نیوزی لینڈ مسجد پر حملہ: پاکستان میں جلدی سے کرنے والے چھ کام


کرائسٹ چرچ، نیوزی لینڈ میں دو مساجد پر حملے کے نتیجے میں ابھی تک کی خبروں کے مطابق 49 افراد شہید ہو چکے ہیں۔ زخمیوں کی درست تعداد فی الحال معلوم نہیں۔ معلوم تو یہی ہورہا ہے کہ یہ حملہ دہشتگردی کی ہی نیت اور پلاننگ کے تحت کیا گیا، اور اس میں کارروائی کرنے والے دو افراد تو بہرحال شامل تھے۔ جوں جوں وقت گزرے گا، تحقیقات آگے بڑھیں گی تو عین ممکن ہے کہ Sleeper Cell بھی سامنے آ جائیں۔

ہمارے ملک کی تاریخ رہی ہے کہ مسلمانوں پر دنیا میں کہیں بھی ہونے والے ظلم پر، پاکستان میں بسنے والے غیرمسلموں کی آبادیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ ان حملوں میں سینکڑوں شہادتیں بھی ہو چکی ہیں۔ یہ رویہ بہت ہی شدت والا غلط ہے اور پاکستان کی مسلم اکثریت میں سے کسی کو بھی ایسے رویے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور بالکل بھی خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان میں بسنے والے غیرمسلم، پاکستانی ریاست کی ذمہ داری ہیں۔ پاکستانی سیاست کی ذمہ داری ہیں۔ پاکستانی معاشرت کی ذمہ داری ہیں، اور دنیا میں کہیں بھی ہونے والے ظلم کا بدلہ ان سے لینا بھی ظلم، بدنیتی، نا انصافی اور دہشتگردی ہے۔

میرے خیال میں پاکستان میں مندرجہ ذیل چھ کام فی الفور کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ نیوزی لینڈ میں پیش آنے والے اندوہناک واقعے کے اثرات سے، میرا ملک، میرے لوگ اور میرے لوگوں کی عبادتگاہیں محفوظ رہیں۔

1۔ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے پاکستانی نوجوان بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ بالخصوص، مسلم نوجوان اس بات کو یقینی بنائیں کہ نفرت پر بنیاد کرتی ہر پوسٹ، ہر ٹویٹ اور ہر پیغام فورا سے پہلے اس پلیٹ فارم، مثلا فیس بک، ٹویٹر وغیرہ کو رپورٹ کریں اور انتہا پسندی و تشدد کا پیغام پھیلانے والے کو اس بات کی تنبیہہ اور درخواست کریں کہ پاکستان کا امن، ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

2۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم یہ ہے کہ آج جمعہ کے دن، پاکستان کے بڑے سیاسی اور مذہبی رہنما اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے یہ بات لازما کریں کہ گرم۔ دماغ پاکستانی مسلمان اس بات کا جواب دینے کا سوچیں بھی مت۔ دہشتگردی، جہاں بھی ہو، دہشتگردی ہی ہے۔ نیوزی لینڈ میں کسی مسجد پر ہو، یا پاکستان میں کسی مندر، چرچ، گردوارے وغیرہ پر ہو۔

3۔ بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کرنے والے سماجی رہنما اور ادارے اس حملہ کے نتیجہ میں پیش آنے والی کسی بھی صورتحال کی پیش بینی کرتے ہوئے، سماج میں مذہبی اور معاشرتی ہم آہنگی کے پیغامات مسلسل نشر کریں۔

4۔ غیرمسلم سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنما، اس واقعہ کی مذمت کریں اور اپنی اپنی عبادتگاہوں میں شہید کر دیے جانے والے مسلمانوں کے حق میں دعائیہ محافل منعقد کروائیں۔ یہ کام، مسلمانوں کو بھی کرنا چاہیے کہ جب بھی ایسا کوئی خوفناک واقعہ پیش آتا ہو۔

5۔ مین۔ سٹریم مسلم اور غیر مسلم سیاسی، سماجی، معاشرتی اور مذہبی رہنما، اک دوسرے کے ساتھ دیکھے جانے چاہیئں کہ جہاں وہ پاکستان میں ہم آہنگی، یگانگت اور مذہبی رواداری کے حوالہ سے بات کرتے اور پیغامات دیتے ہوئے نظر آئیں۔

6۔ غیر مسلم رہنما، فورا سے پہلے اپنے اپنے علاقوں کی ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کریں اور اپنی عبادتگاہوں کے لازمی تحفظ کا مطالبہ کریں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ انہیں اک فول۔ پروف تحفظ فراہم کیا جائے۔

یہ یاد رکھیئے کہ پاکستان نے پچھلے چالیس سالوں میں مذہبی، سیاسی اور تزویراتی حوالہ جات کے تشدد میں ڈیڑھ لاکھ لوگ گنوا دیے ہیں، کروڑوں نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، سینکڑوں ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہے اور سب سے بڑھ کر: میرا وطن اور میرے لوگ دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے باوجود، دہشتگرد دیکھے اور سمجھے جاتے ہیں۔

ہم سب، بطور ذمہ دار پاکستانی، بہت بہتر کر سکتے ہیں۔ اور ہمیں بہتر ہی کرنا چاہیے۔ ہر قسم کے تشدد اور تشدد پر اکساتے حوالہ جات کی نفی کیجیے اور آپسی محبت اور ہم آہنگی کے پیغامات کی ترسیل کیجیے۔ میرے ملک کے وجود پر پہلے ہی ہزاروں زخم ہیں۔ اس میں اک اور کا اضافہ مت کیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).