمران خان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف محقق جناب حسن بیگ صاحب نے ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کو خط لکھا۔

حسن بیگ لکھتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیپو سلطان نے بہادر شاہ ظفر کے مقابلے میں بہتر اور منظم جنگ لڑی۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ میسور کی جنگ مقامی سطح پر لڑی گئی تھی جب کہ 1857 ء کی جنگ آزادی پورے ہندوستان میں برپا ہوئی تھی جو مثبت اور تعصب سے پاک مؤرخین کے نزدیک تقریبا کامیابی سے ہم کنار ہوچکی تھی لیکن پنجاب کے اجارہ دار طبقات کے عدم تعاون، استعماری طاقتوں کی برقی تار کی ٹیکنالوجی اور بہادر شاہ ظفر کی پیرانہ سالی کے سبب مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکی۔ عدالت میں بھی بہادر شاہ ظفر کا رویہ اپنے بچاؤ کا نظر آیا۔ لیکن اگر غداران بہادر شاہ ظفر اور شمال مغربی ہندوستان سے زیادہ لوگ اس جنگ میں شریک ہوجاتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔ پنجاب کے کچھ علاقوں جیسے کے ساہیوال میں بغاوت کو مقامی مدد ملی لیکن مکمل جدوجہد نہ ہوسکی۔

ہمارے یہاں یہ المیہ بھی موجود ہے کہ تاریخ کو اصل واقعات اور اس کے نتائج کو پس منظر میں نہیں دیکھا جاتا بلکہ اپنے اپنے مکتبہ فکر اور مفادات کی روشنی میں تاریخ کو ترتیب اور پیش کیا جاتا رہا ہے۔ کیا تاریخ کی درستگی ممکن ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).