عالمی سطح پر کشمیریوں کی نمائندگی کی ضرورت !


ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چند دنوں کی جنگی صورتحال کے بعد ”امریکی معاونت کاری“ کی بدولت خطرناک صورتحال میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے۔ ہندوستان کے جنگی طیاروں کی پاکستان میں داخل ہو کر بالاکوٹ میں بمباری، پاکستان فضائیہ کی جوابی کارروائی میں ہندوستان کے ایک جنگی طیارے کی تباہی اور اس کے پائلٹ کی گرفتاری سے یہ واضح ہوا کہ پاکستان کی طرف سے ہندوستانی جارحیت کا سخت جواب پاکستان کے دفاع کا ناگزیر ’آپشن‘ ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان جنگی تباہ کاریوں کے مہلک ترین خطرات میں ہندوستان کے بالخصوص الیکٹرانک میڈیاکی طرف سے جنگی ہیجان خیزی کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا۔ انڈین صحافی چیخ چیخ کر پاکستان پر حملے کرنے کی وکالت کرتے نظر آئے۔ جذباتی اور جنونی رویہ تو ایک طرف، انڈین ٹی وی کے صحافیوں نے جس غیر اخلاقی، بد تہذیبی پر مبنی رویے کا اظہار کیا، اس کی کسی بھی معاشرے میں تعریف نہیں کی جا سکتی۔ انڈین صحافیوں کے اس طرز تکلم نے ہندوستان کو دنیا بھر میں ایک تماشا بنا دیا۔

حیرانی ہوئی کہ کیا ہندوستان کی سیاست کی طرح میڈیا بھی اخلاقی تقاضوں سے عاری ہو چکا ہے۔ جنگی ماحول پیدا کرتے ہوئے انڈین کی میڈیا انڈسٹری مکمل طور پر انڈین اسٹیبلشمنٹ کی ترجمانی پر مامور نظر آئی۔ انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ ’بی جے پی‘ کی مودی حکومت آئندہ ماہ سے ہونے والے پارلیمنٹ کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے پلوامہ واقعہ کی آڑ میں جنونیت اور ہندو انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہے۔ جنگ کے خطرات میں قدرے کمی کے باوجود کشمیر اور کشمیریوں کو جابرانہ و ظالمانہ طور پر تقسیم کرنے والے لائین آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان جھڑپوں میں تیزی آئی ہے جس سے کنٹرول لائین کے دونوں طرف کی شہری آبادیاں شدید متاثر ہورہی ہیں۔

بر صغیر کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان حالیہ جنگی صورتحال کی وجہ بھی کشمیر کا مسئلہ اور تنازع ہی ہے۔ پلوامہ میں ہندوستانی فوجی قافلے پر حملے کا الزام مولانا مسعود اظہر کی تنظیم پر لگاتے ہوئے ہندوستانی حکومت نے اس کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی بھر پور کوشش کی۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ اگر پلوامہ حملے سے متعلق کوئی ثبوت ہیں تو پاکستان کو دیے جائیں جس پر کارروائی کی جائے گی۔ ہندوستانی نے پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان کو دیے گئے ”ڈوزئیر“ میں مولانا مسعود اظہر کی تنظیم کے افراد کی ایک فہرست سمیت یہ دعوی بھی کیا کہ پلوامہ حملے میں ملوث افراد نے بالاکوٹ کے ایک کیمپ سے تربیت حاصل کی ہے۔

اس کے جواب میں پاکستان کی حکومت نے کہا ہے کہ ہندوستان کے ”ڈوزئیر“ میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔ دریں اثناء پاکستان میں مولانا مسعود اظہر اور حافظ محمد سعید کی تنظیموں کی عمارات کا انتظام صوبائی حکومتوں نے سنبھال لیا ہے۔ ایک سرکاری اطلاع کے مطابق آزاد کشمیر میں بھی جماعت الدعوة کی فلاحی اداروں سمیت تمام مراکز کا انتظام حکومت نے سنبھال لیا ہے۔ پاکستان میں اسی حوالے سے گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔

دوسری طرف چین نے سلامتی کونسل میں امریکہ، فرانس، اور برطانیہ کی جانب سے مولانا مسعود اظہر کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی قرارداد پر تکنیکی اعتراض اٹھاتے ہوئے اسے چوتھی مرتبہ موخر کروایا ہے۔ تکنیکی طور پر قرارداد کو موخر کروانے کا دورانیہ 6 ماہ ہوگا اور اس میں مزید 3 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس حوالے سے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکینگ کا کہنا ہے کہ چین ایک ذمہ دار رویہ اپنائے گا اور گفتگو میں بدستور شریک ہوگا، معاملے کا ذمہ دارانہ حل صرف بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ چینی ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں عالمی برادری کو اس قسم کے مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ مسئلہ کشمیر کی جانب بھی توجہ دینے کی بات کی۔

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہولناک جنگ کے خطرات کے موجب خطے کشمیر کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں ہزاروں کی تعداد میں مزید بھارتی فوج تعینات کرتے ہوئے جنگی آپریشن تیز کیے جانے کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کی آزادی پسند جماعتوں کے خلاف بھی مزید سخت ترین کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگاتے ہوئے اس کے اثاثے ضبط کیے جا رہے ہیں اور جماعت اسلامی کے پانچ سو کے قریب عہدیداروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

حریت تنظیموں کے رہنماؤں کے خلاف غیر قانونی رقوم کے الزامات میں بھی چھاپوں، گرفتاریاں اور دیگر سخت کارروائیوں کا سلسلہ بھی تیز کیا گیا ہے۔ گورنر راج کے نافذ اور ریاستی اسمبلی الیکشن کے التوا پر بھارت نواز جماعتیں برہم ہیں لیکن ہندوستانی حکومتوں نے پہلے کب ان کی بات سنی ہے، جو اب سنی جائے گی۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے خطرات میں کمی اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی کے اقدامات میں ”امریکی سہولت کاری“ سے ایک بار پھر اس حقیقت کا اعادہ ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل میں امریکہ کا کردار ناگزیر ہے۔ یہ فیصلہ امریکہ کا ہے کہ وہ اپنے جنگی اسلحے کی فروخت کو ترجیح دیتا ہے یا جنوبی ایشیا میں ایسے دہکتے مسائل کے حل پر توجہ دیتا ہے جو خطے کے امن و ترقی ہی نہیں بلکہ امریکہ کے اس خطے سے متعلق مفادات کو بھی بھسم کر سکتے ہیں۔

فورسز کی ظالمانہ کارروائیوں میں کشمیریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ روزمرہ کے معمول کے طور پر جاری ہے۔ ہندوستانی حکام کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں تقریبا ڈھائی سو فریڈم فائٹر متحرک ہیں۔ یہ ہندوستان کے انسانیت سوز مظالم ہیں جن سے تنگ آ کر سیاسی جدوجہد کرنے والے کشمیری نوجوان مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہندوستان کی طرف سے مسلح جارحیت کے حملوں کی دھمکیوں کے ردعمل میں پاکستان کی طرف سے مضبوط ردعمل کا اظہار ہوا ہے تاہم حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کے خلاف مزاحمتی فریڈم فائٹرز کے بڑے حملوں کو ”دہشت گردی“ سے تعبیر کیے جانے کو پاکستان کی طرف سے کشمیر کاز سے مزید پسپائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کی صورتحال میں سخت ردعمل پاکستان کی دفاع سے مربوط و منسلک معاملہ ہے، زمینی حقیقت یہی ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے اور اس کی موقع محل کے حوالے سے بھی اپنی ترجیحات اور اپنی مجبوریاں ہو سکتی ہیں۔ تاہم مسئلہ کشمیر کے بنیادی فریق کشمیریوں کی آواز عالمی سطح پر کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ عالمی سطح پر کشمیریوں کی نمائندہ آواز کا نہ ہونا، مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک سرحدی تنازعہ کے طور پر ہی پیش کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور چارٹر کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے مطالبے کی سیاسی جدوجہد میں مرکزی اہمیت مقبوضہ کشمیر میں قائم حریت کانفرنس کو حاصل ہے جو اب JRL کے نام سے سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کی صورت موجود ہے۔ ہندوستانی حکومت کی سخت پابندیوں کی وجہ سے ان کا کردار محدود سے محدود تر ہے۔ آزاد کشمیر و پاکستان میں حریت کانفرنس اور اس میں شامل تنظیموں کی نمائندگی غیر موثر طور پر موجود ہے جس کا اعتراف مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کی قیادت کی طرف سے بھی کیا جاتا ہے۔

ریاست کشمیر کے آزاد کردہ خطے آزاد کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کی نمائندگی کے طور پر قائم حکومت کو کشمیر میں جنگ بندی سے پہلے ہی معاہدہ کراچی کے ذریعے مقامی انتظامیہ میں تبدیل کر دیا گیا اور آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے کشمیر کاز کے حوالے سے کردار کا اقرار کیا گیا۔ آج ایک بار پھر یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کو کشمیریوں کی طویل جدوجہد آزادی کی نمائندگی کا کردار تسلیم اور تفویض کیا جائے لیکن آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کے باوجود اس حوالے سے کوئی توجہ نظر نہیں آ رہی۔

کشمیر کاز کے نام پر برطانیہ، یورپی یونین اور امریکہ میں چند درجن تنظیمیں قائم ہیں لیکن کشمیر کاز کے حوالے سے متحرک ا ن تنظیمی حلقوں کے درمیان نہ تو موثر رابطے ہیں، نہ مشترکہ لائحہ عمل اور نہ اشتراک عمل۔ ہر تنظیم اپنے انداز میں غیر موثر طور پرکام کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر کے صدر، وزیر اعظم برطانیہ اور یورپی یونین سمیت مختلف ملکوں کے دورے کرتے ہیں اور ان تنظیموں میں سے اکثر آزاد کشمیر کے صدر، وزیر اعظم کی سرگرمیوں کے لئے تعاون اور سہولت کاری بھی کرتی ہیں۔

بلاشبہ انہی بعض تنظیموں کی کوششوں کے نتیجے میں یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر کی باز گشت کئی بار سنائی دیتی ہے لیکن کشمیر کاز کے حوالے سے ایک نمائندہ پلیٹ فارم موجود نہ ہونے کی وجہ سے ا ن تنظیموں کی کوششوں کو کشمیریوں کی نمائندگی کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ اس بات کا ا عتراف برطانیہ اور یورپی یونین میں کشمیر کاز کے حوالے سے قائم چند تنظیموں کی طرف سے بھی دیکھنے میں آیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک تیس سال سے سرگرم طور پر جاری ہے لیکن آزاد کشمیر میں سیاسی جماعتیں بار بار کے باہمی مشاورتی اجلاسوں میں ہی محدود و مقید ہیں۔ حقیقت سے دیکھا جائے تو آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں اپنے اس کردار سے عاری ہو چکی ہیں جو معاہدہ کراچی میں کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے حق کے طور پرتسلیم کیا گیا تھا۔ حکومتی سطح کی بات کریں تو آزاد کشمیر کے صدر کے مشیر رائے شماری کا تقرر ایک آئینی ذمہ داری ہونے کے باوجود بدستور غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔

یہ بھی آزاد کشمیر کی ایک بڑی سیاسی کمزوری ہے کہ کشمیر کاز کے حوالے سے کوئی بھی سرگرمی بھی آزاد کشمیر کی قبائلی اور علاقائی تقسیم کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ کشمیر کاز کے حوالے سے سیاسی سطح پر متحرک جماعتوں، رہنماؤں اور شخصیات کی ذمہ داری ہے کہ مسئلہ کشمیر کی تیزی سے بدلتی صورتحال میں عالمی سطح پر کشمیریوں کے نمائندہ پلیٹ فارم، نمائندہ آواز کے قیام کے لئے خلوص کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں۔ حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان گزشتہ تین عشروں میں ”خیر سگالی“ کے بہترین نظارے دیکھنے کو ملے ہیں، یوں آزاد کشمیر حکومت اور آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی اس حوالے سے ذمہ داری کلیدی نوعیت کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).