دمشق اور بغداد کے گھروں، کیفوں میں ہمارے فائٹر پائلٹوں کی کہانیاں


حامد میر کے کالم ”عزت چاہیے یا ذلت“ نے مجھے کیا کیا نہیں یاددلایا۔ تین کہانیاں جو دمشق کے گھروں، دجلہ کے پانیوں، بغداد کے کیفوں اور مسجدوں میں بکھری مجھے ملی تھیں۔ فخرو عزت کی داستانیں جنہیں سُن کر میرے دل نے آصیل مرغ کی اپنے پر پھیلائے تھے اورذلت کا سُن کر میرا سر ندامت سے جُھک گیا تھا۔

توآیئے پہلے آپ کو دنیا کے کلاسیکل حُسن رکھنے والے شہر دمشق لے کر چلتی ہوں۔ جنگ سے پہلے کا دمشق جسے ابدیت کا شہر کہا جاتا تھا۔ جس کا جادوئی حُسن کا سحر آنکھوں میں رقصاں پتلیوں کو منجمند کرتا تھا۔ جس کے بارے مارک ٹوئن نے کہا تھا۔ دمشق کو کبھی ماہ و سال کے پیمانوں سے مت ماپنا۔ اس کی صورت گری صرف سلطنوں کے عروج و زوال کے آئینوں میں ہی ممکن ہے۔

تو 2008 کے اُن دنوں جب میں دمشق میں تھی اورجولائی کی ایک گرم سی صبح عرب رائٹرز یونین کے مزہ Mezzeh میں واقع دفتر میں شامی لکھاریوں سے ملنے گئی۔ یہاں رابطہ افسر ز قاسم دیبے نے مجھے ثمریز بک سے ملنے کو کہا۔

”بہت ہی منفرد صلاحیتوں کی حامل خاتون ہے۔ رائٹر اور جرنلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ فلم سکرپٹ، ٹی وی ڈرامہ رائٹر، ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ اور وویمن رائٹس کی علم بردار ہے۔ دبنگ عورت آپ کے سوالوں کے جواب زیادہ عمدگی سے دے گی۔ یہیں مزہ میں ہی فل الحال اپنی ایک عزیزہ کے پاس رہ رہی ہے۔ “

پتہ بھی انہوں نے دیا اور جائے وقوع بھی اپنے کارڈ پر لکھ دی کہ ٹیکسی ڈرائیور کو سمجھنے میں سہولت رہے۔

میری بیٹی کی عمر کی ہوگی وہ جس نے دروازہ کھولا تھا۔ خوبصورت، دل کش خدوخال اور سنہری بالوں والی۔ ایک اجنبی چہرے کو دیکھ کر چند لمحوں کی حیرت اُس کے چہرے پر بھی بکھر گئی تھی۔ میں نے دیر نہیں لگائی۔ فوراً ہی تعارف کروادیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ تھی کہ جب اُس نے پاکستان کا نام سنتے ہی مجھے گرم جوشی سے پذیرائی دی اور اندر آنے کا راستہ دکھایا۔

مگر بڑا سیاپا پڑا۔ ثمر انگریزی میں نری پیدل تھی۔ پھر کمرے میں ایک خاتون داخل ہوئی جو اُدھیڑ عمری کے باوجود ایسی حسین تھی کہ بس ٹک ٹک دیدم ودم نہ کشیدم والا معاملہ تھا۔ میرے اس درجہ جذب کو اس نے پسندیدگی سے دیکھا اور مسکرا دی۔

اُس کی انگریزی بھی لاجواب تھی۔ وہ ثمریز بک کی رشتے دار تھی۔ وہ اسامہ بن لادن کی پہلی بیوی کی بھی رشتے دار تھی۔ ثمر اور میرے درمیان ترجمانی کے فرائض بھی اس نے بعد میں ادا کیے۔ پہلے ایک بڑا سنسنی خیز سا انکشاف ہوا جو کسی طور ایک دلچسپ سی کہانی سے کم نہیں تھا۔

1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ جسے یوم کپور کی جنگ بھی کہتے ہیں سے ہوا۔ زمانہ بھٹو کا تھا جو عرب ممالک کے کم و بیش سبھی حکمرانوں کے یاروں کے یار تھے۔ درخواست شام کے حافظ الاسد کی جانب سے آئی تھی کہ انہیں چند بہترین جنگی ہوا بازوں کی ضورت ہے۔

اِس جنگ میں حصہ لینے کے لئے پاکستان ایئر فورس کے چند جیالے پائلٹ شام سدھارے جنہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کسی حد تک فتح کو ممکن بنانے میں مدد دی۔ اسرائیل کو اپنی ہزیمت کا اعتراف کرنا پڑا۔

یہاں تک تو جو واقعہ تھا اس سے میں خود بھی تھوڑی سی واقف تھی۔ مگر آگے جو سننے کو ملاوہ بڑا دلچسپ تھا۔

جنگ کے بعد اِن ہوابازوں کو حافظ الاسد نے اپنے صدارتی محل میں خصوصی ڈنر پر مدعو کیا۔ یہ ایک طرح دوست ملک کے لئے اظہار محبت تھا۔ اظہار ممنونیت تھا۔ اسد فیملی کے چند افراد بھی مدعو تھے۔ حافظ الاسد کی بیوی کی ایک کزن بھی تقریب میں شامل تھی۔

اور یہ کزن امل وہی خاتون تھیں۔ جس سے میں اس وقت باتیں کرتی تھی اور جس کی آنکھیں پاکستانی جیٹ فائٹرز کا ذکر کرتے ہوئے ہیروں کی طرح جگمگاتی تھیں۔ اُن میں وارفتگی اور شوق کا ایک جہان مجھے تو امنڈتا محسوس ہوا تھا۔ لہجے میں محبت کا رچاؤ تھا۔ اور یہ رچاؤ کِسی خوبصورت داستان کا بھی غماز تھا۔ ہم بھی تو اپنی جوانی میں اپنے اِن جیالوں سے ایسی ہی محبتیں کرتے تھے جو سچی بات ہے ستاروں پر کمندیں ڈالتے تھے۔

پاکستانی ہوا بازوں میں تین چار بہت وجہیہ صورت، دراز قد اور بڑی ڈیشنگ قسم کی شخصیت کے مالک تھے۔ اب ہوا یوں کہ امل کو ایک پاکستانی پائلٹ تو ایسا بھایا کہ میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر لیا۔ میں نے نام جاننے کی بہتیری کوشش کی مگر انہوں نے گریز کیا۔ پاکستانی شادی شدہ دو بچوں کا باپ تھا۔ اِ س کہانی کا انجام تو بہرحال المیہ ہی تھا۔ تاہم امل کے طوفانی قسم کے عشق کی داستان بہت عرصے تک خاندان میں گردش کرتی رہی۔

دوسری بار اپنے جیالوں کا ذکر دمشق سیٹیڈل میں سُننے کو ملا۔ میں پرانے دمشق کے ساحتہ المسکیہ کے کھلے میدان میں کھڑی ایک ایسے منظر کو دیکھتی تھی جس نے آنکھوں کو ساکت اور قدموں کو پتھر کردیا تھا۔ حداد ٹمپل کے صدیوں قدیمی شکستہ سے کالموں کے عین درمیان سے اُمیہّ مسجد کا تاکا جھانکی کرتا خوبصورت مینار کیسے انوکھے سے منظر کا عکاس تھا۔ میرے سامنے ایک طرف دمشق کا شہرہ آفاق الحمیدہ بازار تھا جس میں سے گزرتی ہوئی میں ابھی یہاں آئی تھی۔ دائیں جانب اُس اموی خلیفہ ولید بن عبدالمالک کا شاہکار وہ امیہ مسجد ہے جو دمشق کا لینڈ مارک ہے۔ منظروں کے اِس حسن و جاذبیت کو اپنے اندر اُتارتی حسین شاپ میں داخل ہوئی۔

کاؤنٹر پر بیٹھا سنجیدہ سا درمیانی عمر کا مرد جس کے پاس جاکر میں نے اپنا تعارف کروایا۔ نزار قبانی کے کلام کی انگریزی ٹرانسلیشن کا پوچھا۔ میں تو اِسے اپنی خوش قسمتی ہی کہوں گی کہ اس کے ملازم نے A selection of Nazzar Qabbani کوئی سو صفحے کی کتاب میرے ہاتھ میں تھما دی۔

اُس نے پاکستانی کا جان کر مجھے توجہ دی۔ خوش قسمتی کہ دکان میں بھی رش نہ تھا۔ ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ وہ شستہ انگریزی میں مجھ سے مخاطب ہوا تھا۔ آپ کے فائٹرپائلٹوں کے بہت ممنون ہیں۔ 1967 اور 1973 کی عرب اسرائیل جنگوں میں انہوں نے جس طرح ہماری مدد کی ہم بہت شکرگزار تھے۔ میں اُس وقت نوعمر لڑکا تھا۔ اُن کی دلیری اور بہادری کی کہانیوں نے اِن ہوا بازوں کے بارے میں ہمیں بہت مسرور اور جوشیلا کیے رکھا تھا۔

کیا کوئی میرے اُن لمحوں کی مسرت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ میری آنکھیں گیلی ہوگئی تھیں۔

آئیے اب آپ کو بغداد لے چلوں۔ المتنابی سٹریٹ کی ال شابندر کافی ہاؤس جس کی کھڑکیوں سے دجلہ لشکارے مارتا نظرآتا ہے۔ دیواروں کے ساتھ جڑی سیٹیں، چوبی ڈیزائن دار خم کھاتے آمنے سامنے دھرے صوفوں پر بیٹھے عراقی مرد کہیں پینٹ قمیضوں، کہیں توپ میں ملبوس، کہیں قہوہ پیتے اور کہیں نرد کھیلتے نظرآئے تھے۔

جنگ، امریکہ، صدام، سُنی، شیعہ پاکستان عراقی ادیب اور شاعر تھوڑی بہت باتیں سبھوں پر ہوئیں۔ دفعتاً ایک سُرخ و سفید بوڑھے نے انگریزی میں مجھ سے کہا۔ میں الرشید سٹریٹ میں ایک بہت بڑے سیلون کا مالک ہوں۔ امریکی فوجی میرے ہی سیلون میں آتے ہیں۔ پھر جیسے اس نے محبت اور اپنایت سے کہا۔ پاکستانی پائلٹوں کی کٹنگ کرنے کا بھی مجھے اعزاز حاصل رہا ہے۔ الحمدللہ بڑے جی دار اور جیالے تھے وہ۔ دیکھو اُن کی کٹنگ میں ہمیشہ خود محبت اور شوق سے کرتا تھا۔

کبھی ملازم لڑکوں سے نہیں کرواتا تھا۔ امریکی بھی میرے سیلون پر آتے ہیں۔ یہاں دکھ اور مجبوری ہے۔ نہ انہیں ہم پر اعتماد ہے اور نہ ہی ہمیں اُن پر۔ وہ بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں استرے بلیڈ سے کھیلتے کھیلتے ہم اُن کا گلا نہ کاٹ دیں اور ہم بھی خوف زدہ رہتے ہیں کہ گودوں میں رکھی بندوقوں کا رخ پل جھپکتے میں ہماری طرف نہ ہوجائے۔

اب ذرا ذلت کی کہانی بھی سُنا دوں۔ دجلہ کے ایمہ برج سے اعظمیہ میں اُس عظیم فقیہہ امام ابو حنیفہ کی مسجد اور مزار مبارک میں داخل ہوتی ہوں۔ حسن اتفاق ہی تھا کہ یہاں ملاقات ڈاکٹر قاسی سے ہوئی۔ جو اِس مسجد اور روضہ مبارک کے منتظمِ اعلیٰ تھے۔ فوراً آگے بڑھ کر تعارف کروایا اور اُن سے چند لمحے دینے کی بھی درخواست کی۔ وہ مزارِ مبارک کے پاس ہی کُرسی پر بیٹھ گئے۔

میں سامنے قالین پر بیٹھ گئی تھی۔

”کچھ روشنی ڈالئے۔ کچھ بتائیے آپ کی نظر ان حالات کو کِس تناظر میں دیکھتی ہے۔ “

کاش میں اُن سے کچھ نہ پُوچھتی۔ وہ پھٹ پڑے تھے۔

امریکیوں سے کہیں زیادہ وہ سعودی عرب، اُردن، مصر اور دیگر اسلامی ملکوں کی مفاد پرستیوں پر برہم تھے۔ کاش ڈوب مرنے کے لئے کوئی جگہ ہوتی۔ جنرل ضیا الحق نے فلسطینیوں پر جو ٹینک توپیں چلائی تھیں وہ اُس کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل سے آگاہ تھے۔ پاکستان کے حکمران کو شرم آنی چاہیے تھی۔ جی چاہا تھا سرپِیٹ لوں۔ اسلام کا دعوے دار۔ ابھی تو یہ مقام شکر تھا کہ ڈالروں کے لالچ میں عراق فوجیں نہیں بھیجیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).