بھارت بنام پاکستان بذریعہ مسعود اظہر


بھارتی نیشنل سکیورٹی کے مشیر اجیت ڈوول کے دسمبر 1999 میں بطور چیف مذاکرات کار، قندھار ائیرپورٹ پر انڈین ائیرلائن کی فلائٹ آئی سی 814 کی واگزاری کے بدلے ایک ایلمینٹری سکول ٹیچر کے فرزند مسعود اظہر کو رہا کرنے کے فیصلے نے بھارتی دفاعی حصار پر کاری ضرب لگائی۔ حالات کی نزاکت کے اعتبار سے سوچا گیا ہوگا کہ درجنوں افراد کی جان بچانے کی خاطر حرکت المجاہدین کے اس مقرر کی رہائی کوئی بڑی قیمت نہیں کیونکہ اس کی شہرت ایک عملی حریت پسند کی بجائے، تقریری حریت پسند کی ہے اور مستقبل میں بھی انہوں نے تقریری جہاد تک ہی محدود رہنا ہوگا۔

لیکن رہائی پاتے ہی مولانا مسعود اظہر نے ایک تنظیم جیش محمد کی بنیاد رکھی جس نے اپنا تعارف غیر روایتی طور پر 19 اپریل 2000 کو کشمیری حریت کی تاریخ میں پہلی بار ایک خودکش حملے سے کرایا۔ جدید، غیر روایتی لیکن منظم طریقے سے چلائی گئی مہم کا ایسا سلسلہ چلا کہ بعدازاں پارلیمنٹ حملہ سے لے کر پلوامہ حملے تک بھارتی حلقوں میں جیش محمد کے کردار کی ہی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ نائن الیون کے سانحے نے جیش محمد تنظیم کو تو دہشتگرد تنظیم قرار دلوا دیا لیکن بھارت کا اصرار مولانا کی شخصیت کو عالمی دہشتگرد قرار دلوانے پر رہا۔

ممبئی اٹیک کے بعد سے اب تک بھارت چوتھی مرتبہ مسعود اظہر کو عالمی دہشتگرد قرار دلوانے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے تاکہ پاکستان پر سفارتی برتری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حوالگی کا راستہ بھی آسان بنا سکے۔ موجودہ کیس کا پس منظر پٹھانکوٹ حملے کے بعد سے بھارتی کوشش کا تسلسل قرار دیا جاتا ہے۔

بھارت بنام مسعود اظہر کیس اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی انسداد دہشتگردی کمیٹی میں زیر غور ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیرمعمولی فیصلوں کا انحصار اس کی چار کمیٹیوں کی تجاویز پر منحصر ہوتا ہے جو کہ تمام پندرہ اراکین پر مشتمل ہوا کرتی ہیں۔ ان میں انسداد دہشتگردی کمیٹی، ملٹری اسٹاف کمیٹی، ایٹمی، کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی کمیٹی اور اقتصادی و سفارتی پابندی کی کمیٹی شامل ہیں۔ ان کمیٹیوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ہفتم کا تحفظ حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کی متفقہ تجاویز کو بحث و مباحثہ کے بعد سلامتی کونسل کی کارروائی میں رسمی منظوری کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر کوشش یہ کی جاتی ہے کہ تجاویز کو تمام اراکین کے اتفاق رائے کے بعد ہی منظوری کے لئے پیش کیا جائے۔

انسداد دہشتگردی کی کمیٹی کا قیام 1999 میں بذریعہ قرارداد 1267 کے ذریعے لایا گیا تھا جب طالبان نے القاعدہ کو اپنی کارروئیوں کے لئے افغان سرزمین پیش کی تھی۔ اس وقت کمیٹی کا مقصد طالبان اور القاعدہ سے مخصوص تھا۔ نائن الیون کے بعد ستمبر 2001 کے اواخر کی قرارداد 1373 کے مطابق اس کا دائرہ ان کی سہولت کار اور حمایت یافتہ تنظیموں تک وسیع ہوگیا۔ جس میں جیش محمد اور لشکر طیبہ سمیت دیگر پاکستانی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔

2011 میں کمیٹی میں طالبان معاملات کو القاعدہ سے الگ کردیا گیا اور 2015 میں مزید ترمیم کرکے داعش کو القاعدہ کی کیٹیگری میں رکھ دیا گیا۔ بھارت کی طرف سے مسعود اظہر کا ملاعمر اور اسامہ بن لادن سے ملاقات اور گہرے روابط کا حوالہ دینے کے ساتھ ساتھ پٹھانکوٹ، اڑی اور پلوامہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا دعوی بھی کیا جاتا ہے اس لئے اس کے مطابق یہ کیس کمیٹی میں پیش کیے جانے کے لائق ہے۔

بھارت کی طرف سے پیش کردہ مولانا مسعود اظہر کیس اس مرتبہ اس واسطے بھی اہمیت اختیار کرچکا ہے کہ اسے فرانس، برطانیہ اور امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ تاہم چین تاحال اپنے ”تیکنیکی وجوہات“ والے موقف پر قائم ہے۔

جنوری 2016 میں پٹھانکوٹ حملے کے بعد بھارت نے جب مسعود اظہر کو عالمی دہشتگرد قرار دینے کی درخواست جمع کروائی تو چین نے یہ کہہ کر اس پر چھے ماہ تک کے لئے عملدرآمد رکوا دیا تھا کہ بھارت کمیٹی کے تمام اراکین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا اور تیکنیکی طور پر تمام اراکین کا اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ بحث کا کوئی متفقہ نتیجہ نہ نکلنے پر مزید تین ماہ کا عرصہ بھی دیا گیا لیکن ناکامی کی بنا پر ستمبر میں درخواست وقت پورا کر گئی۔

اسی سال دسمبر میں بھارت نے ایک مرتبہ پھر درخواست کی لیکن چین نے اسی نکتے کی بنا پر رد کر دی۔ جنوری 2017 میں یہ درخواست امریکہ کی جانب سے دائر کی گئی لیکن اس میں بھی چین نے تیکنیکی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے عملدرآمد روکے رکھا یہاں تک کہ نومبر میں وقت پورا کر کے ریکارڈ کا حصہ بن گئی۔ حالیہ حکمت عملی میں بھارت نے کمیٹی کے سربراہ ملک فرانس کے ذریعے ایک بار پھر درخواست دائر کی ہے اور یہ دعوی بھی کیا جارہا ہے کہ اس مرتبہ چین عملدرآمد سے نہیں روکے گا۔ اکنامک ٹائمز کے مطابق بھارت نے چین کے بنیادی اعتراض کہ مسعود اظہر کے زیر انتظام جیش محمد کا پاکستان بیسڈ ہونے کے نکتے کو ختم کر کے حمایت کی راہ ہموار کر لی گئی ہے۔

دوسری جانب پاکستان نے 2002 میں جیش محمد پر پابندی لگا کر ہی لاتعلقی کا اعلان کردیا تھا جس بنا پر پاکستان ریاستی سطح پر اس تنظیم پر وہی پالیسی رکھتا ہے جو عالمی برادری کی ہے تاہم حالیہ الزام چونکہ ایک شخصیت کو دہشت گرد قرار دلوانے پر ہے تو اس پر بحث جاری ہے۔

مقصد بالکل واضح ہے بھارت نے دفاعی میدان میں تو اپنی جگ ہنسائی کروا لی لیکن اب سفارتی میدان میں زور بازو آزما رہا ہے تاکہ پاکستان کو اپنی دیرینہ خواہش کے مطابق سفارتی سطح پر تنہا کر سکے۔ اس وقت سلامتی کونسل اور ایف اے ٹی ایف دو بڑے سفارتی محاذ ہیں جن پر بھارت پاکستان کو نقصان دینے کی تگ و دو میں ہے۔ امید ہے کہ پاکستان دفاعی محاذ کی طرح سفارتی میدان میں بھی غافل نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).