نیا پاکستان، پچاس لاکھ گھروں کا پہلا گھر


مبارک ہو پاکستانیو۔ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے۔ نیا پاکستان اسکیم کے تحت تعمیر ہونے والے پچاس لاکھ گھروں میں سے پہلے گھر کو بنانے کے لیے بل پاس کر لیا گیا ہے۔ اور باقی انچاس لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے گھر بھی جلد ہی پاکستان کے نقشے پہ ابھرے نظر آئیں گے۔ اب وہ وقت قطعاً دور نہیں ہے کہ جب ہر بے گھر کے پاس اپنا گھر ہو گا۔ ہر بے روزگار کے پاس اپنا روزگار ہو گا۔ ہر غریب کے پاس دو وقت کے کھانے کے باعزت کھانا ہوگا۔ ہر یتیم کے سر پہ ریاست باپ کا سایہ بنے گی۔ ہر بیوہ کا آسرا یہ ریاست خود بنے گی۔ اور دودھ و شہد کی نہروں سے فیض یاب ہونے کو بھی اب تیار ہو جاؤ۔ پاکستانیو جو دن پھرنے تھے وہ پھر گئے ہیں۔ وعدہ ایفا ہو گئے ہیں اور اب تم دیکھو گے کہ کیسے ہم چٹکیوں میں پچاس لاکھ گھر بنا کے تمہارے حوالے کر دیں گے۔

پہلا قدم اٹھ گیا ہے۔ اور پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے تحت اب وزیر اعلیٰ پنجاب کو چاہے موجودہ ہو یا سابقہ اسے لاہور میں ایک مفت گھر رہنے کو حکومت پنجاب کی طرف سے دیا جائے گا۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ لاہور میں گھر کا مالک نہ ہو۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ کسی بھی حوالے سے لاہوریا نہ ہو۔ اور خوشی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے غریب ممبران پنجاب اسمبلی بھی ککھ پتی سے لکھ پتی ہو گئے ہیں۔ کیوں کہ ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں بھی گوناگوں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

اورشنید یہی ہے کہ اس اضافے پہ عوام سکھ کا سانس لیں گے کہ بھلا ان کے نمائندے غریب ہوں تو عوام کا معیار زندگی کیسے بلند ہو سکتا ہے۔ ایک رکن صوبائی اسمبلی کی تنخواہ 83 ہزار سے بڑھا کر دو لاکھ کر دی گئی ہے۔ ویسے تو یہ بھی کم ہے لیکن چلیے آٹے میں نمک کے برابر تو ہوئی۔ غربت کے پیش نظر ان کے ڈیلی الاونس، مہمانداری الاونس، یوٹیلیٹی الاونس دفتری الاونس، ہاوس رینٹ و دیگر مد میں بھی اضافہ بھی کیا گیا ہے کیوں کہ بے چاروں کا حق بنتا تھا۔

صوبے کے وزیر اعلیٰ انتہائی ہی شریف النفس ہیں۔ ان سے اصرار کیا گیا کہ وہ اپنی تنخواہ و مراعات میں بھی اضافہ قبول فرمائیں لیکن وہ صرف سوا چار لاکھ ماہانہ پہ راضی ہوئے۔ اس دوران ان کی بڑبڑاہٹ سے واضح ہوا کہ وہ بضد تھے کہ ان کے لیے پچاس ہزار ہی کافی تھے۔ لیکن عوام کے اصرار پہ انہوں نے چارو ناچار سوا چار لاکھ کا ماہانہ پیکج عوام کی نوکری کے لیے قبول کیا ہے۔ لیکن ان کا اصرار یہ بھی ہے کہ دیگر اخراجات طشت ازبام نہ کیے جائیں کیوں کہ پھر۔

وزرا، مشیران، پارلیمانی سیکریٹریز، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، سپیشل اسسٹنٹ وغیرہ بھی عوام کے اصرار اور پرزور نعرہ زنی کے بعد تنخواہوں میں تین گنا اضافہ لینے پہ راضی ہوئے۔ شنید ہے کہ تمام ممبران صوبائی اسمبلی اور حکومتی عہیدیدار اس حوالے سے احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جب وہ اتنا اضافہ تنخواہوں میں نہیں لینا چاہتے تو عوام کیوں بضد ہیں اس اضافے پہ۔ دوسری جانب عوام نے بھی جوابی احتجاج کا ارادہ کر لیا ہے کہ اگر ہمارے ممبران صوبائی اسمبلی انکار کرتے ہیں اضافہ لینے سے تو وہ ان کی جھونپڑیوں میں زبردستی پھینک آئیں گے۔ عوام نے اپنے محلات پہ اس حوالے سے خیر مقدمی بینر بھی آویزاں کرنے شروع کر دیے ہیں کہ ان کی خوشی دیدنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).